حیرانی نہ کہیے‘ صدمے کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔ ایک صدمے میں یہ خبر پڑھ رہا ہوں کہ بیرسٹر سیف نے بھارتی وزیر خارجہ کو اپنے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرنے کی دعوت دی ہے۔ ٹی وی پروگرام میں خیبرپختونخوا حکومت کے مشیر نے مزید کہا کہ بھارت سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ وہ آئیں اور پاکستانی جمہوریت کا بھی مشاہدہ کریں۔ پی ٹی آئی کا جو مسلسل احتجاج سڑکوں پر چل رہا ہے‘ عدالتوں سے جو خبریں آرہی ہیں‘ وفاق‘ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے بیچ جو محاذ آرائی ہے‘ جس طرح لاہور اور اسلام آباد میں سڑکیں بند ہوئی ہیں اور شہری نظر بند ہیں‘ ان سب پر بھی مسلسل تکلیف ہوتی ہے لیکن بھارتی وزیر خارجہ کو مظاہرے سے خطاب کی دعوت دینا؟ اگر یہ حکومت کو اور مقتدرہ کو چڑانے کی کوشش ہے تو اس کا فائدہ نہیں ہوگا۔ البتہ مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کو ضرور زخم لگے گا جو ایک زمانے میں پی ٹی آئی کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ عملی طور پر تو ممکن ہو ہی نہیں سکے گا کہ نو سال کے بعد پاکستان آنے والے پہلے بھارتی وزیر خارجہ کسی سیاسی جماعت کے مظاہرے سے خطاب کریں‘ اور یہ بات بیرسٹر سیف بھی جانتے ہیں‘ لیکن اس سے یہ ضرور ہوگا کہ بھارتی میڈیا کے ہاتھ میں ایک ہتھیار دے دیا جائے گا کہ وہ پاکستانی حکومت کے خلاف بات کر سکے۔ بیرسٹر سیف اور گوہر علی خان نے بعد میں اس بات کی وضاحت بھی کر دی ہے ‘ لیکن بات بنی نہیں۔بات موجودہ حکومت کی ہی نہیں ملکی وقار کی ہے۔ تحریک انصاف ماضی میں بھی کئی بار یہ ثابت کر چکی ہے کہ اگر وہ اقتدار میں نہیں تو اسے ملکی وقار کی ذرہ برابر پروا نہیں۔ طبقاتی خلیجیں بڑھتی چلی جائیں‘ سیاست نفرت میں بدل جائے‘ اس سے پی ٹی آئی کو کوئی سروکار نہیں۔ بس انہیں اپنے مخالفوں کو رگیدنا ہے اور ہر صورت میں اقتدار تک پہنچنا ہے۔ اس مقصد سے ان کی ماری ہوئی کلہاڑی اکثر اپنے پیروں پر لگتی رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام ان کی خواہش اور خطوط کے باوجود نہیں رک سکے۔ 2014ء کے دھرنے میں سول نافرمانی کی تحریک بھی کامیاب نہ ہو سکی بلکہ 2014ء کی ریڈ لائن عبور کرنے کا نتیجہ اپنے رہنما جاوید ہاشمی کی علیحدگی اور پریس کانفرنس کی صورت میں برآمد ہوا اور مشہورِ زمانہ 9مئی کے واقعات تو وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔
ہم نہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں نہ پی ٹی آئی کی کسی مخالف جماعت کے ساتھ۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی دوغلی پالیسیاں بھی اپنی جگہ اور موجودہ انتخاب میں مشکوک جیت بھی۔ مقتدرہ کے سہارے اور مقدمات سے پی ٹی آئی کو دبانے اور بدنام کرنے کی کوششیں بھی واضح ہیں۔ لیکن بہرحال یہ بھی ان کے ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے نہ کبھی سرخ لکیر عبور کی‘ نہ سیاسی نفرتوں کو ناقابلِ واپسی کی سطح پر پہنچایا۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی سخت مخالفت وفاق اور صوبوں میں ہم نے دیکھی۔ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت میں بھی یہ لوگ بڑھ چڑھ کر شریک رہے۔ ایک دوسرے کی سخت مخالفت بھی کی‘ ریلیاں بھی نکالیں‘ دھرنے بھی دیے‘ الزامات بھی لگائے‘ شہباز شریف نے زرداری صاحب کے خلاف کیا کچھ عوامی جلسوں میں نہیں کہا۔ لیکن اسی نواز شریف‘ اسی بے نظیر نے ڈکٹیٹر کے خلاف معاہدہ بھی کیا۔ انہی شہباز شریف اور زرداری صاحب نے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں پی ڈی ایم بھی بنائی۔ پی ڈی ایم کے بعد آج بھی ان دونوں جماعتوں کی مشترکہ حکومت ہے اور سیاسی پالیسیاں بھی مشترکہ ہیں۔ وہ سرخ لکیر کہیں دور ماضی میں گم ہو چکی جو دونوں جماعتوں کے بیچ خونی لکیر سمجھی جاتی تھی‘ جس میں ایک دوسرے سے تعاون کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ مفادات کا کھیل شروع ہو تو شاید وہ لکیر دوبارہ نمودار ہوجائے ۔ یہ کہنے کا مقصد یہی ہے کہ ان دونوں نے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی۔لیکن پی ٹی آئی اپنے مخالفوں کو زچ کرنے کے لیے ہر بار یہ لکیر عبور کرتی رہی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ 2014ء کے بعد سے خاص طور پر جو طبقاتی نفرتیں پیدا ہوچکی ہیں ‘ معاشرے کے مختلف اداروں کے بیچ جو شگاف پڑے ہیں۔جو گالی گلوچ اور عدم برداشت کا رویہ پیدا ہوا ہے اور مخالفوں کو رگیدنے کے لیے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا طرزِ عمل روا رکھا گیا ہے اس کی بڑی ذمہ دا رپی ٹی آئی ہے۔ یہ بات کتنی بار کہی جائے کہ پی ٹی آئی کے مخالفوں نے جو بھی غیر اخلاقی‘ غیر قانونی‘ غیرسیاسی رویہ رکھا‘اس کی کسی طور حمایت نہیں کی جاسکتی۔لیکن اسی طرح پی ٹی آئی کے دور میں جو غیر اخلاقی‘ غیر قانونی‘ غیر سیاسی رویے رکھے گئے ان کی حمایت بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔
ان جارحانہ پالیسیوں کا کھرا کہاں تک جاتا ہے ؟ میں سوچتا ہوں کہ بانی پی ٹی آئی کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں۔ کیا شاہ محمود قریشی یہ پالیسیاں بنا سکتے ہیں ؟ کیا ڈاکٹر عارف علوی کا یہ مزاج ہے ؟کیا چودھری پرویز الٰہی کا یہ مزاج ہے ؟کیا بیرسٹر گوہرعلی یا عمر ایوب کا یہ مزاج ہے؟حقیقت یہ ہے کہ یہ جارحانہ مزاج بنیادی طو رپر ایک فرد کا ہے۔ باقی اُس کی پیروی پر مجبور ہیں۔بانی پی ٹی آئی نے مولانا فضل الرحمن کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا۔وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے سے لے کر کرپشن کے کھوکھلے الزام تک۔ لیکن یہ جلسوں تک ہی تھا۔ اگر کوئی کرپشن تھی تو ان کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں بنایا۔ وہ تفصیلات اپنے دورِ حکومت میں کیوں سامنے نہیں لائے جن سے یہ کرپشن سفید و سیاہ کی طرح واضح ہوجاتی۔ مولانا فضل الرحمن کے خلاف زبانی الزامات سے زیادہ کچھ نہ ہونا خود ان الزامات کے غلط ہونے کا ثبوت تھا۔
میں سوچتا ہوں کہ اب جب ایوان میں پی ٹی آئی کو جے یو آئی کی ضرورت پڑی اور وہ مولانا کی دہلیز بار بار پار کرنے پر مجبور ہوئے تو کیا اسد قیصر‘ گوہرعلی خان اور عمر ایوب کو کبھی یہ احساس ہوا ہوگا کہ ہماری جماعت کے سٹیج سے اسی شخص کے بارے میں کیا کیا باتیں کی گئی تھیں؟کیا انہوں نے مولانا سے اس کی معذرت کی ہوگی ؟ کیا مولانا نے ان باتوں کا اپنے پاس آنے والے وفود سے کبھی ذکر کیا ہوگا؟مجھے نہیں معلوم۔ لیکن میں بہت حد تک یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اڈیالہ جیل کے ایک قیدی کو ان الفاظ پر شرمندگی نہیں ہوئی ہوگی۔یہی بات دوسری طرف بھی ہے۔جب جے یو آئی کی طرف سے ''یہودی ایجنٹ‘‘ کہنے کی بات ہوا کرتی تھی میں اس کا بھی مخالف تھالیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی سٹیج پر یہ طرزِ عمل پی ٹی آئی نے شروع کیا تھا۔
کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی اس وقت مقبول جماعت ہے۔ کوئی شک نہیں کہ8 فروری کے انتخابات انجینئرڈ تھے۔ کوئی شک نہیں کہ قید و بند میں خان نے استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جماعت کی مقبولیت کو سہارا دینے والے ستون ایک ایک کرکے منہدم ہوئے ہیں۔ مقتدرہ کی حمایت بھی ایک بڑا ستون تھا۔ ان میں ایک ستون اس لکھنے والے کی حمایت کا بھی تھا جو دورِ اقتدار سے قبل پی ٹی آئی کو بہتر جماعت سمجھتا تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ پی ٹی آئی کو بطور جماعت سب سے زیادہ کن دو باتوں نے نقصان پہنچایا تو یہی نظر آتا ہے کہ اول‘ ان کے دورِ اقتدار نے۔ دوم بانی پی ٹی آئی کے مزاج نے۔انہوں نے بار بار ثابت کیا کہ وہ مدبر نہیں فقط جارحانہ مزاج کے مقبول رہنما ہیں۔ ایک لڑاکا شخص چومکھی لڑائی لڑنے کی شاباش تو وصول کرسکتا ہے لیکن اسے ملک کو تقسیم در تقسیم کرنے کی دادنہیں مل سکتی۔ دکھ ہوتا ہے کہ ایک مقبول شخص‘ مسلسل جد و جہد کرکے چوٹی تک پہنچنے والا مدبر سیاستدان نہیں بن سکتا۔ کیا تدبر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کا نام ہے ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved