وزیراعظم شہباز شریف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نو مئی میں ملوث افراد کو معافی تب ملے گی جب وہ دل سے معافی مانگیں گے۔ان کے کہنے کا مطلب شاید یہ تھا کہ خان صاحب دل سے معافی مانگ لیتے ہیں تو حکومت معاف کرنے کے لیے تیار ہے‘ لیکن کیا یہ بات اس قدر سادہ ہے جیسے بیان کی جا رہی ہے؟ ہرگز نہیں! مقتدرہ کسی صورت قبول نہیں کرے گی۔ مقتدرہ کی طرف سے کئی بار نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو معاف نہ کرنے کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ اگر نو مئی کے ملزمان کو وسیع تر قومی مفاد میں معافی دینے کی منصوبہ بندی کر لی جاتی ہے تو ان کے خلاف چلنے والے مقدمات کا کیا ہو گا؟ شایدخان صاحب بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی معافی کو اعترافِ جرم سمجھا جائے گا ۔بہرکیف ان خدشات کے باوجود اگر بات معافی مانگنے سے ختم ہو سکتی تو اسے عملی شکل دینا اتنا مشکل نہیں ہونا چاہیے جتنا بنا دیا گیا ہے‘ بس کرنا یہ ہے کہ حکومت کو خان صاحب کو نو مئی کے مقدمات ختم کرنے کی یقین دہانی کرانا ہو گی۔
پاکستان کے عوام طویل عرصے سے ایک ہیجانی کیفیت میں ہیں‘ جسے واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ذہنوں میں سنہرے خوابوں کی جگہ خدشات کے پہاڑ ہیں۔عوام میں پائی جانے والی بے چینی کی وجہ خالصتاً سیاسی ہے‘ ایک بڑی سیاسی جماعت سے وابستہ کروڑوں لوگوں کا دوسری جماعتوں سے وابستہ کروڑوں لوگوں سے سوچ کا ٹکراؤ ہے۔ سیاسی قیادت کی سوچ عوام میں سرایت کرچکی ہے اور کروڑوں افراد اپنے ہی ہم وطنوں کو دشمن سمجھنے لگے ہیں‘ حالانکہ جمہوریت میں دوسرے کے جذبات کا خیال کیا جاتا ہے‘ اپنے جمہوری حق پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے جمہوری حق کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت معاملہ یکسر الٹ ہے‘ یہاں صرف اپنے جمہوری حق کو ہی درست سمجھ لیا گیا ہے۔ مشکل حالات قوموں کو کندن بناتے ہیں‘ متعدد ممالک ایسے ہیں جن کی تباہی بارے مختلف آرا قائم کی گئیں مگر وہ نہ صرف اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے‘ خودکفیل ہوئے بلکہ چند ہی برسوں میں ترقی کی منازل طے کر لیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی ایک تباہ شدہ ملک تھا۔ اس ملک کو جنگ کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا۔ لوگ بے روزگار‘ غریب اور بھوکے تھے‘ ملک کا مستقبل اندھیرے میں تھا لیکن جرمن قیادت نے دانشمندی سے کام لیا۔ جرمنی کے چانسلر کونراڈ ایڈینار نے ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے‘ معیشت‘ تعلیمی نظام اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا گیا۔ یہ جرمن قیادت کی دور اندیشی تھی کہ ملک بہت جلد ترقی کرنے لگا۔ جرمنی کی معیشت مضبوط ہو گئی‘ لوگوں کو روزگار ملنے لگا‘ غریبی ختم ہو گئی۔ جرمنی کی قیادت کی وجہ سے اس ملک کی عزت اور احترام میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ جرمنی ایک طاقتور اور عزت دار ملک بن گیا۔ آج یہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک میں ایک ہے‘ جس نے دنیا بھر میں اپنا نام روشن کیا ہے۔ جرمنی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے جس کا حجم تقریباً چار ٹریلین ڈالر ہے۔ جرمنی میں فی کس سالانہ آمدنی تقریباً 49 ہزار ڈالر ہے۔ جرمنی کی معاشی ترقی کا سب سے بڑا عنصر اس کی مضبوط صنعت ہے۔جرمنی کی معاشی ترقی کا دوسرا بڑا عنصر اس کی اعلیٰ تعلیم ہے۔ جرمنی کی معاشی ترقی کا ایک بڑا عنصر اس کا مضبوط سیاسی نظام ہے۔ جرمنی کی معاشی ترقی کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کس طرح قائدانہ صلاحیتوں کی حامل قیادت نے ایک تباہ شدہ ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کیا‘ جرمنی اس کی بہترین مثال ہے۔ کئی دیگر ممالک کی مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں جنہوں نے انتہائی کم عرصے میں ترقی کی منازل طے کی ہیں۔
آپ کو اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں جانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ وہاں لوگ زندگی کو بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔ ان ممالک کے لوگ بہت زیادہ سفر کرتے ہیں۔ انہیں دنیا کے مختلف حصوں میں جانے کا موقع ملتا ہے۔ وہ نئی جگہیں دیکھتے ہیں‘ مختلف ثقافتوں سے آشنا ہوتے ہیں اور اپنے تجربات کو بڑھاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے پاس وافر وقت ہوتا ہے کہ وہ تفریح کریں اور وہ اپنے شوق پورے کریں۔ ترقی پذیر ممالک کی نسبت ترقی یافتہ ممالک میں لوگ ایسی صحتمند زندگی گزارتے ہیں جس کا ترقی پذیر ممالک کے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی کا نچوڑ نکالیں تو دو باتیں نمایاں طور پر نظر آئیں گی: ایک معاشی برتری اور معاشی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے سیاسی استحکام۔
پاکستان کی سیاسی قیادت مگر یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے۔یہاں کی سیاسی کشمکش ایک ایسا طوفان ہے جو ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب کسی ملک میں سیاسی کشمکش شدت اختیار کر لیتی ہے تو وہاں کے لوگ پریشانی‘ عدم اطمینان اور خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر لوگ اپنے روزمرہ کے کاموں پر توجہ نہیں دے پاتے اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ کسی بھی معاملے کا تصفیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فریقین لچک اور تحمل کا مظاہرہ کریں۔ ہمارے ہاں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ایک فریق مذاکرات یا تصفیے کی بات کرتا ہے تو دوسرا اسے اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔ نتیجتاً بات آگے نہیں بڑھ پاتی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے طرزِ عمل کو ہی دیکھ لیجئے جو '' اینٹ کا جواب پتھر ‘‘سے دے رہے ہیں۔ انہوں نے برملا کہا ہے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ہمیں مارے گا تو وہ خود مرنے کے لیے تیار رہے۔ علی امین گنڈا پور کی تلخی کی وجہ یہ ہے کہ چند روز پہلے انہیں راولپنڈی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ پولیس کی جانب سے پی ٹی آئی کے کارکنوں پر آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے جس کے باعث علی امین گنڈا پور اپنے قافلے کے ساتھ راولپنڈی میں داخل نہ ہو سکے۔ وفاق میں آج اتحادی حکومت ہے تاہم جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تب بھی اپوزیشن کا راستہ روکنے کے لیے ایسے ہی طریقے آزمائے جاتے تھے۔ ہر حکومت اپوزیشن کا راستہ روک کر اس اقدام کو اپنی کامیابی سے تعبیر کرتی ہے‘ یہی سوچ دراصل عدم استحکام کو فروغ دیتی ہے کیونکہ اپوزیشن جب حکومت میں آتی ہے تو وہ بھی اس کا اعادہ کرتی ہے۔ بہرحال اب یہ کھیل ختم ہونا چاہیے کیونکہ جب تک سیاسی کشمکش جاری رہے گی‘ ترقی کے راستے مسدود رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved