تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     08-10-2024

احتجاج کی نفسیات

'احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے‘۔ میرا خیال ہے یہ جملہ اب تفہیمِ نو کا محتاج ہے۔
احتجاج جس مفہوم کے ساتھ یہاں رائج ہے‘ اس سے نجات کے بغیر ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ جمہوریت کا شجر ثمربار ہو سکتاہے۔ مذہبی جماعت ہو یا سیاسی‘ جس نے بھی احتجاج کا مروجہ طریقہ اپنایا‘ اس سے ملک وقوم کا زیاں ہوا۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن بنی۔ ملک کی جگ ہنسائی ہوئی۔ سماج انتشار میں مبتلا ہوا اور اکثر قیمتی جانیں اس کی نذر ہو گئیں۔ دو دن پہلے ہم نے جو احتجاج دیکھا‘ وہ بھی جاتے جاتے ایک جان لے گیا۔ اس طرح کے احتجاج کا جمہوریت سے کوئی تعلق نہیں۔ جسے ہم احتجاج کہتے ہیں‘ یہ بے لگام غصے کا اظہار ہے۔ اس میں دوسروں کے حقوق کو بے دردی کے ساتھ پامال کیا جاتا ہے۔
یہ جواز کہ فلاں نے کیا تھا تو ہم کیوں نہ کریں‘ ایک لغو دلیل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سب سیاسی اور مذہبی جماعتیں اپنا یہ 'حق‘ ایک سے زیادہ بار استعمال کر چکیں۔ یہ دلیل اس لیے اپنی وقعت کھو چکی۔ ان سب کو اب اجتماعی توبہ کرنی چاہیے۔ کوئی ملک اور سماج مسلسل ہیجان اور اضطراب کی حالت میں نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک غیر فطری عمل ہے۔ یہاں ہر وقت ایک تماشا لگا رہتا ہے۔ اس سے نجات ازبس ضروری ہے۔
پاکستان میں مذہب اور سیاست کوصرف ہیجان پیدا کر نے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ مذہبی جلسے جلوس سال کے خاص ایام تک محدود تھے۔ چند برسوں سے یہ چلن عام ہوا کہ سارا سال کسی نہ کسی عنوان سے مذہبی جلوس برآمد ہوتے رہتے ہیں۔ خوشی کا موقع ہے تو جلوس‘ غم کی یاد ہے تو جلوس۔ کبھی ایک مسلک‘ کبھی دوسرا مسلک۔ اس پر مستزاد مذہب کے نام پر قائم سیاسی جماعتیں اور ان کا احتجاج۔ اب یہی معاملہ سیاست کا بھی ہے۔ مسلسل احتجاج‘ جلسے‘ جلوس‘ لانگ مارچ۔
یہ سب 'احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے‘ جیسے مہمل جملوں کا سوئے استعمال ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ مذہب ہو یا جمہوریت‘ دونوں کی روح اور حقیقت سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ دونوں ہمارے گروہی اور شخصی مفادات کے حصول کے ہتھیار ہیں۔ مذہب اس لیے ہے کہ میں اپنے اخلاق کو پاکیزہ بناؤں تاکہ کل اپنے پروردگار کے سامنے سرخرو ہو سکوں اور اس کے ساتھ اس دنیا کی زندگی کو بھی پُرامن ا ور پُرسکون بنا سکوں۔ جمہوریت کا مطلب دوسرے نقطہ ہائے نظر کو قبول کرنا‘ دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا اور اختلافِ رائے کا احترام ہے۔
اسلام اور مذہب کو ہم نے نفاذ کے مطالبے میں ڈھال کر اسے جلسے جلوس کا عنوان بنا دیا۔ جمہوریت سے ہم نے یہ سمجھا کہ یہ ہنگامہ آرائی اور روزمرہ زندگی متاثر کرنے کا نام ہے۔ ہمیں اس کیفیت سے نکلنا ہوگا۔ لازم ہے کہ سب مذہبی وسیاسی راہنما مل بیٹھیں اور یہ سوچیں کہ ہم نے پاکستان کو ایک پُرسکون ملک کیسے بنانا ہے؟ ہم نے اپنا مسلکی تشخص اور سیاسی وجود برقرار رکھنا ہے تو اس کے متبادل طریقے کون سے ہیں؟ یہ اب پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ یہاں عالمِ اسلام کے مسائل پر غور کے لیے کُل جماعتی کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کانفرنس پاکستان میں امن اور سکون کے لیے کیوں نہیں ہو سکتی؟
اس باب میں میری چند تجاویز ہیں‘ اگر کوئی اس پر غور کرے:
1۔ حکومت ایک کُل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کرے۔ اس کا یک نکاتی ایجنڈا ہو کہ پاکستان کو ایک پُرامن اور پُرسکون ملک کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
2۔ تمام مذہبی وسیاسی جماعتیں یہ وعدہ کریں کہ وہ اگلے انتخابات تک‘ کوئی جلوس برآمد کریں گی اور نہ کسی شہر کے اندرکوئی احتجاجی جلسہ کریں گی۔ مذہبی اجتماعات چار دیواری میں ہوں۔ پاکستان میں سب سے بڑا مذہبی اجتماع تبلیغی جماعت کے مرکز رائیونڈ میں ہوتا ہے۔ اس موقع پر سارے ملک سے لوگ شریک ہوتے ہیں مگر کسی شہر کا امن اور سکون متاثر نہیں ہوتا۔ دیگر جماعتیں ایسا کیوں نہیں کر سکتیں؟
3۔ حکومت وعدہ کرے کہ ہر بڑے شہر میں ایک جگہ جلسے کے لیے مختص ہو گی جہاں جو جماعت چاہے‘ جلسہ کر سکتی ہے۔ یہ نہ ہو کہ ایک جگہ ایک جماعت کو جلسے کی اجازت ہو اور دوسری کو انکار کر دیا جائے۔ جلسے میں جلوس کی صورت میں شرکت پر پابندی ہو۔ انفرادی طور پر ہر کسی کو جانے کا حق ہو اور اس دن انتظامیہ کوئی راستہ بند نہ کرے۔
4۔ سیاسی ومذہبی جماعتوں کے ساتھ لیبر وطلبہ یونینز اور سول سوسائٹی بھی یہ عہد کریں کہ وہ بھی سڑکوں پر جلوس جلسوں سے گریز کریں گی۔
5۔ عوام تک اپنا نقطہ نظر پہنچانے کے متبادل طریقے کون کون سے ہیں‘ مذہبی وسیاسی جماعتیں ان پر اپنی توجہ مرتکز کریں۔ تحریک انصاف نے سوشل میڈیا کو بہت مؤثر طریقے سے اپنے پیغام کے ابلاغ کے لیے استعمال کیا۔ دوسری جماعتیں اور گروہ بھی یہ طریقہ اپنا سکتے ہیں۔
6۔ شکایات کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا جائے۔ ان کے فیصلے اگر کسی کی نظر میں متعصبانہ اور غیر منصفانہ ہیں تو وہ قانون کے دائرے میں تنقید کر سکتا ہے اور دیگر ذرائع ابلاغ سے عدالت تک اپنا احتجاج پہنچایا جا سکتا ہے۔
تجاویزاور بھی ہو سکتی ہیں۔ بنیادی بات سماج اور ملک کو پُرسکون بنانا ہے۔ پاکستان کو بے سکون بنانے کا کام بہت سے انتہاپسند اوردہشت گرد تنظیمیں تسلسل سے کر رہی ہیں۔ غیر ملکی دشمن بھی پوری طرح متحرک ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے اجلاس سے پہلے کراچی میں چینی قافلے پر حملہ معمولی واقعہ نہیں۔ اگر آئین پر یقین رکھنے والی جماعتیں اور گروہ بھی غیر ارادی طور پر تخریب کاروں کی کے ساتھ مل جائیں تو اس ملک کا کیا بنے گا؟
میں مہاتیر محمد کی یہ بات پہلے بھی نقل کر چکا جو انہوں نے اپنے دورۂ پاکستان کے موقع پر ایک محدود مجلس میں کہی تھی۔ انہوں نے اپنی کامیابی کا ایک راز یہ بتایا تھا کہ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے مختلف تنظیموں سے یہ عہد لیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے‘ وہ ہڑتال کریں گے اور نہ کام کرنا چھوڑیں گے۔ ان کی شکایات کا تدارک ہوگا لیکن وہ جلسوں جلوسوں سے معاشی سرگرمیوں کے لیے رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
آج بھی انڈونیشیا وغیرہ میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں متحرک ہیں۔ ان کے ا ثرات غیر معمولی ہیں۔ اپنی بات کہنے کے لیے وہ جلسوں جلوسوں کا سہارا نہیں لیتیں۔ وہاں کنونشنز اور کانفرنسیں ہوتی ہیں جن میں عقل کی باتیں ہوتی ہیں۔ ہمیں دوسروں سے سیکھنا چاہیے۔ کیا دوسرے جمہوری ممالک میں 'احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے‘ کا وہی مفہوم سمجھا جاتا ہے جو ہم نے جانا ہے؟
پاکستان کو ایک وقفۂ امن کی ضرورت ہے۔ ہمیں چند برس ایسے چاہئیں جن میں سکون ہو‘ استحکام ہو۔ زندگی معمول کے مطابق گزر رہی ہو۔ صبح جاگتے وقت یہ اندیشہ نہ ہو کہ آج فلاں سڑک بند ہو گی اور آج فلاں جلوس برآمد ہوگا۔ اگر ہمیں چار برس بھی ایسے مل جائیں تو مجھے یقین ہے کہ حکومتی کمزوریوں کے باوجود‘ معیشت اور معاشرت فطری طریقے سے اپنا راستہ نکال لیں گے۔ امن کتنی بڑی نعمت ہے‘ لوگوں کو کاش اس کا اندازہ ہو جائے۔ امن آ جائے تو سب کچھ مل جاتا ہے۔
اس ملک کی مذہبی اور سیاسی قیادت سے یہ گزارش ہے کہ وہ احتجاج کی نفسیات سے نکل کر اس سماج کے استحکام اور امن کے لیے یکسو ہو جائیں۔ اس سے انہیں فائدہ ہوگا اور عوام کو بھی۔ دنیا میں وہی ملک ترقی کر سکا ہے جو مستحکم ہوا۔ یہ لازم نہیں کہ ہر ایک کو ہر موقع پر انصاف ملے۔ ہر کسی کو کسی نہ کسی وقت کسی بڑے مقصد کی خاطر قربانی دینا پڑتی ہے۔ اگر اس جذبے کے ساتھ ہم اجتماعی فلاح کو سامنے رکھیں تو سب فلاح پا جائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved