تحریر : محمد عبداللہ حمید گل تاریخ اشاعت     06-10-2024

غزہ پرصہیونی دہشت گردی کا ایک سال

کل‘ سات اکتوبر کو‘ غزہ پر صہیونی جارحیت اور دہشت گردی کو ایک سال ہو جائے گا۔ اس ایک سال کے دوران 42ہزار سے زائد شہادتیں بھی فلسطینیوں کے جذبۂ ایمانی کی حرارت مدھم نہیں کر سکیں۔ وہ اپنے رہنماؤں کو کھونے کے بعد بھی اسرائیل کی درندگی کے سامنے برسر پیکار ہیں۔ غزہ میں رونما ہونے والے سانحات کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے۔ ان ہولناک واقعات پر بحیثیت انسان کوئی بھی خاموش نہیں رہ سکتا۔ حزب اللہ کے قائد و رہبر حسن نصراللہ بھی شہید ہو گئے اور بے بسی اور بے کسی کی مجسم تصویر بنے اسلامی ممالک گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر ان حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ حسن نصراللہ شہید کوئی فوجی یا سیاسی رہنما نہیں روحانی مجاہد تھے۔ اسرائیل نے جب جب فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھایا حسن نصراللہ ایسے مردِ مجاہد ثابت ہوئے جو اُن کیلئے ہمیشہ سینہ سپر رہے اور شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔ اُن کی شہادت کے بعد بھی صہیونیت کے خلاف ان کا مشن کمزور نہیں پڑا۔ حسن نصراللہ کو نشانہ بنانے کیلئے بنکر بسٹر بم استعمال کیے گئے۔ یہ امریکی فوج کے سب سے بڑے بنکر بسٹر بم تھے۔ جنیوا کنونشن کے تحت گنجان آباد علاقوں میں ان بموں کا استعمال ممنوع ہے۔
حزب اللہ جدید ترین میزائلوں اور اسلحہ سے لیس ایک انتہائی منظم جماعت ہے جو لبنان کے جنوبی اور اسرائیل کے شمالی علاقوں میں کافی مضبوط پوزیشن میں ہے جہاں حزب اللہ نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں اور لبنان کا جنگی محاذ اسرائیل پر بھاری پڑ سکتا ہے۔ شہید حسن نصراللہ 1992ء سے حزب اللہ کی قیادت کررہے تھے۔ انہوں نے اس تنظیم کو سیاسی اور عسکری طاقت میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حسن نصراللہ کی شہادت اس بات کا اعلان ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا محاذ باضابطہ طور پر گرم ہو چکا ہے۔ معاملہ اب غزہ تک محدود نہیں رہا‘ اسرائیل نے لبنان میں بھی جنگ کے شعلے بھڑکا دیے ہیں۔ حسن نصراللہ کو نشانہ بنانے سے پہلے اسرائیل نے لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی حملے کرکے متعدد افراد کو شہید کر دیا تھا۔ اسرائیل نے پہلے حماس کو ختم کرنے کیلئے غزہ میں تباہی مچا دی اور اب لبنانیوں کی نسل کشی جاری ہے اور اقوام عالم مشرقِ وسطیٰ میں بارود کی بارش کو تماشائی بن کر دیکھ رہی ہیں۔
مسلم ممالک نے سات اکتوبر 2023ء سے آج تک اسرائیل کے خلاف ہر عالمی فورم پر آواز اٹھائی ہے۔ لبنان کے تازہ حالات پر بھی مسلم ممالک فکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی غزہ میں جنگ بندی کی اپیل سمیت اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے پھیلاؤ سے باز رہنے کا انتباہ جاری کر چکا ہے لیکن اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان سمیت فلسطین اور لبنان کے حامی ممالک کی کوششوں کے باوجود حالات تبدیل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی نشستند‘ گفتند اور برخاستند کے سوا کچھ نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی چنگاریاں بھڑک اٹھی ہیں۔ اسرائیل‘ امریکہ اور یورپ پھر سے اس خطے میں جنگ واپس لے آئے ہیں۔ غزہ کے بعد انہوں نے لبنان پر چڑھائی کر دی پھر شام کی باری بھی آ سکتی ہے۔شام کی سرحدیں ترکیہ سے ملنے کی وجہ سے یہ جنگ ترکیہ کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اسرائیل‘ امریکہ اور یورپ اس پورے خطے کے نقشے کو تبدیل کرنے پر کا م کر رہے ہیں۔ اگر عرب ممالک اس صورتحال میں خاموش تماشائی بنے رہے تو اُن کی باری بھی آ سکتی ہے۔ اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ اس جنگ میں ایران کو بھی گھسیٹ لیا جائے اور اگر یہ جنگ ایران تک پہنچی تو ہم بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔اگر غزہ کی طرح لبنان اور شام بھی اپنا تحفظ نہ کر سکے تو اناطولیہ کا کوئی حصہ اس جنگ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں دو محاذ گرم ہیں‘ ایک بیرونی حملہ آور کے ساتھ ہے اور دوسرا مزاحمت کاروں کے ساتھ۔ مغربی فوجی مہم جوئی نے عراق‘ شام‘ مشرقی بحیرۂ روم اور Aegean Sea سمیت پورے علاقے کو ہدف بنا رکھا ہے۔ آج بیروت پر بم گرائے جا رہے ہیں کل کو یہ بم دمشق پر بھی گرائے جا سکتے ہیں اور اس کے بعد تہران بھی بموں کی زد میں آ سکتا ہے۔ یہ بم استنبول پر بھی گرائے جا سکتے ہیں۔ Aegean Sea کے تمام جزائر‘ یونان‘ جنوبی شام‘ لبنان اور بحیرۂ روم میں اس وقت غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔ مسلم ممالک فوری طور پر اسرائیل کی بڑھتی جارحیت کو روکیں کیونکہ جتنی دیر ہوتی جائے گی اتنی ہی مشکل بڑھتی جائے گی۔ ایران نے یکم اکتوبر کی رات اسرائیل پر 200میزائل داغ کر مسلم اُمہ کے جذبات کی ترجمانی کی۔در حقیقت اقوام متحدہ میں امریکہ کا اثر و رسوخ ہونے کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں صورتحال بگڑتی چلی گئی اور اب یہ خطہ بدترین انسانی المیے سے دوچار ہے۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ جس طرح امریکہ اُس کی پشت پناہی کر رہا ہے‘ اقوام متحدہ بھی کرے۔ اسرائیل کا اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دینا قابلِ مذمت ہے۔ اسرائیل کی طرف سے جنگ کو وسعت دینے کے باوجود امریکہ کا اسرائیل کی مسلسل فوجی اور مالی امداد کا اعلان بڑا مضحکہ خیز ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے انسانیت کو تاراج کر نے کیلئے اسرائیل کومہلک ہتھیاروں کی سپلائی جاری ہے۔ مغربی دنیا کی منافقت بھی عیاں ہو چکی ہے۔ انہیں یوکرین کے جنگ زدہ افراد تو نظر آتے ہیں مظلوم فلسطینی اور لبنانی نظر نہیں آتے۔ اگر اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے تو ایران‘ یمن اور لبنان کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ امریکہ کھل کر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کر رہا ہے اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد میں ناکامی اگر یونہی اسرائیل کا حوصلہ بڑھاتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب یہ خطرناک صورتحال مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی‘ جس کے نتائج عالمی سطح پر تصور سے کہیں زیادہ برُے ہوں گے۔
امریکہ کا نیا صدر کون ہو گا؟ وہاں اگلی حکومت کس پارٹی کی ہو گی؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئے امریکہ کو اسرائیل کی ضرورت ہے اور اس کیلئے جو بائیڈن نے بطور امریکی صدر جو خدمات انجام دی ہیں وہ ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ صہیونی حکومت نے ایک برس میں فلسطین میں نسل کشی کے ساتھ اب اس جنگ کو لبنان تک پھیلا دیا ہے اور اس جنگ کا مرکز تیزی سے شمال کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔ اب خطے کے دیگر ممالک کو اس جنگ سے بچنے کیلئے غیر معمولی تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ یہ جنگ غزہ اور لبنان تک محدود نہیں رہے گی۔ آنے والے دنوں میں کچھ بھی متوقع ہے۔ بلاشبہ حزب اللہ کے لیڈرکی شہادتوں نے خطے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ نیتن یاہو نے غزہ پر حملے کے نتیجے میں کھلم کھلا قتلِ عام کیا اور ہر قسم کا تشدد اختیار کیا۔ اب یہ تشدد ایک بڑے پیمانے پر دہشت گردی میں بدل چکا ہے۔ مسلم ممالک کو مل کر مغربی حملہ آوروں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے جو ان کی جغرافیائی حدودپر حملہ آور ہیں‘جنہوں نے عراق میں دس لاکھ لوگ مار دیے‘افغانستان کو تباہ وبرباد کیا اور دنیا کے ہر کونے میں خفیہ تشدد کے طریقے پھیلا رکھے ہیں اور آج سب کچھ اس خطے میں پھر سے دہرایا جا رہا ہے۔ مسلم اقوام کو بلا جھجک اسرائیل کے ہر حملے کا جواب دینا ہے۔مغرب صدیوں سے ہمارے باہمی اختلافات اور اندرونی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو نیست ونابود کر رہا ہے ۔وہ مسلمانوں کی زمین ،ذخائر اورمستقبل چرا رہا ہے۔اب لوگوں اور ملکوں کو خطے کے تحفظ کیلئے بیدار ہونا پڑے گااور صدیوں سے قائم نو آبادیاتی تسلط سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری نسلیں بے وطن اور بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ ا پنے قدرتی ذخائر اور آزادی بھی کھو دیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved