تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     04-10-2024

شمالی یورپ کی سیر …(3)

ڈنمارک شاندار تضادات والا ایک دلچسپ ملک ہے۔ بادشاہ عالیشان محل میں رہتا ہے لیکن اس کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اختیارات وزیراعظم کے پاس ہیں لیکن اس کے پاس کوئی سرکاری رہائش گاہ نہیں ۔ ڈنمارک یورپی یونین کا ممبر ہے لیکن یورپی یونین کی ڈیفنس اور سکیورٹی پالیسی کا حصہ نہیں۔ اسی طرح ڈنمارک نے یورو کرنسی کو نہیں اپنایا بلکہ اپنی کرنسی 'کرونا‘ کو برقرار رکھا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈنمارک یورپی دائرے میں رہتے ہوئے اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ اس ملک کی اپنی ایک تاریخ ہے جس پر لوگوں کو فخر ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ولیم شیکسپیئر کے مشہور کھیل 'ہیملٹ‘ (Hamlet) کا ہیرو ڈنمارک کا ایک شہزادہ تھا۔ یہ ملک نیٹو کا بھی ممبر ہے۔
ڈنمارک میں پیدائش کے ساتھ ہی بچے کا وظیفہ والدین کو ملنے لگتا ہے۔ بادشاہ سلامت عوامی تقریبات میں حصہ لیتے ہیں۔ وزیراعظم اکثر بغیر پروٹوکول اور بغیر سکیورٹی کے عوامی علاقوں میں گھومتے نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ کہانی کوپن ہیگن میں سننے کو ملی۔ موجودہ وزیراعظم ایک خاتون ہیں‘ جن کا نام میٹی فریڈرکسن (Mette Frederiksen) ہے۔ محترمہ چند ماہ قبل کوپن ہیگن کے ڈائون ٹائون میں گھوم رہی تھیں کہ حکومت سے کسی وجہ سے تنگ آئے ایک شہری نے انہیں مُکا دے مارا۔ معاملہ عدالت میں پہنچ گیا اور آج کل وہ شخص ایک سال قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔
ڈنمارک اور یورپ کی ترقی کا راز قانون کی حکمرانی اور میرٹ کی سرفرازی پر منحصر ہے۔ جو شخص جس پوسٹ کا اہل ہو‘ وہ اسے مل جاتی ہے خواہ وہ گورا ہو یا کالا۔ عدالتوں سے لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔ کوئی بھی شخص رات کو بھوکا نہیں سوتا۔ ایمانداری کے حوالے سے یہ قوم ٹاپ پر ہے۔ لوگ سحر خیزی کے عادی ہیں اور ان کا پہلا کام ورزش ہوتا ہے۔ کوئی دوڑ لگاتا نظر آتا ہے تو کوئی سائیکل چلا رہا ہوتا ہے۔ غذائی اشیا میں ملاوٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بازار صبح نو بجے کھلتے ہیں اور چھ بجے بند ہو جاتے ہیں۔ استثنیٰ صرف گروسری کی دکانوں کو ہے۔ قوم صحت مند اور بہت خوشحال ہے۔ عوام خود ایک ڈسپلن کو اپنائے ہوئے ہیں۔ بیڈمنٹن اور سائیکلنگ کے عالمی مقابلوں میں عام طور پر ڈنمارک کے کھلاڑی ہی میڈل اپنے نام کرتے ہیں۔ پورے یورپ میں ہاتھ سے کام کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ اچھے سے اچھے لوگ بھی اپنے بچوں کو پلمبر یا الیکٹریشن بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہاں موجود پاکستانیوں کا عمومی پیشہ ٹیکسی چلانا ہے اور وہ خوش ہیں۔ میں نے ایک ایسے پاکستانی کو بھی دیکھا جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہے مگر ڈنمارک میں گارڈنر کا کام کرتا ہے اور خوش ہے۔
پاکستانی کمیونٹی کی شہرت ملی جلی ہے۔ چند پاکستانی منشیات اور دیگر جرائم میں ملوث پائے گئے اور انہیں ڈینش حکام نے ڈی پورٹ کر دیا مگر پاکستانیوں کی اکثریت اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ چند ایک پاکستانی شہریوں نے عدلیہ اور میڈیسن کے شعبوں میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے اور یہ ڈنمارک میں میرٹ کی سرفرازی کا غماز ہے۔ پاکستانی ڈنمارک میں سیاسی پناہ حاصل نہیں کر سکتے۔ ڈنمارک اور سویڈن‘ دونوں ملکوں میں یہ تاثر عام ہے کہ غیر ملکیوں کے آنے سے جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسرا‘ سیاسی پناہ ان ممالک کے شہریوں کو دی گئی ہے جو جنگی صورتحال سے دوچار ہیں۔ مثلاً شام‘ فلسطین اور افغانستان وغیرہ‘ باوجودیکہ ایشیائی مسلم ممالک اور سکینڈے نیویا کے کرسچین ممالک‘ جہاں مذہب سے بیزاری عام ہے‘ کے کلچر میں خاصا فرق ہے۔
سفیرِ پاکستان شعیب سرور سینئر ٹریننگ کورس کے لیے لاہور گئے ہوئے تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں ناظم الامور علی ستار سے سے ملاقات رہی۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ فارن سروس میں اب بھی اچھے افسر آ رہے ہیں۔ ناظم الامور اپنی ذمہ داریوں اور دو طرفہ تعلقات کی نوعیت سے خوب واقف تھے۔ کچھ کاروباری لوگوں سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ڈینش حکومت کی ایڈوائزری کے مطابق‘ پاکستان کا سفر بالعموم اور کراچی جانا بالخصوص خطرناک ہو سکتا ہے۔ دو طرفہ تجارت کے فروغ میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ڈنمارک جیسے تاریخی اور خوبصورت ملک پر متعدد کالم لکھے جا سکتے ہیں لیکن کہانی کو اب سمیٹنا ہے۔ کوپن ہیگن سے آگے ہماری منزل استنبول تھا۔ اس تاریخی شہر کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ یہ میرا استنبول کا چوتھا وزٹ تھا‘ البتہ بیگم دوسری مرتبہ جا رہی تھیں۔ انہیں بالخصوص اسلامی نوادرات دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ استنبول اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہ ایک کرسچین اور ایک اسلامی سلطنت کا دارالحکومت رہا ہے۔ ترکوں نے لمبے عرصے تک یورپ کے مشرقی حصے اور متعدد عرب ممالک پر حکمرانی کی ہے۔ سیاحت ترکیہ کی معیشت کا بہت اہم سیکٹر ہے۔ آپ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جولائی 2024ء میں 73 لاکھ ٹورسٹ ترکیہ آئے‘ جن کی اکثریت نے استنبول میں قیام کیا۔ چند سال پہلے وہاں ایک نیا ایئرپورٹ بنایا گیا تھا‘ جو بہت ہی ماڈرن اور اعلیٰ طرز پر بنایا گیا۔ یہ ایئرپورٹ ہمہ وقت مسافروں سے کھچا کھچ بھرا رہتا ہے۔
استنبول کا قدیم تاریخی حصہ‘ جہاں توپ کاپی پیلس میوزیم‘ آیا صوفیہ اور بلیو مسجد موجود ہیں‘ اسے سلطان احمد کہا جاتا ہے۔ یہاں سیاح بڑی تعداد میں موجود رہتے ہیں۔ ہر دوسرا‘ تیسرا گھر یا تو ہوٹل میں تبدیل ہو گیا ہے یا ریسٹورنٹ بن چکا ہے۔ اب تمام یورپین ممالک سیاحوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنی پیشگی انشورنس کرا کے آئیں۔ مقصد یہ ہے کہ لوکل ہیلتھ سسٹم پر بوجھ نہ بنیں؛ چنانچہ ڈنمارک کے لیے دو ہفتہ کی انشورنس لی اور ترکیہ کے لیے دو دن کی۔ یقین مانیں کہ ترکیہ کی انشورنس کا پریمیم ڈنمارک سے بھی زیادہ تھا۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ ترکیہ میں علاج ڈنمارک سے مہنگا ہو۔ صاف ظاہر ہے کہ ترکش انشورنس کمپنیاں سیاحوں کا استحصال کر رہی ہیں۔ ترک حکومت کو اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔
بلیو مسجد یا سلطان احمد مسجد ہمارے ہوٹل سے دس منٹ کی واک پر تھی‘ لہٰذا سب سے پہلے وہیں گئے۔ یہ مسجد عثمانی عہد کی ہے اور 1617ء میں مکمل ہوئی تھی۔ اس اعتبار سے یہ لاہور کی بادشاہی مسجد سے قدیم تر ہے مگر ترک حکومت کی تزئین وآرائش کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ مسجد زیادہ قدیم نہیں۔ اس کے گنبد‘ منبر اور محراب ترک طرزِ تعمیر کا شاندار نمونہ ہیں۔مشہور عثمانی معمار سنان کو فنِ تعمیر میں منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ مسجد سنان کے شاگرد صدف گارمحمد آغا نے بنائی۔ مسجد کے اندر جا کر اس کے محراب‘ گنبد اور چھت کو دیکھیں تو دل اَش اَش کرنے لگتا ہے۔ اندرونی زیبائش کے لحاظ سے شاید یہ دنیا کی خوبصورت ترین مسجد ہے۔توپ کاپی پیلس میں عثمانی عہد کی شاندار کراکری‘ کٹلری اور برتن بھی ہیں۔ سلطانی خزانے کے قیمتی نوادرات بہت متاثر کن ہیں۔ سونے اور چاندی کے برتن اب بھی چمکدار اور نئے لگتے ہیں۔ فوراً ذہن میں خیال آیا کہ جب انگریز آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی درسگاہیں بنا رہے تھے تو مسلم حکمران محلات‘ تاج محل اور شالامار باغ بنانے میں مصروف تھے۔
پیلس میوزیم میں اسلامی تاریخی نوادرات بشمول رسول کریمﷺ کا موئے مبارک‘ حضرت فاطمہ الزہراؓ کا عبایا اور حضرت خالدؓ بن ولید کی تلوار بھی موجود ہیں‘ جنہیں دیکھ کر عقیدت مند فرطِ جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔
باسفورس میں کروز اور گرینڈ بازار میں شاپنگ بھی ہمارے پروگرام میں شامل تھی۔ آیا صوفیہ میں نفل پڑھنے گئے لیکن بارش اور لمبی قطار کی وجہ سے واپس آ گئے۔ بار بار استنبول جانے سے بھی اس کا سحر کم نہیں ہوتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved