تیسری دنیا میں تخت اور تختہ میں کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔ بعض اوقات تخت سے اترنے اور تختۂ دار پر چڑھنے میں زیادہ وقت بھی نہیں لگتا۔ اسی طرح مسندِ اقتدار اور درِ زنداں میں وہی تعلق ہے جو پھول اور کانٹے میں ہوتا ہے۔ ملائیشیا کے موجودہ وزیراعظم جناب انور ابراہیم مہاتیر محمد کے ساتھ شریکِ اقتدار رہے اور بیک وقت وہ ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرِ مالیات تھے۔ وزارتِ عظمیٰ کا لبِ بام بس دو چار ہاتھ ہی رہ گیا تھا کہ جب اچانک کسی بات پر مہاتیر ناراض ہوئے اور انور ابراہیم کو اپریل 1999ء میں جیل میں ڈال دیا گیا اور اُن پر الزامات بھی خاصے گھناؤنے لگائے گئے‘ کرپشن اور جنسی بے راہ روی۔
پانچ برس کے بعد 2004ء میں جیل سے رہائی پانے کے بعد آزاد دنیا میں واپس آ کر انور ابراہیم دوبارہ کئی جماعتوں اور اتحادوں کو تشکیل دینے اور انہیں مضبوط کرنے میں جُت گئے۔ اس مرتبہ انہوں نے لیڈر آف دی اپوزیشن کے طور پر اپنی حیثیت منوا لی۔ 2013ء میں انور ابراہیم نے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا مگر انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اپوزیشن لیڈر نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔ انور ابراہیم ایک بار پھر طوافِ کوئے ملامت کو گئے اور انہوں نے مہاتیر محمد سے دوبارہ ہاتھ ملایا۔ دونوں نے مل کر سیاست کے خار زاروں میں چلنے کا عہد کیا۔ اس دوران بھی موسم کئی رنگ بدلتا رہا۔ کبھی طوفانِ باد و باراں‘ کبھی خزاں اور بالآخر بہار کے دن لوٹ آئے۔ 24نومبر 2022ء کو انور ابراہیم نے ملائیشیا کے دسویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ انور ابراہیم زندگی بھر اسلامی جمہوریت کیلئے سرگرم عمل رہے۔ وہ ملائیشیا میں عدالتی خود مختاری‘ گڈ گورننس اور اقتدار میں اختیارات کی عدم مرکزیت کیلئے برسر پیکار رہے۔ انور ابراہیم جناب مہاتیر محمد کی طرح آؤٹ سپوکن ہیں اور مسلمانوں کیلئے دردِ دل رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان آنے سے پہلے اسی سال اگست میں بھارت کے دورے پر گئے تھے‘ وہاں انہوں نے دوطرفہ دلچسپی کے کئی امور پر گفتگو کی اور باہمی تجارت وغیرہ کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے مگر اس دوران انور ابراہیم کی آنکھ طائر کی طرح اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے نشیمن پر رہی۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ اقلیتوں کا مسئلہ اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کے بہت سے اقدامات سے اقلیتوں کے حقوق مجروح ہوتے ہیں اور ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
جب پانچ اگست 2019ء کو بھارت نے جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370ہٹایا تو ملائیشیا کے اُس وقت کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے اس پر تنقید کی تھی۔ اس پر بھارت ناراض ہو گیا تھا۔ اگرچہ اپنی آبادی اور وسائل کے اعتبار سے ملائیشیا صرف ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کا ملک ہے اور وہاں پر دو بڑی اقلیتیں ہندو اور چینی بھی آباد ہیں جو ملائی اکثریت کے مقابلے میں زیادہ مالدار ہیں۔ اس کے باوجود ملائیشیا کے وزرائے اعظم تنکو عبدالرحمن سے لے کر انور ابراہیم تک ہمیشہ اپنے مسلمان بھائیوں کا درد محسوس کرتے رہے ہیں‘ وہ چاہے مظلوم کشمیری ہوں یا شب و روز ظالم صہیونی ریاست اسرائیل کے بموں اور گولوں کی زد میں آئے ہوئے فلسطینی ہوں۔
مجھے چند سال قبل بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کی نمائندگی کرتے ہوئے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ‘ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کوالالمپور جانے کا موقع ملا۔ یقین کیجئے سر سبز و شاداب ملائیشیا میں حسنِ انتظام اور گڈ گورننس دیکھ کر دل بہت شاد ہوا۔ اسلامک انسٹیٹیوٹ کی محرابوں اور گنبدوں والی خوبصورت عمارت اسلامی فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ یہاں ریسرچ کا بھی نہایت اعلیٰ معیار ہے۔ یونیورسٹی سے لے کر سرکاری دفاتر اور بڑی بڑی کمپنیوں سے لے کر بینکوں تک خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ وہاں کوئی مسلمان خاتون ایسی نظر نہ آئی کہ جس نے سر پر سکارف نہ اوڑھ رکھا ہو۔ خواتین گاڑیاں تو ڈرائیو کرتی ہی ہیں مگر وہ ہیلمٹ پہن کر بے تکلفی سے موٹر بائیک بھی چلاتی ہیں اور کہیں آنے جانے کے لیے ہرگز کسی کی محتاج نہیں ہوتیں۔ اُن دنوں کوالالمپور میں میرے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بھانجے فہیم پراچہ اور میری بھتیجی ماریہ پراچہ مقیم تھے۔ ان کے علاوہ میرے ایک لڑکپن کے دوست محمد اقبال بھی وہاں کئی برس سے بزنس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان لوگوں کی مہمان نوازی کی وجہ سے مجھے ملائیشیا کی سیر و سیاحت اور وہاں کی معیشت و سیاست اور طرزِ زندگی کو سمجھنے میں بہت مدد ملی۔ ملائیشیا میں ہر جگہ‘ خاص طور پر ان کے سب سے بڑے شہر کوالالمپور کی جو بات مجھے بہت پسند آئی‘ وہ یہ کہ وہاں رات دن کبھی ہلکی اور کبھی موسلادھار بارشیں ہوتی رہتی ہیں مگر کہیں پانی کی ایک بوند تک کھڑی دکھائی نہیں دیتی۔ نہ وہاں بارشوں میں گلی محلے دریا بنتے ہیں‘ نہ چوک چوراہے ندی نالوں میں تبدیل ہوتے ہیں‘ نہ سڑکوں پر سیلاب آتا ہے اور نہ ہی کشتیاں چلتی ہیں۔
میرے دوست اقبال صاحب مجھے گنٹنگ ہائی لینڈز کے خوبصورت تفریحی پہاڑی مقام بھی لے گئے تھے۔ یہ بہت ہی خوبصورت سیاحتی مقام ہے۔ یہاں سردی نتھیا گلی سے زیادہ تھی۔ گنٹنگ ہائی لینڈز کیسینو بہت مشہور ہے۔ اسی طرح ملائیشیا میں مے کدے بھی ہیں۔ اس کیسینو اور مے کدوں میں قانوناً ملائی مسلمان شہریوں کو جانے کی اجازت نہیں مگر عملاً صورتحال اس شعر سے مختلف نہیں:
پہلے تو آ کے شیخ نے دیکھا اِدھر اُدھر
پھر سر جھکا کے داخلِ مے خانہ ہو گئے
وزیراعظم انور ابراہیم اور وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے دوطرفہ تعلقات کو پہلے سے وسیع تر اور مزید مضبوط بنانے کیلئے ایک تفصیلی ایجنڈے پر اتفاق ہوا ہے۔ اس ایجنڈے میں تجارت‘ دفاع‘ توانائی‘ زراعت‘ حلال فوڈ انڈسٹری‘ ٹور ازم‘ ثقافتی وفود کے تبادلے شامل ہیں۔ پاکستان ملائیشیا کو سالانہ ایک لاکھ ٹن چاول اور حلال گوشت برآمد کرے گا۔ ان شعبوں میں روابط کے علاوہ ملاقاتوں کے ایجنڈے میں باہمی دلچسپی کے علاقائی‘ عالمی موضوعات بالخصوص فلسطین میں تقریباً ایک سال سے جاری اسرائیلی جارحیت اور غزہ میں صہیونی ریاست کے ہاتھوں ہونے والی قتل و غارت گری اور لبنان پر اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر سیر حاصل تبادلۂ خیال بھی ملاقاتوں میں ہوا ہے۔
2022ء میں ملائیشیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والی دو طرفہ تجارت کا حجم 1.78 ارب ڈالر تھا اور 2023ء میں یہ حجم کم ہو کر 1.4 ارب ڈالر رہ گیا۔ ملائیشیا میں ملائیشیا پاکستان بزنس کونسل ہے جس کے چیئرمین داتو سری محمد نذیر ہیں ان کے ساتھ اس کونسل میں پاکستانی بزنس مینوں میں سے بارہ ممبران کی منتخب ٹیم بھی ہے۔ اس وقت ملائیشیا میں تقریباً بارہ سو پاکستانی بزنس مین نہایت کامیابی سے اپنا بزنس چلا رہے ہیں اور اعلیٰ کوالٹی کا پاکستانی مال فروخت کر کے نیک نامی کما رہے ہیں۔
ملائیشیا کی لیڈر شپ اسلامی تعلیمات اور اسلامی سکالرز کی بے حد قدر کرتی ہے۔ ملائیشیا نے 2018ء میں عالمی شہریت یافتہ انڈین مسلم سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پناہ دی تھی۔ 2024ء میں انور ابراہیم نے بھارت میں اعلان کیا تھا کہ اگر بھارت ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرے گا تو ہم اُن کی واپسی پر غور کر سکتے ہیں۔ مگر دورے کے دوران بھارتی وزیراعظم نے اپنے مہمان انور ابراہیم سے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں جہاں ہر جگہ خاص و عام اُن کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کر رہے ہیں۔ اسلام اور عالم اسلام کیلئے سچے جذبات رکھنے والی ملائیشیا اور پاکستان کی قیادتیں اس وقت امت مسلمہ کیلئے اس نازک گھڑی میں پاکستان میں اکٹھی ہوئی ہیں۔ یقینا انہوں نے اپنے فلسطینی و لبنانی بھائیوں کیلئے کسی اہم لائحہ عمل پر اتفاق کیا ہوگا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved