اگر مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ اس دنیا کی سب سے بڑی خوبصورتی کیا ہے‘ تو میں کہوں گا کہ اس دنیا کی سب سے بڑی خوبصورتی اور اس کا حسن اس کا تنوع ہے۔ مالکِ کائنات نے اس دنیا میں جو تنوع رکھا ہے وہی اس کی ساری خوبصورتی اور حسن ہے۔ اگر یکسانیت ہوتی تو انسان بھی بنی اسرائیل کی مانند اسی طرح یکسانیت سے تنگ آ جاتا جس طرح ان کا دل من و سلویٰ سے بھر گیا اور وہ ناشکری پر اتر آئے۔ مناظر قدرت اور مظاہر قدرت میں جو رنگینی ہے اس کی بنیادی وجہ یہی تنوع اور رنگا رنگی ہے۔ اگر ساری دنیا کا جغرافیہ‘ انسان‘ عادات و خصائل‘ تہذیب و تمدن ایک جیسا ہوتا تو بندے کا دل دو چار دن بعد ہی بھر جاتا۔ یہ مالکِ کائنات کا کرم ہے کہ اس نے اپنی دنیا کی تخلیق بے شمار رنگوں‘ اَن گنت مناظر اور لاتعداد مظاہر سے کی۔ بھانت بھانت کے لوگ پیدا کیے‘ اس بوقلمونی نے اَسرار پیدا کیا اور اس اسرار سے کھوج نے جنم لیا۔ اس مسافر کو یہی کھوج‘ نئے پن کی تلاش اور قدرت کی رنگینی بے چین کیے رکھتی ہے۔ نئی مسافتیں‘ نئی منزلیں اور نئے مناظر اس مسافر کو آواز دیتے ہیں۔ مسافر جادو نگری سے آنے والی ان آوازوں پر کان دھرتا ہے اور چل نکلتا ہے‘ تاہم کوشش کرتا ہے کہ پیچھے پلٹ کر نہ دیکھے کہ کہیں کہانیوں والی آوازوں کی مانند پیچھے پلٹ کر دیکھے اور پتھر کا ہو جائے۔ مگر کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ دل کرتا ہے بندہ پتھر بن کر ساری عمر وہیں کھڑا رہے مگر حقیقت اور جادو نگری والی کہانیوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔
آسٹریلیا جا کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باقی دنیا سے کافی حد تک مختلف اور متنوع ہے۔ آسٹریلیا پر گوروں کے قبضے کی کہانی تو وہی پرانی ہے جس طرح انہوں نے امریکہ کو ریڈ انڈینز سے چھینا اسی طرح انہوں نے آسٹریلیا کو ایبوریجنیز (Aborigines) سے ہتھیا لیا۔ جس طرح امریکہ میں اب لوگ ریڈ انڈینز سے ہمدردی اور ماضی میں ان کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک پر زبانی کلامی حد تک ندامت کا اظہارکرتے ہوئے اپنے آبائو اجداد کی زیادتیوں پر شرمندہ ہوتے ہیں لیکن ان کی ہتھیائی گئی زمینوں پر اسی طرح قابض ہیں اور جن ریاستوں سے انہیں کھدیڑ کر دور دراز علاقوں میں دھکیل دیا گیا‘ ماضی میں ان کے آبائی علاقوں سے کی گئی بے دخلی کا اب ازالہ نہیں کر رہے عین اسی طرح آسٹریلیا میں وہاں کے آبائی باشندے‘ جنہیں ایبوریجنیز کہا جاتا ہے‘ سے بھی سارا آسٹریلیا چھین لیا گیا۔ مختلف حیلوں بہانوں سے ان کو آبائی علاقوں سے بے دخل کیا گیا اور ان کی زرخیز زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ تاہم آسٹریلیا میں ایبوریجنیز کے ساتھ ماضی میں ہونے والے سلوک پر قابضین کی ندامت کا اظہار اور ان سے روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک پر ان کی شرمندگی کا درجہ امریکیوں سے بہت بہتر اور مثبت ہے۔
ریڈانڈینزکی نسبت ایبوریجنیز کو آسٹریلوی ریاست اور معاشرے میں بہتر مقام دیا جا رہا ہے اور ماضی میں روا رکھے جانے والے سلوک اور ظلم و جبر کی تلافی کیلئے آسٹریلوی ریاست کی طرف سے ان کو امریکی ریڈانڈینز کے مقابلے میں زیادہ عزت و تکریم (خواہ نمائشی حد تک ہی سہی) حاصل ہے۔ کوئی سرکاری تقریب ایبوریجنیز کے ذکر کے بغیر شروع نہیں ہو سکتی۔ بہت سے علاقوں‘ شہروں اور محلوں کے نام ان سے معنون ہیں۔ کسی علاقے میں نئی تعمیر و ترقی ان کی جانب سے عدم اعتراض کے سرٹیفکیٹ کے بغیر شروع نہیں ہو سکتی۔ ان کے مذہبی اور تہذیبی مقامات کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور ان کے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے خصوصی رعایتیں‘ وظائف اور دیگر مالی سہولتیں میسر ہیں۔ ان ایبوریجنیز کو بچوں کا الائونس‘ نوکری کے حصول کیلئے ترجیحی قوانین‘ خصوصی مالی امداد اور پنشن وغیرہ کی سہولتیں دی گئی ہیں۔ ایبوریجنیز عورت یا مرد سے شادی کرنے والوں کو بھی یہ سہولتیں حاصل ہیں۔ اس کیلئے سرکار ایسا دعویٰ کرنے والوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرکے انہیں وہ ساری سہولتیں دیتی ہے جو قانون ایبوریجنیز کوفراہم کرنے کا کہتا ہے۔
بات تنوع سے چلی اور کہیں دوسری سمت چلی گئی۔ آسٹریلیا بھی مظاہر قدرت کے تنوع کا ایک عجب کرشمہ ہے۔6 7 لاکھ 88 ہزار 287 مربع کلو میٹر کے رقبے پر واقع آسٹریلیا دنیا کا رقبے کے اعتبار سے چھٹا بڑا ملک ہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جو پورے براعظم پر مشتمل ہے۔ باقی ہر براعظم میں تعداد کے اعتبار سے درجنوں سے لیکر بیسیوں ممالک ہیں مگر آسٹریلیا از خود پورے براعظم پر مشتمل ہے۔ چاروں طرف سے سمندر میں گھرے ہوئے اس ملک کا ساحلی علاقہ 34 ہزار کلو میٹر پر مشتمل ہے اور ملک کی 99 فیصد آبادی انہی ساحلی علاقوں میں ہے۔ درمیان میں سارا آسٹریلیا بے آباد‘ بے آب و گیاہ اور وسیع ویرانے پر مشتمل ہے‘ لیکن یہ ویرانہ بھی ایسا ہے کہ اس ویرانے کا تنوع انسان کو حیران کر دیتا ہے۔ اگر پاکستان اور آسٹریلیا کے رقبے اور آبادی کا موازنہ کیا جائے تو رقبے کے اعتبار سے آسٹریلیا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جبکہ پاکستان دنیا میں رقبے کے حساب سے 34ویں نمبر پر ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے یہ نسبت بالکل الٹ ہے۔ 25کروڑ سے زائد آبادی کا حامل پاکستان دنیا میں آبادی کے حساب سے پانچویں نمبر پر ہے جبکہ آسٹریلیا اس فہرست میں 55ویں نمبر پر ہے۔ 3.6 فیصد افراد فی مربع کلو میٹر کے حساب سے آسٹریلیا دنیا میں فی مربع کلو میٹر سب سے کم افراد والی فہرست میں گرین لینڈ اور منگولیا کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ اگر اوپر سے حساب کیا جائے تو دنیا میں 244ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان 326 افراد فی کلو میٹر کے حساب سے آسٹریلیا کے مقابلے میں فی مربع کلو میٹر سو گنا زیادہ آبادی کا حامل ملک ہے‘ مگر آبادی میں اس روز افزوں ہونیوالے اضافے کی نہ کسی کو فکر ہے اور نہ ہی کوئی مستقبل کی منصوبہ بندی ہے۔ اس معاملے میں عوام اور سرکار برابر کی بھنگ پی کر سو رہے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ زرعی کہلانے والا ملک گندم‘ دالیں‘ خوردنی تیل‘ مسالا جات حتیٰ کہ پھل اور بنیادی سبزیاں از قسم ادرک‘ لہسن‘ پیاز‘ ٹماٹر تک درآمد کرتا ہے اور آنیوالے دنوں میں حالات مزید خرابی کا بہ آوازِ بلند اعلان کر رہے ہیں مگر حکومت کو مخالف سیاسی پارٹی کو رگڑا لگانے سے فرصت نہیں۔ موجودہ حکومت کے حامیوں کی تشفیٔ قلب کیلئے عرض ہے کہ یہ سلسلہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے شروع نہیں ہوا بلکہ یہ لاپروائی اور نااہلی کئی عشروں سے چل رہی ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں خواہ نیم دلی سے ہی سہی مگر بہرحال حکومتی اور ریاستی سطح پر آبادی کنٹرول کرنے کی تھوڑی بہت کاوشیں ہوئیں لیکن اس کے بعد راوی چین لکھتا ہے۔ اس کے بعد تو آمریت بمقابلہ جمہوریت اور جمہوریت بمقابلہ جمہوریت ایک دوسرے کو رگڑا لگانے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس میں کیا آمر اور کیا جمہوری حکمران‘ سب نے عوام کو سہولت یا ملک کو استحکام دینے کے بجائے اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے اپنے سیاسی مخالفین کو رگڑا دینے اور عوام کی توجہ غیر حقیقی اور خود ساختہ مسائل کی جانب مرکوز رکھنے کی پالیسی چلائے رکھی۔ اس میں نوازشریف اینڈ کمپنی‘ زرداری و بھٹو خاندان‘ عمران خان اور فوجی آمر سبھی شامل ہیں۔ کسی کو استثنا نہیں۔ سب ایک سے بڑھ کرایک طریقے سے عوام کی توجہ نان ایشوز کی طرف مرکوز کروائے رکھتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے اب اچانک ہی حکومت کے دل میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پاکستان بلانے کا اچھوتا خیال آیا ہے۔ اسلام سے محبت کا ثبوت دینے کیلئے ہماری حکومتیں مذہبی کارڈ تو کھیل سکتی ہیں لیکن غزہ میں ہونے والے مسلسل ظلم و جبر کے بارے میں زبانی کلامی گفتگو سے آگے نکلنے کی نہ انہیں توفیق ہے اور نہ ہی ہمت ہے۔ ایک چھوٹے سے ملک نے ساری امت کو (اگر ہم واقعی امت ہیں) آگے لگا رکھا ہے۔ سرکار نے عوام کو آگے لگا رکھا ہے اور ایک قیدی نے سرکار کو آگے لگا رکھا ہے۔ یہ آگے لگانے کا سلسلہ اور بھی آگے جاتا ہے مگر اتنا آگے جاتے ہوئے قلم کے پَر جل جاتے ہیں۔ لہٰذا عقلمندوں سے گزارش ہے کہ وہ تھوڑے لکھے کو بہت سمجھیں اور خط کو تار سمجھیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved