تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     06-10-2024

ہاتھیوں کی لڑائی

پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کا حالیہ احتجاج اسلام آباد میں ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب وفاقی حکومت آئین میں اہم ترامیم کروانے والی ہے اور پاکستان پہلی بار شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ تین دن سے وفاقی دارالحکومت اور اس کے مضافات میں نظامِ زندگی مفلوج ہے اور دارالحکومت میں دھرنوں اور احتجاج کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ یہ احتجاج‘ جو آئین میں مجوزہ ترامیم کے خلاف ہے‘ پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ایک نئے تنازع کو جنم دے رہا ہے۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے اور اس کا بنیادی مقصد عدلیہ کی خودمختاری کو بچانا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم عدالتی نظام میں توازن لانے کیلئے ضروری ہے اور آئینی عدالت کا قیام اس عمل کا ایک حصہ ہے۔حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کے تحت ایک نئی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دی گئی ہے جس کا مقصد آئینی تنازعات کو جلدی حل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات کو محدود کرنے کی بات بھی کی گئی ہے‘ تاکہ ملک میں عدالتی نظام کے اندر توازن قائم ہو سکے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور اُن کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اس ترمیم سے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان تنازعات کم ہوں گے اور یہ اقدام ملک کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔تاہم تحریک انصاف اس ترمیم کو عدلیہ پر ''حملہ‘‘ تصور کر تی ہے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم سپریم کورٹ کی خودمختاری کو کمزور کرنے کی ایک کوشش ہے اور اگر اسے نافذ کیا گیا تو ملک میں عدلیہ کے کردار کو محدود کر دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کی قیادت اس ترمیم کے خلاف مزاحمت کے لیے اپنے کارکنوں کو متحرک کر رہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں گے۔
اسلام آباد میں جاری احتجاج میں بڑی تعداد میں کارکنوں کی شرکت اور پختونخوا سے کارکنوں کا مسلسل اسلام آباد کی طرف مارچ‘ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی قیادت میں پی ٹی آئی کے کارکن اسلام آباد میں داخل ہوچکے ہیں جبکہ آئین کے آرٹیکل 245کے تحت اسلام آباد اور اس کے گرد و نواح میں فوج کے خصوصی دستے تعینات ہیں۔
پی ٹی آئی کے احتجاج کا وقت قابلِ غور ہے۔ یہ احتجاج ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب 15اور 16 اکتوبر کواسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں چین‘ روس‘ اور وسطی ایشیا کے اہم رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے ۔ بالخصوص چینی وزیراعظم کی شرکت بے حد اہم ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی شرکت بھی ایک دہائی بعد پاکستان کیلئے ایک بڑی سفارتی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔حکومت کے نزدیک پی ٹی آئی کا احتجاج آئینی ترامیم کے خلاف نہیں‘ اس کا مقصد شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کو سبوتاژ کرنا ہے۔ حکومتی ترجمانوں کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت احتجاج کر کے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پی ٹی آئی کے بعض رہنما یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ عالمی رہنماؤں کی موجودگی میں اس احتجاج کو ایک علامتی مزاحمت کے طور پر پیش کریں گے۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کا پاکستان کا دورہ ایک دہائی بعد ہو رہا ہے اورسفارتی سطح پراس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پاکستان اور بھارت میں تعلقات طویل عرصے سے کشیدہ ہیں‘ ایسے میں یہ دورہ ایک مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کا احتجاج اس سفارتی پیش رفت کو متاثر کر سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں احتجاج خیبر پختونخوا کے پس منظر میں بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے کارکن کیوں مسلسل اسلام آباد احتجاج کے لیے آ رہے ہیں؟ کیا یہ محض عدلیہ کی خودمختاری کے لیے ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور عوامل کارفرما ہیں؟گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے جمعہ کے روزوزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے صوبے کے مسائل پر روشنی ڈالی۔ ملاقات کے فوری بعد کنڈی صاحب سے رابطہ ہوا تو اُن کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے اور صوبے کے عوامی مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اُن کے مطابق پی ٹی آئی کے احتجاج کا ایک مقصد حکومت کی جانب سے صوبے کے مسائل پر توجہ نہ دینے پر دباؤ ڈالنا بھی ہو سکتا ہے۔کنڈی صاحب نے پختون علاقوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور شدت پسندی کے سنگین مسئلے اور دہشت گردی کی حالیہ لہر کو بھی اجاگر کیا۔ اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی حالیہ سرگرمیاں اورممکنہ عوامی جرگہ بھی صوبائی اور وفاقی حکومتوں پرعدم اعتماد کی علامت ہے۔ پی ٹی ایم نے پختون علاقوں میں لاپتہ افراد‘ دہشتگردی سے متاثرہ عوام اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نام پر عوامی آواز کو منظم کیا ہے‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض حقیقی مسائل کو حل کرنے میں صوبائی حکومت اوروفاق کی ناکامی نے مقامی آبادی میں بے چینی پیدا کی ہے۔خیبر پختونخوا میں حالیہ دنوں میں دہشتگردی میں بھی اضافہ ہوا ہے اور افغان دراندازی کے واقعات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ صوبے کی سرحدی پوزیشن اور وہاں جاری دہشت گردی وفاقی حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں۔گورنر خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اگر یہ صورتحال مزید بگڑی تو وفاق کی مضبوطی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کا احتجاج اور حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم کا ارادہ ملک میں سیاسی تصادم کی ایک نئی لہر کو جنم دے رہا ہے۔ پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کیلئے احتجاج کر رہی ہے جبکہ حکومت اسے ایک سیاسی چال کے طور پر دیکھ رہی ہے جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے۔حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان جاری سیاسی تنازعے کا سب سے بڑا اثرسیاسی اور معاشی منظرنامے پر پڑ سکتا ہے۔ پی ٹی آئی اس احتجاج کے ذریعے اپنے کارکنوں کو متحرک کر رہی ہے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ حکومت آئینی ترامیم کے ذریعے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران یہ احتجاج نہ صرف پاکستان کی عالمی ساکھ کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی سیاسی تنازعات کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور حکومت دونوں ہی اس وقت سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں‘ اس سیاسی تصادم کے نتائج آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں واضح ہوں گے۔یہ سوال کہ پی ٹی آئی کے احتجاج اور حکومت کی آئینی ترمیم کے درمیان یہ تصادم کس سمت کو بڑھے گا‘ اس حوالے سے ابھی کچھ واضح نہیں۔ ایک طرف پی ٹی آئی عوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور عدلیہ کی خودمختاری کے نام پر احتجاج کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت آئینی ترمیم کو ملک کیلئے ضروری قرار دیتی ہے۔ بہرکیف حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی تصادم ملک کو ایک نئے بحران کی طرف لے جا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کی صورتحال‘ دہشت گردی کے چیلنجزاور افغانستان سے دراندازی نے سیاسی ماحول کو مزید پیچیدہ بنا ڈالا ہے۔ اگر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکلا تو ملک کو سنگین سیاسی اور سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ سیاسی تصادم حل کی طرف بڑھتا ہے یا مزید شدت اختیار کرتا ہے۔تاہم ایک بات طے ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہوتا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved