تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-10-2024

الفراق

اردو شاعری کی ہر صنف ہی اپنی جگہ پر ایک موتی ہے جس سے اردو شاعری کی مالا مکمل ہوتی ہے ‘لیکن اردو شاعری کے ماتھے کا جھومر بلا شبہ غزل ہے۔ اس نالائق طالب علم کا ذاتی خیال ہے کہ غزل کا دامن جتنا وسیع ہے اتنا کسی اور صنفِ شاعری کا نہیں‘ کہ اس میں نہ مضمون کی قید ہے اور نہ ہی موضوع کی پابندی۔ آپ ایک ہی غزل میں گل و لالہ کی بات کر سکتے ہیں اور لب و رخسارکی بھی۔ دنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی رنگینی کا ذکر ایک ہی شعر میں کیا جا سکتا ہے۔ قدرت کے مظاہر سے لے کر سائنس کے کرشمے تک اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ کلاسیکل رنگ بھی موجود ہے اور جدیدیت کے سارے لوازم بھی حاضر ہیں۔ دامن ایسا وسیع کہ 'نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‘ کا مصرع اس کی درست عکاسی کرتا ہے۔ اسے ہر دور میں تازہ خون بھی ملتا رہا ہے اور تازہ تر موضوعات بھی۔ غزل کا تنوع ایسا آبِ رواں ہے جو ہرگزرتے دن اس کے مضامین اور موضوعات کی جھیل میں وسعت پیدا کر رہا ہے۔ میر‘ غالب‘ سراج‘ داغ‘ مومن‘ ذوق‘ اقبال‘ جگر‘ فیض‘ ناصر کاظمی‘ احمد فراز‘ منیر نیازی‘ افتخار عارف‘ اظہار الحق‘ ظفر اقبال‘ قاسم پیرزادہ‘ عباس تابش‘ عمیر نجمی‘ قمر رضا شہزاد اور شوکت فہمی سلسلۂ غزل کے چند مسافروں کا نام ہے وگرنہ اس قافلے کے راہرو اتنے زیادہ ہیں کہ محض ان کا نام ہی لکھا جائے تو کئی جلدوں پر مشتمل فہرست مرتب ہو جائے۔ نوجوانوں میں ایسے ایسے کشیدہ کار ہیں کہ ان کی پھلکاری دیکھ کر غزل کا مستقبل ایسا روشن دکھائی پڑتا ہے کہ جی خوش ہو جاتا ہے۔ اس لامحدود باغ سے چند کلیاں پیشِ خدمت ہیں۔
میں عدو سے کوئی گلہ کروں بھی تو کس لیے
میں تو دوستوں کے بھی دل میں گھر نہیں کر سکا (مستحن جامی)
محبت عمر بھر تم سے کریں گے اور تم کو
بزرگوں کے کہے پر عاجزانہ چھوڑ دیں گے (معید مرزا)
ہجرتِ خانہ بدوشاں بھی کوئی ہجرت ہے
ہم تو ویرانے میں آئے کسی ویرانے سے (سجاد بلوچ)
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے (اسد فاضلی)
گزرتے جا رہے ہیں ماہ و سالِ زندگانی
مگر اک غم پسِ عمرِرواں ٹھہرا ہوا ہے ( ڈاکٹر ضیا الحسن)
میں تو جیسا بھی ہوں سب لوگ مجھے جانتے ہیں
تیرے بارے میں بھی اک بات سنی ہے میں نے (نصرت صدیقی)
غزل ایک ایسا وسیع سمندر ہے کہ اس کا احاطہ کالم میں تو کجا سینکڑوں صفحات پر مشتمل کسی تحقیقی مقالے میں کرنا بھی ممکن نہیں کہ اس کی تہ در تہ پرتیں اور ہزار پہلو جہتیں کھولنا ناممکنات کے قریب کی شے ہے۔ اس وسیع و عریض بلکہ حدِ امکانات سے بڑے کینوس کے رنگوں کا شمار کم از کم مجھ کم علم کے بس کی شے تو ہرگز بھی نہیں۔ عالم یہ ہے کہ تاحدِ نظر پھیلے ہوئے اس پینوراما کے پار بہت سے باکمال شاعر ایسے ہیں جو اس کی وسعت میں کھو کر رہ گئے ہیں اور انہیں وہ مقام نہیں مل سکا جس درجۂ کمال پر وہ فائز ہیں۔ احمد مشتاق‘ شکیب جلالی اور جمال احسانی ایسے ہی شعرا ہیں اور چند روز قبل رخصت ہو جانے والا اجمل سراج‘ کیسی کیسی اچھوتی غزلیں‘ کیسے کیسے تابدار اشعار جو آسمانِ غزل پر ستارہ بن کر دمکنے کے لائق تھے مگر ناقدر شناسیٔ زمانہ کا شکار ہو گئے۔
وہ بے ثباتیِ عالم پہ بحث تھی سرِبزم
میں چپ رہا کہ مجھے یاد تھا وہ چہرہ بھی
.........
مجھے بنایا تھا جس روز خاک سے اس نے
میرا غرور بھی سب خاک میں ملا دیا تھا
.........
کسی کے ہجر میں جینا محال ہو گیا ہے
کسے بتائیں ہمارا جو حال ہو گیا ہے
کہیں گرا ہے نہ روندا گیا ہے دل پھر بھی
شکستہ ہو گیا ہے پائمال ہو گیا ہے
کوئی بھی چیز سلامت نہیں مگر یہ دل
شکستگی میں جو اپنی مثال ہو گیا ہے
مسافتِ شبِ ہجراں میں چاند بھی اجملؔ
تھکن سے چور‘ غموں سے نڈھال ہو گیا ہے
.........
کسی کی قید سے آزاد ہو کے رہ گئے ہیں
تباہ ہو گئے برباد ہو کے رہ گئے ہیں
اب اور کیا ہو تمنائے وصل کا انجام
دل و دماغ تری یاد ہو کے رہ گئے ہیں
کسی کی یاد دلوں کا قرار ٹھہری ہے
کسی کے ذکر سے دل شاد ہو کے رہ گئے ہیں
ترے حضور جو اشکِ بہار تھے اجملؔ
خراب و خوار تیرے بعد ہو کے رہ گئے ہیں
.........
فائدہ کیا ہے ہمیں اور خسارہ کیا ہے
جو بھی ہے آپکا سب کچھ ہے ہمارا کیا ہے
ہم نے کچھ ایسی بنا رکھی ہے حالت اپنی
پوچھتا کوئی نہیں حال تمہارا کیا ہے
کچھ نہیں دیکھتے کچھ بھی ہو ترے دیوانے
دیکھتے ہیں تری جانب سے اشارہ کیا ہے
مر گئے ہوتے تو یاد آتے تمہیں بھی اجملؔ
جی رہے ہیں تو قصور اس میں ہمارا کیا ہے
.........
دیوار یاد آ گئی‘ دَر یاد آ گیا
دو گام ہی چلے تھے کہ گھر یاد آ گیا
دنیا کی بے رخی کا گلہ کر رہے تھے لوگ
ہم کو ترا تپاک مگر یاد آ گیا
اجملؔ سراج ہم اسے بھولے ہوئے تو ہیں
کیا جانے کیا کریں گے اگر یاد آ گیا
کیا شاندار شاعر تھا اور جہان و معنی کے کیا نئے رنگوں سے آراستہ شعر کہتا تھا۔ 28 جولائی کو فارم ایوو نے کراچی میں بیادِ مشتاق احمد یوسفی ایک شام کا اہتمام کر رکھا تھا اور میں اس میں شرکت کے لیے کراچی پہنچا۔ اجمل سراج ایک عرصے سے اس کمپنی کی ادبی تقریبات کا معاون و منتظم تھا۔ کراچی والے پروگرام میں اجمل سراج دکھائی نہ دیا تو میں نے اس کے بارے میں دوستوں سے پوچھا۔ معلوم ہوا کہ اس کی طبیعت ناساز ہے۔ بھلا مجھے کیا خبر تھی کہ اب اس سے کبھی ملاقات نہ ہو گی ورنہ صبح کی فلائٹ چھوڑ دیتا مگر ہماری زندگی اسی قسم کے ملال سے عبارت ہے۔ ادھر آسٹریلیا پہنچ کر فون آن کیا تو پہلی خبر اجمل سراج کی رخصتی کی ملی۔
آسمانِ سخن سے غزل کا ایک اور ستارہ کم ہوا مگر مجھے یقین ہے کہ اس کی شاعری کا مہ کامل بامِ غزل پر تادیر روشن رہے گا۔ اس کی دو کتابیں ہم جیسے عاشقانِ سخن کو دلاسا دیتی رہیں گی۔ اس کی آخری کتاب ''الفراق‘‘ ہے۔ ارشاد ربانی ہے ''قال ہذا فراق بینی وبینک‘‘ (اس نے کہا: بس میرا اور تمہارا ساتھ ختم ہوا)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved