کسی ملک کا معاشی استحکام سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے۔ہر وقت احتجاج اور جلسے جلوس بے یقینی پیدا کرتے ہیں جس سے معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔اسلام آباد میں تحریک انصاف کے احتجاج کے اعلان کے بعد ہی راستے بند ہو گئے اور دیگر کئی شہروں میں بھی یہی صرتحال ہے۔ جب سے احتجاجوں اور جلسوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہے ہر چند دن بعد راستے بند ہو جاتے ہیں اور کاروباری سرگرمیاں برُی طرح متاثر ہوتی ہیں۔ دوسرا بڑا خطرہ بڑی شاہراہوں پر قائم فیکٹریوں کی حفاظت کا ہے۔ مالکان اسی خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کوئی ہجوم اندر گھس کر عمارت اور مشینری کو نقصان نہ پہنچا دے۔ ایسے حالات میں کاروبار کیسے ہو سکتا ہے؟ احتجاج کے دوران انٹرنیٹ اور موبائل بھی بند کر دیا جاتا ہے جس سے رابطوں میں دشواری پیدا ہوتی ہے اور انٹر نیٹ بند ہونے سے آئی ٹی کی صنعت بھی شدیدمتاثر ہو تی ہے۔ احتجاج کرنا ہر شہری کا جمہوری حق ہے لیکن شرط یہ ہے کہ امن امان کی صورتحال خراب نہ ہو‘معیشت کو نقصان نہ پہنچے اور ملک کا امیج خراب نہ ہو‘ تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو سکے۔
15اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونا ہے۔ اس دوران مختلف ممالک کے وفود پاکستان آئیں گے۔ معیشت اور سرمایہ کاری سمیت مختلف امور پر بات ہو گی۔اگراحتجاج کی صورتحال برقرار رہی تو بیرونِ ملک سے آئے وفود کو سرمایہ کاری پر قائل کرنا مشکل ہے۔ ایسے حالات میں تو ملک کے اندر سرمایہ کار بھی اپنے سرمائے کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں‘ بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری کی تو توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔احتجاجی سرگرمیوں کا مقصد اس کانفرنس کو ناکام بنانا ہے یا نہیں‘ میں اس بارے کوئی رائے نہیں دے سکتا لیکن اگر ماضی کو دیکھا جائے تو 2014ء میں چینی صدر کا دورۂ پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کی وجہ سے ہی معطل ہوا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جب ڈیل فائنل ہونے کے مرحلے میں تھی تو تحریک انصاف کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط لکھ دیا گیا۔ یہ رویہ اب ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی معاشی مسائل کو سنجیدگی سے حل کی طرف لایا جا سکے۔
اطلاعات ہیں کہ چین کے وزیراعظم بھی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ حکومت چین کے ساتھ آئی پی پیز قرض کی ادائیگی ڈالرز کے بجائے یوآن میں کرنے کے حوالے مذاکرات کر رہی ہے۔ ماضی میں تحریک انصاف کے دور میں بھی یہ مذاکرات ہوئے تھے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ چینی وزیراعظم کے ساتھ مذاکرات میں دیگر امور کے علاوہ 16 ارب ڈالر کے چینی قرضوں کی ادائیگی کے طریقہ کار پر بھی بات ہوگی۔ 16 ارب ڈالرز کے یہ قرض 12 سے زیادہ انرجی پلانٹس لگانے کیلئے لیے گئے تھے ‘جن میں سے تقریباً سات ابھی زیرِ تعمیر ہیں۔ عمومی رائے یہ ہے کہ چین شاید یہ مطالبہ تسلیم نہ کرے مگر وزیرخزانہ کے بیانات سے لگتا ہے کہ معاملات شاید طے پا جائیں۔علاوہ ازیں ایس آئی ایف سی کے تحت سرمایہ کاری کے کئی منصوبوں پر بھی دستخط کیے جا سکتے ہیں۔ گیارہ سالوں میں چینی وزیراعظم کا یہ پہلا دورۂ پاکستان ہو گا۔حکومت اس دورے سے پورا فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ چینی انجینئرز اور منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تقریباً 45 ارب روپے کے بجٹ کی منظوری دی جا چکی ہے۔ اگر ملک میں کوئی سیاسی بھونچال نہ آیا اور حالات خراب نہ ہوئے تو تقریباً 25 ارب ڈالرز کے پچیس منصوبوں میں سرمایہ کاری کی اچھی ڈیلز ہو سکتی ہیں اور 16 ارب ڈالرز کے چینی قرضوں کا بوجھ بھی پاکستان کے کندھوں سے اُتر سکتا ہے اور بجلی بھی سستی ہو سکتی ہے۔
اس وقت بجلی سستی کرنے کے لیے دیگر امور پر بھی کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت تقریباً 1200 میگاواٹ سولر بجلی کی پیداوار کے لیے پلانٹ لگانے جارہی ہے۔ گو کہ ملک میں پہلے ہی بجلی وافر مقدار میں موجود ہے۔ ملکی ضرورت21 ہزار سے 24 ہزار میگاواٹ ہے جبکہ پیدواری استعداد تقریباً42 ہزار میگاواٹ ہے‘ اسی لیے کپیسٹی چارجز کی مد میں پاور پلانٹس کو اضافی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔ لگ بھگ 18 روپے فی یونٹ اضافی صرف کپیسٹی چارجز کی مد میں عوام سے وصول کیے جا رہے ہیں جو تقریباً دو ٹریلین روپے بنتے ہیں۔ البتہ سولر سے حاصل کردہ بجلی تیل سے پیدا کی گئی بجلی سے کم قیمت ہوتی ہے۔ اس منصوبے سے فائدہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب اس 1200 میگاواٹ سولر بجلی کو کسی آئی پی پی کو ختم کرکے سسٹم میں شامل کیا جائے۔ اس منصوبے میں شفافیت کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ خبر یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے لیہ میں تقریباً چھ ارب بیس کروڑ روپے مالیت کی زمین خریدی جارہی ہے۔ اس منصوبے کی منظوری 2022ء میں دی گئی تھی‘ اُس وقت زمین کی قیمت پانچ لاکھ روپے فی ایکڑ تھی اور آج زمین کی قیمت تقریباً پچیس لاکھ روپے فی ایکڑ ہو چکی ہے۔ دو ارب ستائیس کروڑ والی زمین کی قیمت چھ ارب بیس کروڑ تک بڑھ جانے سے کون مستفید ہو رہا ہے‘ یہ جاننے کی ضرورت ہے۔ سرکاری سطح پر کرپشن کا یہ ایک آزمودہ اور کافی پرانا طریقہ ہے‘ جس میں پکڑ بھی مشکل ہوتی ہے۔پہلے یہ خبر پھیلا دو کہ حکومت اس علاقے میں کوئی منصوبہ شروع کرنا چاہتی ہے‘ اس سے جگہ کی ڈیمانڈ بڑھنے لگتی ہے‘ منصوبہ شروع ہونے میں چند سال تاخیر کی جا تی ہے تاکہ جگہ کی قیمت مسلسل بڑھائی جاتی رہے اور جب قیمت پانچ‘ چھ گنا بڑھ جائے تو حکومت وہ جگہ نئے ریٹ پر خرید لیتی ہے۔ چونکہ اس میں منافع کا مارجن کافی زیادہ ہوتا ہے اس لیے تمام سٹیک ہولڈرز اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں بلکہ کچھ تو نہا بھی لیتے ہیں۔ عوام صرف تماشا دیکھتے رہ جاتے ہیں اور یہ کہہ کر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ ''کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے‘‘۔حکومت سے گزارش ہے کہ اس منصوبے کی شفافیت کو یقینی بنائے تا کہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے۔ دوسری جانب حکومت ملکی برآمدات کو بڑھانے کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہے‘ لیکن اس کے لیے سیاسی ماحول سازگار بنا کر رکھنا ہو گا۔ ماضی میں ملکی معیشت کو نقصان پہنچا کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی جو کوششیں کی گئیں‘ وہ رائیگاں گئیں۔ ملک کا بھی نقصان ہوا اور کوئی سیاسی فائدہ بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ اس لیے ہمارے سیاسی رہنمائوں کو قومی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔
گزشتہ ماہ روسی نائب وزیراعظم پاکستان آئے تھے۔ حکومت نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان بارٹر تجارت کو فروغ دینے پر توجہ دی۔ اب چند روز قبل روس اور پاکستان کے مابین زرعی تجارت کے فروغ کا معاہدہ طے پایا ہے۔ یہ معاہدہ روس اور پاکستان کی دو زرعی کمپنیوں کے مابین ہوا ہے جس کے تحت چاول‘ آلو اور مالٹوں کے بدلے روس سے چنے اور دالوں کی بارٹر تجارت ہو گی۔ یہ معاہدہ روس کے لیے بھی فائدہ مند ہے اور پاکستان کے لیے بھی۔ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے روس کو ڈالر میں ادائیگی اور وصولی کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بارٹر ٹریڈ سے روس کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں اور پاکستان کو بھی ڈالروں میں ادائیگی نہیں کرنا پڑے گی۔ برآمدات کی مد میں جو ڈالرز موصول ہونا تھے‘ ان کا نقصان ہو سکتا ہے لیکن چاول اور دیگر مصنوعات کے ایکسپورٹرز اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ ادھر کسانوں کی طرف سے گلہ کیا جا رہا ہے کہ مونجی کا اچھا ریٹ نہیں مل رہا۔ ممکن ہے کہ اس ڈیل کے بعد ریٹ میں کچھ بہتری آ جائے۔دونوں ممالک کے مابین یہ پہلی بارٹر ڈیل ہے۔ تقریباً 60 پاکستانی کمپنیوں نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ روس اور پاکستان کی تجارت 500 ملین ڈالر سے کچھ زائد ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ بارٹر سے باہمی تجارت کا دائرہ کار مزید وسیع ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved