کہا جا رہا ہے اور بڑے زور شور سے کہا جا رہا ہے کہ حکومتی اتحاد چھبیسویں آئینی ترمیم کو منظور کرانے کے لیے منصوبہ بندی کر رہا ہے یا یہ کہیے کہ کر چکا ہے۔ 25اکتوبر سے پہلے پہلے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لی جائے گی اور وہ کر دکھایا جائے گا جس کو تحریک انصاف اور اس کے قانونی بہی خواہ برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ آئینی ترمیم کے حوالے سے میڈیا میں جو کچھ کہا جا رہا ہے اور اس سے عدلیہ کی آزادی کو لاحق خطرات پر جو روشنی ڈالی جا رہی ہے‘ اس سے قطع نظر اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ آئین ایک ایسی دستاویز ہے جس پر ''اجماع‘‘ ہے‘ اسے پاکستان کی ہر سیاسی اور مذہبی جماعت اور ہر ادارہ تسلیم کرتا اور اس کے تحت زندگی گزارنے کا عزم دہراتا رہتا ہے۔ وہ سب منصب دار جو مملکت کا نظام چلانے میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں‘ اس کی حفاظت کا حلف اُٹھا کر اپنا منصب سنبھالتے ہیں۔ مسلح افواج بھی اس کی پاسداری کی قسم اُٹھاتی ہیں اور عوام کے منتخب نمائندے بھی اسی سے جڑے رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری آئین ہی کو نافذ کرنا ہے۔ اس کی تشریح و تعبیر میں کوئی اختلاف ہو تو اسے رفع کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ آئین کی جو تشریح عدلیہ کرتی ہے وہی آئین قرار پاتی ہے۔ اس سے کسی کو بھی اختلاف ہو اور اس پر جو بھی تنقید کی جائے‘ فیصلہ کن الفاظ وہی ہوتے ہی جو عدلیہ سے صادر ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آئین کوئی جامد دستاویز نہیں ہے۔اس کے اندر ہی اسے تبدیل کرنے کا طریقہ کار بھی درج ہے۔بدلے ہوئے حالات میں اس کی کسی شق میں ترمیم کی جا سکتی ہے‘ یا کوئی نئی شق داخل کی جا سکتی ہے۔ اس ہی کی بدولت آئین ایک زندہ دستاویز سمجھی جاتی ہے‘جو ہر زمانے کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔
پاکستانی دستور(بعد از خرابی ٔ بسیار)1973ء میں نافذ ہوا تو اس کے بعد یہ کئی صدموں سے دوچار ہو چکا ہے۔ اسے پہلے جنرل محمد ضیا الحق اور پھر جنرل پرویز مشرف نے معطل کیا اور اس تعطل کے دوران اپنے مارشل لائی حکام کے تابع ملک چلایا۔آئین کو بحال کرنے سے پہلے اس میں بے شمار ترامیم کر ڈالیں جنہیں بعدازاں منتخب ہونے والی اسمبلیوں میں زیر بحث لایا گیا اور کسی نہ کسی طور اُن کی منظوری حاصل کر لی۔صدر اور وزیراعظم کے اختیارات میں اضافہ اور کمی ہوتی رہی‘یہاں تک کہ باوردی صدر کو بھی آئین کا جامہ پہنا دیا گیا۔جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے منصب سنبھالا‘ وزارتِ عظمیٰ بھی پیپلزپارٹی کے حصے میں آئی تو وسیع تر مشاورت کا اہتمام کرتے ہوئے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین کو ایک نیا قالب عطا کر دیا گیا۔صوبائی خود مختاری کی حدود کو جو وسعت دی گئی اور اُس کے نتیجے میں طے پانے والے فنانس ایوارڈ کے محاصل میں صوبوں کے حصے میں جو اضافہ کیا گیا‘اُس نے وفاق کو عملاً ایک یتیم خانہ بنا ڈالا۔ 50فیصد سے زیادہ محاصل صوبوں کے پاس چلے جاتے ہیں جبکہ قرضوں اور اُن پر سود کی ادائیگی کرنے کے بعد وفاقی حکومت خالی ہاتھ ہو جاتی ہے۔دفاعی اور انتظامی اخراجات کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے‘وفاقی حکومت کی اس درگت کا کوئی مداوا نہ کیا گیا تو حالات جو رخ اختیار کریں گے اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی ہے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے حکومتی اتحاد ''وفاقی آئینی عدالت‘‘ کو جنم دینا چاہتا ہے۔ یہ مجوزہ عدالت دستور کے حوالے سے پیدا ہونے والے تنازعات کا تصفیہ کرے گی اس میں چاروں صوبوں کو برابر نمائندگی حاصل ہو گی اور سپریم کورٹ کو آئینی بکھیڑوں سے نجات دلا دی جائے گی۔کہا جا رہا ہے کہ دستور کی تشریح و تعبیر کے مقدمات کی تعداد 10 سے15 فیصد ہوتی ہے لیکن یہ عدالت کا90 فیصد وقت لے جاتے ہیں۔حکومتی اتحاد میں بلاول بھٹو زرداری دستوری عدالت کے ایک بڑے وکیل کے طو پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں‘اُن کا اصرار ہے کہ دستور کی تشریح و تعبیر کے حوالے سے مقدمات کے لیے جب ایک عدالت مخصوص کر دی جائے گی تو پھر سپریم کورٹ فوجداری اور دیوانی مقدمات یکسوئی سے سنے گی اور زیر التوا ہزاروں مقدمات میں کمی ہوتی جائے گی اور یوں انصاف کے حصول کے لیے عشروں انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔اس آئینی عدالت کی ضرورت پر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور جناب نواز شریف نے اتفاق کیا تھا۔ 2006ء میں ہونے والے میثاقِ جمہوریت میں اسے ایک اہم نکتے کے طور پر درج کیا گیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنی شہید والدہ کی خواہش کی تکمیل کے لیے پُرجوش ہیں۔ ملک بھر میں وکلا کے اجتماعات سے خطاب کر چکے اور اُن کے تند و تیز سوالوں کے جواب دے چکے ہیں۔ اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں (مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی) نے 18 سال اس حوالے سے خاموشی کیوں اختیار کیے رکھی؟جب اٹھارہویں ترمیم کی جا رہی تھی‘ اُس وقت یہ معاملہ کیوں زیر بحث نہیں لایا گیا؟ گزشتہ 18سال وفاقی آئینی عدالت کے بغیر گزر سکتے ہیں تو مزید 18سال بھی گزارے جا سکتے ہیں۔ممتاز ترین قانون دانوں میں نمایاں حامد خان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ ہی دستورِ پاکستان کے تحت ''وفاقی آئینی عدالت‘‘ ہے‘اس سے یہ امتیاز چھینا نہیں جا سکتا۔ کئی وکلا تنظیمیں اس نقطہ نظر کی حامل ہیں‘ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں آئینی درخواستوں کی سماعت کے لیے ایک الگ بینچ مختص کر کے وہ جملہ فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں جو وفاقی آئینی عدالت سے مطلوب ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کی طرز پر ''وفاقی آئینی عدالت‘‘ قائم کر دی جائے جس کی اپیلوں کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں اسی طرح ایک بینچ مختص کیا جا سکتا ہے‘جس طرح شرعی عدالت کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا شریعت اپیلٹ بینچ موجود ہے۔
اگر یکطرفہ طور پر کوئی ترمیم منظور کی جائے گی تو اس پر وکلا تنظیموں اور تحریک انصاف کے متعلقین و متاثرین کا احتجاج جاری رہے گا۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے دستور کی دفعہ63 اے کی بندیالی تشریح کو کتابِ قانون سے خارج کر ڈالا ہے‘اس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ حکومتی اتحاد کسی بھی دوسری سیاسی جماعت (بالخصوص تحریک انصاف) کے چند ارکان کو ہموار کر کے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کر لے گا اور پھر چین کی بانسری بجائے گا۔اقتدار کی جنگ میں اخلاقی اور سیاسی دلائل کی طرف توجہ دینا مفید نہیں سمجھا جاتا۔ایسا ہوا تو کیا ہو گا اور نہ ہوا تو کیا ہو گا‘اس سے قطع نظر حکومتی اتحاد کی ضروریات واضح ہیں‘اُسے بلا روک ٹوک معاملات چلانے اور تحریک انصاف کو کوزے میں بند کرنے کے لیے جو کچھ کرنا پڑا‘ وہ کر گزرے گا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فی الحال چیف جسٹس کے تقرر کے لیے سنیارٹی کا اصول ختم کرنے پر اکتفا کر لیا جائے۔ عمران خان احتجاجی تحریک کے ذریعے حالات کا رُخ اب تک تو نہیں موڑ سکے‘ مستقبل میں یہ کیسے ممکن ہو گا‘ یہ ایسا سوال ہے جس پر انہیں پوری سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے‘حکمت عملی میں تبدیلی سے انکار جاری رکھنا اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved