امریکہ میں سپریم جوڈیشل کونسل نام کا کوئی ادارہ ہے‘ نہ چیف جسٹس نئے جج کے تقرر کیلئے کسی کو خود نامزد کرتے ہیں۔ امریکی صدر سپریم کورٹ یا وفاقی عدالت کیلئے جج کو نامزد کرتا ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکی سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی باقاعدہ اُسے طلب کرتی ہے‘ اس پر جرح کرتی ہے‘ اس کی پوری زندگی اور ٹیکس ریکارڈ کی چھان بین کی جاتی ہے‘ اس کی پیشہ ورانہ مہارت کا جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر سینیٹ کی کمیٹی اتفاقِ رائے یا کثرتِ رائے سے اس کے تقرر کی منظوری دیتی ہے یا ردّ کر دیتی ہے‘ یعنی جج کے تقرر میں عدلیہ کی اجارہ داری یا عمل دخل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کیلئے ہمارا نظام شفاف ہے اور نہ اس سلسلے میں پارلیمان کی مجلس قائمہ خودمختار ہے‘ وہ خود ڈرے اور سہمے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس اعلیٰ ملازمتوں پر تقرر کیلئے پبلک سروس کمیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے‘ تحریری امتحان سے گزرنا ہوتا ہے‘ اس کے بعد زبانی انٹرویو ہوتا ہے اور پھر جاکر تقرری یا عدمِ تقرر ی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ فوج میں بھی تقرری‘ ترقی یا عزل ونصب کیلئے ایک نظام موجود ہے‘ پبلک سروس کمیشن یا مسلح افواج کے سلیکشن بورڈ کے فیصلوں کو عدالتوں میں چیلنج بھی نہیں کیا جاتا۔ اب تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عدالتوں نے پورے حکومتی نظام کو اپنے قابو میں لے لیا ہے‘ اس لیے اس پر عدالتی انقلاب کی پھبتی کسی جاتی ہے۔
عدل کا فطری تقاضا ہے: جب کوئی فریادی حصولِ انصاف کیلئے عدالت میں جائے تو اُسے یا اُس کے وکیل کو اپنی ترتیب اور اپنی ترجیحات کے مطابق اپنا مؤقف پیش کرنے کی اجازت دی جائے‘ البتہ زیرِ بحث مقدمے کے دائرۂ کار سے باہر جانے سے روکا جا سکتا ہے۔ اُس کے بعد عدالت کو مزید وضاحت یا تسلی یا ابہام کو دور کرنے کیلئے سوالات کرنے کا حق حاصل ہے‘ لیکن یہ کام اُس وقت کیا جائے جب وہ اپنا مؤقف پیش کر لے۔ اگر فریادی یا اُس کے وکیل کو قدم قدم پر روکا اور ٹوکا جائے گا تو وہ متزلزل ہو جائے گا‘ ذہنی یکسوئی رہے گی اور نہ اپنا مؤقف مربوط انداز میں پیش کر سکے گا۔ اسی طرح ''مُدّعیٰ عَلیہ‘‘ کو بھی اپنا مؤقف مربوط اور منضبط انداز میں پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ لیکن جب بینچ میں شامل جج صاحبان سوالات کی بوچھاڑ کر دیں گے تو اُس کے قدم لڑکھڑا جائیں گے‘ زبان پھسل جائے گی اور ذہن منتشر ہو جائے گا۔ مناسب طریقہ یہ ہے: مُدّعی یا مُدّعیٰ علیہ کے بیان کے دوران جج صاحبان اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو نوٹ فرما لیں اور آخر میں ان کا جواب حاصل کریں‘ بشرطیکہ وہ سوالات مقدمے سے براہِ راست متعلق ہوں۔ ہم نے دیکھا ہے: اکثر سوالات مفروضوں پر مبنی ہوتے ہیں‘ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے مَن پسند الفاظ فریقِ مقدّمہ کے منہ سے نکلوائے جائیں۔
ہماری نظر میں سپریم کورٹ کے جج کے ریمارکس: ''ہم کالے بھونڈ ہیں‘‘ اُن کے منصب کے شایانِ شان نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے: جج صاحبان کے تبصروں سے اُن کا رجحان واضح ہو جاتا ہے‘ اعلیٰ عدالتوں کی کارروائیوں کو رپورٹ کرنے والے میڈیا کے نمائندے پہلے ہی خبر دے دیتے ہیں: عدالت منقسم ہے‘ اس لیے فیصلہ بھی منقسم آئے گا‘ اس کا تناسب بھی بتا دیتے ہیں‘ حالانکہ حتمی فیصلہ آنے سے پہلے کسی کو بھی معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ اگر پہلے سے تاثر سامنے آ جائے تو اس سے عیاں ہو جاتا ہے کہ عالی مرتبت جج صاحبان پہلے سے ذہن بنائے بیٹھے ہیں‘ پھر ساری عدالتی کارروائی بے معنیٰ ہوکر رہ جاتی ہے۔ عدالتی رویے کی بابت کسی کا معمولی ردعمل بھی توہینِ عدالت قرار پاتا ہے اور کسی کا اُس سے دس گنا زیادہ سخت اور مخالفانہ ردعمل برداشت کر لیا جاتا ہے‘ اسے شفاف عدالتی رویہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ شیخ سعدی نے بادشاہوں کی تلوُّن مزاجی کی بابت لکھا ہے‘ ترجمہ ''بادشاہوں کی کیا بات ہے‘ کبھی تو سلام پر تیور بگڑ جاتے ہیں اور کبھی دشنام پر بھی خِلعت سے نواز دیتے ہیں‘‘۔
شہرت پسندی کی نفسیاتی حِس کا ہی فیضان ہے کہ ہم گزشتہ عشرے سے اعلیٰ عدالتوں کو سیاسی مقدمات میں مصروف دیکھتے ہیں‘ شام کو پٹیشن دائر ہوتی ہے اور بالعموم اگلے دن عدالت لگ جاتی ہے‘ جبکہ عام سائلین برسوں سے رُل رہے ہوتے ہیں‘ اُن کی باری ہی نہیں آتی‘ کیونکہ لوگوں کے ذاتی مسائل سے متعلق مقدمات میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں تقریباً ہر شخص کو چیف جسٹس اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے نام ازبر ہیں‘ عام مجالس میں یہی باتیں چل رہی ہوتی ہیں‘ جتنا ہماری قوم کا مزاج سیاست آلودہ ہو چکا ہے‘ اتنا شاید ہی کسی قوم کا ہو۔ اگر نیویارک کے چوک میں کھڑے ہوکر آنے جانے والے سو آدمیوں سے امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا نام پوچھا جائے تو مجھے یقین ہے: ننانوے فیصد لوگ لاعلم ہوں گے‘ جبکہ ہمارے ہاں پچانوے فیصد منہ زبانی بتا دیں گے۔ لیکن اس کے باوجود منصفانہ عدل کی فراہمی اور شفافیت کے اعتبار سے ہماری عدلیہ کا گراف عالمی درجہ بندی میں بہت نیچے ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے مشاہرات اور مراعات ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے ہم منصِب ججوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ امریکہ یا برطانیہ میں عدلیہ کا نمود (Exposure) اتنا نہیں ہوتا جتنا ہمارے ہاں روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ ایسا معلوم ہوتا ہے: سیاست کا سب سے بڑا میدان اعلیٰ عدالتیں ہیں۔ اسی طرح ہم نے کبھی نہیں سنا کہ وہاں کے جج آئے روز دھمکی دیتے ہوں کہ ہم وزیراعظم کو عدالت میں بلا لیتے ہیں‘ یہ ہماری عدلیہ کا طرّہ ٔ امتیاز ہے‘ اس کے نتیجے میں نظام ساکت ہو جاتا ہے‘ انتظامی فیصلہ کرنے والے لرزاں وترساں رہتے ہیں۔ علامہ محمد طاہر تیونسی لکھتے ہیں: ہمارے علما نے کہا ہے: اگر ایک فریقِ مقدمہ قاضی سے کہے ''میرے معاملے میں اللہ سے ڈرو‘‘ تو یہ قاضی کے ساتھ بدسلوکی میں شمار نہیں ہو گا اور قاضی کیلئے روا نہیں کہ اس پر سزا دے‘ جیسے قاضی اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والے کو سزا دیتا ہے (التحریر والتنویر‘ ج: 23‘ ص: 234)۔ علامہ سرخسی لکھتے ہیں ''عدالتوں کا رعب ودبدبہ اتنا ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنی گفتگو میں آداب کی رعایت کرنے سے عاجز ہوتا ہے‘ تو اگر قاضی بعض باتوں سے درگزر نہ کرے تو یہ اس کیلئے باعثِ ضرر ہوگی‘‘۔ مزید لکھتے ہیں ''اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص قاضی کی غلطی پر مطلع ہو جائے‘ وہ کھلم کھلا نہ بتائے‘ بلکہ اشارہ کر دے تاکہ اس کا وقار مجروح نہ ہو‘ بلکہ وہ قاضی کے کسی قریبی شخص کو بتائے تاکہ وہ اس کو تنہائی میں بتا دے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ''عدالت میں قاضی کو مشورہ نہیں لینا چاہیے‘ کیونکہ اس طرح فیصلے میں گڑبڑ کا اندیشہ ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ کوئی جاہل یہ سمجھ بیٹھے کہ قاضی کو تو کچھ معلوم ہی نہیں ہے‘ اسی لیے وہ دوسروں سے پوچھ رہے ہیں‘ اس طرح وہ قاضی کی تحقیر کرے گا‘‘ (المبسوط‘ج: 16‘ ص: 66‘ 67‘ 75)۔
اس سے معلوم ہوا کہ قاضی کو ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے جو اُس کیلئے فریقِ مقدمہ کی نظر میں باعثِ عیب ہو اور قاضی سے گفتگو میں بھی پوری احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے تاکہ اس کی عزت ومرتبے میں فرق نہ آئے۔ اس لیے قاضی کو زیرِ بحث مقدمے کے علاوہ مجلس قضا میں دوسری باتیں کرنے سے روکا گیا ہے۔ فریقینِ مقدمہ کو بیک وقت بولنے کی ممانعت ہے: ''قاضی ایسے افعال وحرکات سے بچے جو عدالت کے دبدبے کو ختم کرتے ہوں‘‘ اس میں قاضی کی نشست وبرخاست کا انداز‘ گفتگو اور تاثرات سب آ جاتے ہیں۔ قاضی کے سامنے اگر فریقینِ مقدمہ باہم جھگڑا یا گالی گلوچ کریں تو قاضی کو تعزیر کا حق حاصل ہے‘ ماوردی نے اس کی مختلف صورتیں لکھی ہیں: یا تو قاضی منع کر دے‘ اگر اس سے باز نہ آئیں تو ڈانٹے‘ اگر اس سے بھی باز نہ آئیں تو مارے یا قید کر دے‘ پھر حسبِ موقع لاٹھی اور جوتوں سے مار سکتا ہے‘‘ (ادب القاضی للماوردی‘ ج: 1‘ ص: 252)۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں ''اگر خود حاکم پر طعن کیا‘ حکم پر نہ کیا تو حاکم کو اختیار ہے کہ اسے سزا دے‘‘ (تفسیر قرطبی‘ ج: 5‘ ص: 267)۔ اس سے معلوم ہوا: قاضی کے فیصلے پر مثبت یا منفی تبصرہ کیا جا سکتا ہے‘ البتہ اس کی ذات کو ہدفِ طعن نہیں بنانا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved