تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     02-10-2024

حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد اسرائیل کے توسیعی عزائم

حماس کے مرکزی رہنما اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے 31 جولائی کو تہران میں شہید کر دیا تھا‘ اب ہفتے کے روز اسی صہیونی ریاست نے دہشت گردی کی انتہا کرتے ہوئے جنوبی بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی رہنما حسن نصراللہ کو بھی شہید کر دیا ہے۔
اسرائیل نے بیروت کی کئی منزلہ بلند عمارت پر مسلسل پانچ گھنٹے بمباری کی۔ حسن نصراللہ اس عمارت کی زیر زمین تیسری یا چوتھی منزل میں مقیم تھے۔ اس وحشیانہ بمباری میں اسرائیل نے 85 بنکر بسٹر استعمال کیے‘ جن میں سے ہر بم کا وزن 2000 پاؤنڈ تھا۔ غزہ‘ بیروت اور اس کے بعد یمن کے ایک شہر پر بھی اسرائیلی طیاروں نے مسلسل بمباری کی۔
اسرائیل خطے میں ایک دندناتا ہوا دیو ہے۔ اس کا پیغام یوں بھی بڑا واضح تھا مگر اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ جنوبی بیروت پر حملے کے دوران وہ خود ایئر کنٹرول روم میں تھا۔ اس نے کہا: ہمارا پیغام بڑا واضح ہے کہ کوئی ہم سے دور نہیں۔ ہم جب چاہیں گے جہاں چاہیں گے اور جسے چاہیں گے‘ نشانہ بنائیں گے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل کا انٹیلی جنس نیٹ ورک دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔
اسرائیل ایک سال سے امریکہ اور اکثر یورپی ممالک کی مکمل حمایت اور اُن کے مسلسل فراہم کردہ مہلک ترین اسلحے کے ساتھ غزہ پر خوفناک بمباری کر رہا ہے مگر اس کا ہاتھ روکنے والاکوئی نہیں۔ اس کے پاس اسلحے کے اتنے انبار ہیں کہ جتنے سارے عربوں کے پاس ملا کر بھی نہیں ہوں گے۔ امریکہ اور یورپ کا سارا اسلحہ اور ساری جدید ترین ٹیکنالوجی بھی اسرائیل کی دسترس میں ہے۔
اس ایک سال کے دوران جنگ بندی کی جتنی بھی کوششیں ہوتی رہیں اسرائیل نے انہیں تسلیم نہیں کیا۔ سلامتی کونسل میں جتنی بھی سیز فائر کی قراردادیں پیش کی گئیں امریکہ نے سب کو ویٹو کر دیا۔ اس دوران غزہ میں 41 ہزار سے زائد انسان لقمۂ اجل بن گئے‘ جن میں پندرہ ہزار پھول سے بچے بھی شامل ہیں‘ یہ پھول آگ میں جل گئے۔ ایک لاکھ کے قریب شدید زخمی ہیں۔ 365 مربع کلومیٹر کی غزہ ریاست کھنڈرات کا ڈھیر بن چکی ہے۔ اس نسل کشی پر ساری مہذب دنیا تڑپ اٹھی‘ امریکہ اور یورپ میں بھی تقریباً ایک برس سے مسلسل ہزاروں اور لاکھوں کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ضمیر مغرب میں جتنا بھی ہے وہ اُن کی روشن خیال پبلک اور دانشوروں میں ہے۔ وہاں کے حکمرانوں نے اپنے ضمیروں کو سلا کر اسرائیل کے ہر ظلم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔
اسرائیل غزہ کی ایک سالہ جنگ کے دوران اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اسرائیلی دہشت و بربریت رکوانے اور سیز فائر کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہے مگر امریکہ اور اس کے حواریوں نے اُن کی کسی کاوش کو بار آور نہیں ہونے دیا۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت سے قبل گوتریس نے یو این او جنرل اسمبلی کے 79ویں سیشن کے افتتاحی اجلاس سے نہایت دردمندانہ خطاب کیا تھا۔ انہوں نے یوکرین‘ غزہ‘ سوڈان اور میانمار وغیرہ میں بے قصور شہریوں کی ہزاروں کی تعداد میں اموات‘ زخمیوں اور مالی نقصانات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ گلوب اب بڑی طاقتوں کی من مانی کی دنیا ہے‘ یہاں اقوام متحدہ کے قوانین اور اس کے چارٹر کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جاتی ہے‘ اب یہ عدم مساوات اور ناانصافی کی دنیا بن چکی ہے۔ حکومتیں اپنے عالمی و علاقائی مقاصد کے لیے ہر طرح کی قانون شکنی اور اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں یو این او کے 200 سٹاف ممبران بھی اس جنگ کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود ہمارے ہزاروں رضاکار جنگ زدہ غزہ میں امدادی کام انجام دے رہے ہیں۔ یو این او سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا کہ اگر غزہ میں فوری طور پر سیز فائر نہیں ہوتا تو یہ جنگ دیگر علاقوں میں بھی پھیل جائے گی۔
اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ لبنان میں اسرائیل بمباری میں انتہائی تیزی لائے گا اور عرب دنیا کے ایک انتہائی اہم رہنما حسن نصراللہ کو ہدف بنائے گا۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو چاہتا کیا ہے؟ اسرائیلی انتہا پسند لیڈر یہ چاہتا ہے کہ وہ حماس کی قیادت ہی نہیں‘ اس کے سٹرکچر کو بھی تباہ کر دے۔ اسی طرح وہ حزب اللہ کا بھی خاتمہ چاہتا ہے۔ صہیونی ریاست کا پروگرام ہے کہ علاقے کی کسی مزاحمتی تحریک کو سر اٹھانے نہ دیا جائے۔نیتن یاہو جنگ کو پھیلا کر ایران تک لے جانا چاہتا ہے تاکہ اگر ایران ردعمل کے طور پر کوئی اقدام کرے تو اسے جواز بنا کر اسے بھی سبق سکھایا جائے اور علاقے میں اپنی مکمل دھاک بٹھا دی جائے۔ پہلے امریکہ اور مغربی طاقتوں نے عراق کو اس جال میں پھانسا اور اس کی ساری مضبوط جنگی مشینری اور فوج کو تباہ کر ڈالا۔ مگر ایران ایسے کسی ٹریپ میں نہیں آئے گا۔ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ خطے میں امریکہ کے قریبی اتحادی عرب ممالک کیا عالمی طاقت پر کوئی دوستانہ یا اخلاقی دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں ہیں ؟ کیا وہ امریکہ کو غزہ میں فوری طور پر سیز فائر کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں؟ کیا وہ 1967ء اور 1973ء کی طرح اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ کرنے پر تیار ہو سکتے ہیں؟ اُس وقت شاہ فیصل شہید نے مغربی دنیا کو تیل کی ترسیل بند کر دی تھی۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور ابراہم اکارڈ کے حوالے سے اہم عرب ممالک اسرائیل کو اس کی قانونی و اخلاقی ذمہ داریاں یاد دلا سکتے ہیں اور سیز فائر پر آمادہ کر سکتے ہیں؟ یہ مختلف آپشنز ہیں۔
امریکی انتخابات سر پر ہیں‘ موجودہ حکمران جماعت ڈیمو کریٹس کی کامیابی میں ہمیشہ امریکی مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ چونکہ ڈیمو کریٹس ریپبلکنز کی طرح تارکین وطن کے خلاف نہیں‘ اس لیے وہ اسے اپنا ووٹ دیتے ہیں۔ ریاست مشی گن میں مسلمانوں کی کثرت ہے۔ اس بار وہاں کے مسلمانوں نے ڈیمو کریٹس کی اسرائیل نواز پالیسی کی بنا پرا نہیں ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مغرب کے حکمران خود تو اسرائیل کو اسلحہ کی سپلائی روکتے ہیں اور نہ ہی سیز فائر کے لیے اس پر دباؤ ڈالتے ہیں‘ تاہم وہ اپنے ملکوں میں اسرائیل کی پُرزور مذمت کے لیے لاکھوں اور ہزاروں کے مظاہرے‘ چاہے وہ وائٹ ہاؤس واشنگٹن کے سامنے ہی کیوں نہ ہوں‘ پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتے۔ جبکہ یہاں پاکستان میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار حکمران اہلِ فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے لیے اسلام آباد یا کراچی میں کوئی چھوٹا بڑا مظاہرہ بھی ہو تو اسے لاٹھیوں اور آنسو گیس سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔اور سینیٹر مشتاق احمد جیسی شخصیت کو بھی گرفتار کر لیتے ہیں۔
یہ ہے عربوں اور مسلمانوں کا موجودہ منظر نامہ جس کی روشنی میں آپ نے مستقبل کا کوئی لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔ اس حقیقت حال کو مدنظر رکھیے کہ امریکہ اور یورپ ٹنوں کے حساب سے اسرائیل کو اسلحہ اور ہر طرح کی بھاری امداد فراہم کر رہے ہیں۔ صہیونی ریاست گریٹر اسرائیل کے لیے اپنی توسیعی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ مزاحمتی تحریکیں اپنی لیڈرشپ کے نقصانات سے وقتی طور پر قدرے مدھم تو ہو جاتی ہیں مگر پھر وہ پوری قوت سے ابھرتی ہیں۔
اس وقت تمام عرب اور مسلم قیادتوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور ایک فیصلہ کن پالیسی طے کر کے خطے کو بدامنی سے پاک کرانا چاہیے۔ بالخصوص غزہ اور لبنان میں خونِ مسلم کی ارزانی بند کرانی چاہیے۔ اس وقت او آئی سی کا فوری ہدف خطے میں مستقل سیز فائر اور فلسطین کی خودمختار ریاست کا قیام ہونا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved