اسلامی کاز کی کامیابی پر یقین رکھنے والا ہر دل آج ایک بار پھر غمناک اور مسلم اُمہ کی ترقی کی منتظر ہر آنکھ بارِ دگر نمناک ہے۔ دو ماہ کے عرصے میں امتِ مسلمہ کا یہ دوسرا بڑا نقصان ہوا ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کا سوگ ابھی باقی تھا کہ اسی سطح کا ایک اور بڑا لیڈر ہم سے چھن گیا۔ ایک بڑا لیڈر ہی شہید نہیں ہوا بلکہ اسرائیل کے جارحانہ عزائم نے مشرقِ وسطیٰ کو ایک نئی مہیب اور تباہ کن جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ منگل کی رات ایران کی جانب سے اسرائیل پر 200 کے قریب میزائل داغے جانے کے عمل نے صورتحال کی کشیدگی میں اضافہ کر دیا ہے جس کا اندازہ مختلف ممالک کی قیادت کی جانب سے دیے جانے والے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ایران نے حملہ کر کے بہت بڑی غلطی کی اور اسے اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل پر ایرانی حملہ ناکام ہو گیا‘ ایران کی حکومت ہمارے عزائم کو نہیں سمجھتی مگر اب وہ سمجھ جائے گی۔ امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون کے سربراہ لائیڈ آسٹن نے ایران کے بیلسٹک میزائل حملوں کے جواب میں اسرائیل کے دفاع کو سراہا اور گمبھیر صورتحال پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن ایران اور ایران کی حمایت یافتہ تنظیموں کے خطرات کے پیش نظر امریکی اہلکاروں‘ اتحادیوں اور شراکت داروں کا دفاع کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اس کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واضح کیا کہ ایران کی کارروائی ختم ہو چکی ہے‘ تاہم اگر اسرائیل مزید جوابی کارروائی کرتا ہے تو اس کا جواب بھرپور اور اس سے بھی زیادہ طاقت سے دیا جائے گا۔ ایرانی وزیر خارجہ نے امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت نہ کرے جبکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے اسرائیل کو متنبہ کیا ہے کہ اگلا حملہ اس سے زیادہ تکلیف دہ ہو گا۔
یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر پہلا میزائل حملہ کیا گیا تھا جو دمشق میں اسکے قونصل خانے کو تباہ کرنے اور سات فوجیوں کی شہادت کا باعث بننے والے حملے کے ردِ عمل میں کیا گیا تھا۔ یہ دوسرا حملہ تھا‘ لیکن حیرت انگیز طور پر نہ تو پہلے حملے میں کسی جانی نقصان کی کوئی خبر آئی اور نہ اب آئی ہے۔ اسکی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیلی میڈیا مکمل طور پر ریاست کے کنٹرول میں ہے اور اسرائیل کے نقصان کی کوئی بھی خبر باہر نہیں جانے دی جاتی۔ جبکہ آزاد صحافتی ذرائع اسرائیل میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے کسی علاقے پر پھینکا گیا ایک میزائل نہ صرف عمارات کی تباہی کا باعث بنتا ہے بلکہ بیسیوں قیمتی جانیں بھی چلی جاتی ہیں‘ جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہوتی ہے۔ معمر افراد کی ایک بڑی تعداد بھی غزہ میں اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنی ہے۔ بہرحال پاسدارانِ انقلاب نے اسرائیل پر حملے کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ‘ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ اور پاسداران کمانڈر عباس نیلفروشان کی شہادتوں کا بدلہ قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ میزائل حملے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور وہ اس کے ردعمل کے حوالے سے اسرائیلی وزیراعظم کی ساتھ تبادلۂ خیال کریں گے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روک رہے ہیں کیونکہ انہوں نے اسرائیل پر ایران کے میزائل حملے کی واضح مذمت نہیں کی۔
ایران اور اسرائیل کے عسکری سربراہوں نے بھی ایک دوسرے کے خلاف سنگین نتائج پر مبنی بیانات دیے ہیں۔ ایرانی فوج کے سربراہ نے اسرائیل کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اب اگر ایران پر حملہ کیا گیا تو اسرائیل کے تمام انفراسٹرکچر کو نشانہ بنائیں گے جبکہ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینئل ہگاری نے ایرانی حملے کے اختتام کی اطلاع دیتے ہوئے اپنے شہریوں کو شیلٹرز سے باہر آنے کی اجازت دیتے ہوئے ٹیلی ویژن خطاب میں کہا کہ اسرائیلی فوج 'دفاع اور جوابی کارروائی‘ کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ اس حملے کا جواب صحیح وقت پر دیا جائے گا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے منگل کے روز لبنان میں اسرائیل کی زمینی کارروائی کی مذمت کی اور اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر زور دیا کہ وہ ''مزید وقت ضائع کیے بغیر‘‘ اسرائیل کو روکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطین اور لبنان کے بعد اسرائیل کی نگاہیں ترکیہ پر ہوں گی۔ ادھر جرمن چانسلر اولاف شولز نے ایران اور حزب اللہ پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اسرائیل پر حملے کرنا بند کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے حملوں کے بعد یہ آگ پورے خطے میں پھیل سکتی ہے اور اسے ہر قیمت پر روکا جانا چاہیے۔
کبھی آپ نے سوچا کہ مشرقِ وسطیٰ پر ایک تباہ کن جنگ کے جو مہیب بادل منڈلا رہے ہیں‘ اسکی کیا وجہ ہے؟ اسکی سب سے بڑی وجہ ہے جانبداری اور غیر جانبداری۔ جانبداری وہ جو امریکہ اور اس کے حامی ممالک اسرائیل کے حوالے سے اختیار کرتے ہیں اور غیر جانبداری وہ جو عرب ممالک پہلے فلسطین اور اب لبنان کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھنے کے باوجود برقرار رکھے ہوئے ہیں‘ حالانکہ یہ طے ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ چھڑی تو اس کی تپش نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا میں محسوس کی جائے گی کیونکہ آج کی دنیا ایک گلوبل وِلیج بن چکی ہے‘ جس میں کسی خطے کا کوئی ملک کسی دوسرے ملک بلکہ پوری عالمی برادری سے الگ تھلگ ہو کر نہیں رہ سکتا۔
سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے افسوسناک ردعمل سامنے آیا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے لبنان کی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کو تاریخی موڑ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام خطے میں طاقت کا توازن بدلنے کے لیے ضروری تھا۔ ان کے بقول حسن نصراللہ اور ان کے ساتھی اسرائیل کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کی شہادت پر اپنے رد عمل میں اسے بہت سے متاثرین کے لیے ''انصاف‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دہائیوں کے دوران حسن نصراللہ اور ان کے زیر قیادت حزب اللہ سینکڑوں امریکیوں کو ہلاک کرنے کے ذمہ دار تھے‘ اسرائیلی فضائی حملے سے ان کی شہادت بہت سے متاثرین بشمول ہزاروں امریکیوں‘ اسرائیلیوں اور لبنانی شہریوں کے لیے ایک انصاف ہے۔ اس بیان سے امریکہ نے اپنی منافقت کو مزید بے نقاب کیا ہے۔ یہاں میرا سوال یہ ہے کہ حزب اللہ جیسی تنظیمیں بنانے پر مجبور کس نے کیا؟ ظاہر ہے مغرب کی اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے جانبدارانہ پالیسیوں نے۔ اب پتا نہیں شکوہ کس بات کا ہے؟
موضوع تو سنجیدہ ہے لیکن آخر میں ایک لطیفہ سن لیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سلامتی کونسل اس معاملے پر کیا کر لے گی؟ زیادہ سے زیادہ ایک قرارداد منظور کر لے گی‘ اول تو اسکی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ اسرائیل کے خلاف سب سے زیادہ قراردادیں امریکہ نے ویٹو کی ہیں‘ اسے ایک بار مزید سلامتی کونسل کی قرارداد ویٹو کرنے میں کیا مضائقہ ہو گا؟ بالفرض قرارداد منظور ہو بھی گئی تو اس پر عملدرآمد کون کرائے گا؟ اسرائیل کے جارحانہ عزائم کے خلاف اس سے پہلے بھی درجنوں قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔ ان قراردادوں نے اسرائیل کی جارحیت کو کتنا روک لیا؟ میں سمجھتا ہوں کہ ان قراردادوں کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کو کوئی طریقہ وضع نہیں کیا جاتا۔ یہ نہیں ہو سکتا‘ نہ ہونا چاہیے کہ عالمی برادری کی رائے کو مسترد کر کے کوئی ملک اپنی من مانی کرتا رہے‘ چاہے ان من مانیوں کے نتیجے میں عالمی امن ہی خطرے میں پڑ جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved