تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     08-10-2024

ایک بیٹی کی فریاد

'' میری عمر اس وقت 35 سال ہے۔ میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے خاندان کی رسم ہے کہ خاندان سے باہر رشتہ کرنا نیچ حرکت ہے۔ خاندان کے بڑے بوڑھے جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو بڑے فخریہ انداز سے کہتے ہیں کہ سات پشتوں سے اب تک ہم نے کبھی خاندان سے باہر رشتہ نہیں کیا۔ میں عمر کے 35ویں سال میں پہنچی ہوں‘ اب تک میرے لیے خاندان سے کوئی رشتہ نہیں آیا جبکہ غیر خاندانوں سے کئی ایک رشتے آئے لیکن مجال ہے کہ میرے والدین یا بھائیوں نے کسی سے ہاں بھی کی ہو۔ میں اندر سے گھٹ گھٹ کر زندہ لاش بن چکی ہوں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں جب اپنی ہمجولیوں کو اُن کے شوہروں کے ساتھ ہنستے مسکراتے دیکھتی ہوں تو دل سے درد کی ٹیسیں اٹھتی ہیں۔ یاخدا! ایسے پڑھے لکھے جاہل ماں باپ کسی کو نہ دینا جو اپنی خاندان کے ریت ورسم کو نبھاکر اپنی بچوں کی زندگیاں برباد کردیں۔ میرے درد کو مسجد کا مولوی صاحب بھی جمعہ کے خطبے میں بیان نہیں کرتا...
اے مولوی صاحب ذرا تو بھی سن!!! رات کو جب ابا حضور اور اماں ایک کمرے میں سو رہے ہوتے ہیں‘ بھائی اپنے اپنے کمروں میں بھابیوں کے ساتھ آرام کر رہے ہوتے ہیں تب مجھ پر کیا گزرتی ہے وہ صرف میں اکیلی ہی جانتی ہوں۔ اے حاکمِ وقت! تو بھی سن لے فاروق اعظمؓ کے زمانے میں رات کے وقت جب ایک عورت نے درد کے ساتھ ہجر کے اشعار پڑھے تو فاروق اعظمؓ نے ملازم شوہروں کے لیے حکم جاری کیا کہ کوئی شوہر اتنی مدت سے زیادہ اپنی فیملی سے دور نہ رہے۔ اے حاکمِ وقت‘ اے میرے ابا حضور‘ اے میرے ملک کے علما‘ اے میرے محلے کی مسجد کے امام صاحب‘ اے میرے شہر کے پیر صاحب! میں کس کے ہاتھوں پر اپنا لہو تلاش کروں؟
کون میرے درد کو سمجھے گا؟ میری 35 سال کی عمر گزر گئی لیکن میرے ابا کا اب بھی وہی رٹ ہے کہ میں اپنی بچی کی شادی خاندان سے باہر ہرگز نہیں کروں گا۔ اے خدا تو گواہ رہنا بے شک تونے میرے لیے بہت سے اچھے رشتے بھیجے لیکن میرے گھروالوں نے وہ رشتے خود ہی ٹھکرا دیے اب کچھ سال بعد میرا ابا تسبیح پکڑ کر یہی کہے گا کہ بچی کا نصیب ہی ایسا تھا۔ اے لوگو! مجھے بتاؤ کوئی شخص تیار کھانا نہ کھائے اور بولے تقدیر میں ایسا تھا تو وہ پاگل ہے یا عقلمند۔ اللہ پاک نوالے منہ میں ڈلوائے کیا؟؟ یونہی اس مثال کو سامنے رکھ کر سوچیں کہ میرے اور میرے جیسی کئی اوروں کے لیے اللہ نے اچھے رشتے بھیجے لیکن والدین نے یا بعض نے خود ہی ٹھکرا دیے۔ اب کہتے پھرتے ہیں کہ جی نصیب ہی میں کچھ ایسا تھا...‘‘
نہیں معلوم یہ تحریر اصلاً کس کی ہے۔ میں عام طور پر سوشل میڈیا سے کوئی تحریر نہیں اٹھاتا مگر اس تحریر کو پڑھ کر جو حالت ہوئی اس کا تصور ایک باپ ہی کر سکتا ہے یا ایک عورت! یہ پاکستان کے لاکھوں یا غالباً کروڑوں گھروں کی کہانی ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی ہے۔ خود پاکستان میں لاتعداد تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا نے اوپر کی مٹی نیچے اور نیچے کی مٹی اوپر کر دی ہے۔ مگریہ سماجی برائی بدستور تباہی پھیلا رہی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اپنے اردگرد دیکھے تو کئی گھر ایسے دکھائی دیں گے جہاں بیٹیوں کے بالوں میں چاندی اُتر آئی ہے مگر وہ ماں باپ‘ دادا دادی اور برادری کے جھوٹے تکبر اور نسلی رعونت کی قیمت ادا کر رہی ہیں۔ یہ دور افتادہ پسماندہ قصبوں اور بستیوں کی بات نہیں‘ پنجاب کے پڑھے لکھے لوگوں کی بات کی جا رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں بیٹھی ہیں۔ والد صاحب کی یا والدہ محترمہ کی ایک ہی پالیسی ہے کہ لڑکا ہماری ذات ہی کا ہو۔ مغل ہی ہو۔ گجر ہی ہو‘ ارائیں ہی ہو‘ اعوان ہی ہو‘ سید ہی ہو! ورنہ بیٹی کی‘ بہن کی شادی نہیں ہو گی! ان سے کوئی پوچھے کہ اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ کوئی دنیاوی فائدہ؟ کوئی اُخروی فلاح؟ کیا سائنسی تحقیق نے بتایا ہے کہ اپنی ہی ذات میں شادی کرنے سے بچے جینیس پیدا ہوں گے اور نوبیل انعام جیتیں گے؟ یا قوی ہیکل ہوں گے اور کشتی لڑنے کے ماہر نکلیں گے؟ یا ایسا کرنے سے عمریں طویل ہوتی ہیں؟ یا دولت ہن کی طرح برستی ہے؟ کوئی اور فائدہ ہے تو بتایا جائے! میں ایک ایسے خاندان کو جانتا ہوں جہاں چار بہنیں چالیس سے اوپر کی ہو چکی ہیں مگر کوئی سید رشتہ نہیں مل رہا۔ ایک مغل خاندان ہے جو مغل لڑکے کی تلاش میں بیٹی کی بددعائیں لے رہا ہے۔ ایک گجر فیملی ہے جو گجروں سے باہر نہ نکلنے پر مُصر ہے۔ ایک اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ سید خاندان ہے۔ سب بڑے بڑے افسر ہیں مگر بیٹیاں جوانی کی دہلیز عبور کر کے ادھیڑ عمر کی ہو چلی ہیں۔ ایک اور صاحب نے بیٹی کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ بیٹی ملازمت کرتی تھی۔ والدین سے مایوس ہو کر اس نے اپنے ایک رفیقِ کار سے شادی کر لی۔
اُس دن سے لے کر آج تک والد نے بیٹی کی شکل نہیں دیکھی۔ اس نے بھی دوسرے جاہلوں کی طرح وہی منحوس فقرہ کہا ''تم ہمارے لیے مر چکی ہو‘‘۔ غلط کام خود کیا اور نفرین بیٹی پر بھیج رہا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے ایسے پسندیدہ اشخاص بھی نظر آتے ہیں جو ان بے سروپا خیالات سے چپکے رہنے کے بجائے اُس فرض سے سبکدوش ہوئے جو مذہب اور معاشرے نے ان پر عائد کیا۔ ایک اردو بولنے والے سید خاندان نے ایک بیٹی سندھی فیملی میں بیاہی۔ دوسری سرائیکی خاندان میں۔ دونوں داماد غیر سید ہیں۔ بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں اور آسودہ حال۔ ان کے ماں باپ انہیں خوش دیکھ کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالی ان پر مزید نوازشیں کرتا ہے۔
آپ اندازہ لگایئے۔ یہ ملک یونیورسٹیوں‘ کالجوں اور مدرسوں سے اَٹا پڑا ہے۔کہنے کو یہ ایٹمی طاقت ہے۔ لاکھوں لوگ مغربی ملکوں میں رہ رہے ہیں۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلک رہی ہیں۔ مگر لاکھوں لڑکیاں والدین کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث اپنے اس حق سے محروم ہیں جو اللہ نے انہیں دیا ہے۔ ان شقی القلب والدین میں تھری پیس سوٹ پہننے والے مسٹر صاحبان بھی شامل ہیں اور عمامے اور چُغے زیب تن کرنے والے مذہبی افراد بھی! اور ان حضرات کی دلیل کیا ہے؟ کبھی کہیں گے کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں! کبھی فلسفہ جھاڑیں گے کہ قدرت کو یہی منظور تھا۔ اپنا رشتہ تو زمین پر طے ہوا۔ بیٹی کی باری آئی تو آسمان کے ذمے لگا دیا!
یہاں اُن لالچی لوگوں کا ذکر بھی ضروری ہے جو جہیز کے طلبگار ہیں۔ جہیز کی وجہ سے ایک لڑکی سے شادی نہ کرنا ظلم ہے اور جہالت بھی۔ منطق اور کامن سینس کہتا ہے کہ ایسے لوگوں سے آخرت میں ضرور باز پرس ہو گی۔ ایسے لڑکے جو جہیز طلب کرتے ہیں اور لیتے ہیں‘ گداگروں کی طرح ہیں۔ عزتِ نفس سے عاری ہیں۔ اور معاشرے میں فساد اور برائی کے ذمہ دار ہیں۔ اُن عورتوں کو جو بہوؤں کو طعنے دیتی ہیں کہ تمہارے باپ نے آخر تمہیں دیا کیا ہے‘ شرم آنی چاہیے۔ ایک باپ نے اپنی لخت جگر تمہارے حوالے کر دی۔ اس سے زیادہ قیمتی چیز کیا ہو گی؟ ایسی عورتوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کی اپنی بیٹیاں بھی ہیں!
اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ شادی اپنے ''کفو‘‘ میں کرنی چاہیے۔ تو کفو سے مراد یہ نہیں کہ اگر آپ مغل ہیں یا ارائیں یا اعوان تو رشتہ صرف مغل یا ارائیں یا اعوان ہی میں ہو۔ اگر لڑکی مغل ہے اور کروڑ پتی باپ کی بیٹی ہے اور لڑکا مغل ہے مگر مزدور ہے تو یہ کفو ہرگز نہیں۔ مناسبت‘ یعنی کفو مال‘ دین‘شرافت‘ مزاج اور پیشوں میں بھی ضروری ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ لڑکیوں کو ذات برادری والی ضد سے بچانے کے لیے مناسب قانون سازی کرے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved