تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     31-10-2013

جان لیوا انتظار

اس برس 19 اگست 2013ء کو جب لوگ عید الفطر کی خوشیاں منا رہے تھے، لاہور کی مضافاتی آبادی کی رہائشی خاتون سکینہ بی بی اپنے دو بیٹوں کی اچانک گمشدگی پر بے حد پریشان تھی۔ اس کا ایک بیٹاعمر اسلام آباد میں محنت مزدوری کی غرض سے گیا ہوا تھا جس نے عید کے روز گھر پہنچنا تھا۔ عمر نے اپنے بڑے بھائی بشیر کو فون کر کے بتایا تھا کہ وہ صبح سات بجے گھر پہنچ جائے گا۔ صبح تقریباً چھ بجے کے قریب بشیر کو ایک فون کال آئی جس کے بعد وہ اتنا کہہ کرگھر سے نکل گیاکہ میں ابھی آ رہا ہوں۔ تمام دن ماں اور بہنیں انتظار میں گزار دیتی ہیں،دونوں بھائی گھر نہ آئے۔ بوڑھی ماں اور بہنیں ٹرو اور مرو کے دونوں دن بھی عمر اور بشیرکے انتظار میں گزاردیتی ہیں۔ عید کے روز بڑے چائو سے پکائی میٹھی سویاں کسی کے حلق سے نیچے نہ اتریں۔ سکینہ بی بی اور اس کی بیٹیوں نے عمر اوربشیر کا اتا پتا لگانے کی بھرپور کوشش کی لیکن بے سود ۔ دونوں بھائیوں کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی کسی کو کچھ معلوم نہ ہوسکا۔عید کے دن اسی پریشانی میں گزر جاتے ہیں۔ تین دن کے بعد بشیر اور عمراچانک دس پندرہ منٹ کے وقفے کے بعد گھر پہنچ جاتے ہیں۔دونوں کے حُلیے سے ظاہر ہوتا تھاوہ دونوں بھائی اکٹھے کسی مشکل میں گرفتار ہوئے تھے۔ دونوں بھائی اپنی پُراسرار گمشدگی کے بارے میں پہلے تو الگ الگ کہانیاں سناتے رہے مگرگھر والوں کے سوالات کی بوچھاڑ سن کر کہاکہ ہم سے نہ پوچھیں کہ ہم کہاں تھے، ہم کچھ نہیں بتا سکتے، بس اللہ کا شکر اداکریں کہ دوبارہ آپ کے پاس آگئے ۔ سکینہ بی بی کہتی ہیں کہ میرے بیٹے جو انتہائی فرمانبردار ہیں‘ آج تک مجھے نہیں بتاتے کہ وہ عید کے تین دن کہاں رہے؟ انہیں کس نے اغوا کیا اورکیسے چھوڑ دیا؟ اس بارے میں ان کی زبان بند ہے۔ لیکن سکینہ بی بی کے گائوں کی ایک اور بدقسمت خاتون خورشیداں بیگم کا کہنا ہے کہ سکینہ کی قسمت اچھی ہے کہ اس کے بیٹے واپس آ گئے ،اس کا داماد 2002ء میں اپنے مدرسے پڑھانے گیا تھالیکن آج تک واپس نہیں آیا ، اس کاکوئی اتا پتا نہیں۔ خورشیداں کا شمار ان بدقسمت خاندانوں میں ہوتا ہے جن کے پیارے پُراسرار طور پر گھروں سے غائب ہو گئے اور پھرکہیں سے ان کی خبر نہ مل سکی۔ ان کے گھر والے آج بھی کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ المناک انتظار کی یہ داستانیں ان ہزاروں خاندانوں کی ہیں جن کے پیارے‘ وار آن ٹیرر کے نام پر مشتبہ افراد کی فہرست میں شامل ہوئے اور غائب کر دیے گئے۔ اعدادو شمار کہتے ہیں کہ لاپتا افراد کی فہرست میں تقریباً آٹھ ہزار نام شامل ہیں۔نائن الیون کے بعد پاکستان کی سرزمین پر ایک عذاب اترا۔ مذہبی رجحانات رکھنے اور شرعی داڑھی رکھنے والوں کو مشتبہ دہشت گرد سمجھ کر کسی قانون اور جواز کے بغیر اٹھا لیا جاتا رہا۔ ہم کس منہ سے شکوہ کریں کہ ہمارے اپنے سابق حکمران نے اپنے بندوں کو اٹھا کر سی آئی اے کے حوالے کردیا۔ ڈکٹیٹر مشرف نے اس بات کا اعتراف اپنی خودنوشت میں کیا کہ امریکہ کے مطالبے پر مشتبہ پاکستانیوں کو سی آئی اے کے حوالے کر کے امریکہ سے ڈالرز لیے گئے۔ وار آن ٹیرر کے نام سے آغاز ہونے والی اس Long epic poem کے بے شمار پہلو ہیں‘ کئی زاویے ہیں۔ لاپتا افراد کا المیہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ جو بدقسمت خاندان اس عذاب سے گزر رہے ہیں ان میں سے ایک خاندان آمنہ مسعود جنجوعہ کا بھی ہے۔ 30 جولائی 2005ء کا دن وہ آج تک نہیں بھولیں جب انہوں نے اپنے شوہر مسعود جنجوعہ کے ساتھ مل کر صبح کا ناشتہ کیا۔ ان کے تینوں بچے علی‘ محمد اور عائشہ بھی ناشتے کی میز پر موجود تھے۔ محبت کرنے والی چھوٹی سی فیملی خوشگوار ماحول میں باتیں کرتی رہی۔ آمنہ نے اپنے شوہر کو کالج جانے کے لیے خدا حافظ کہا جو اپنا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کالج چلاتے تھے۔ اس روز کے بعد مسعود جنجوعہ اپنے گھر پلٹ کر نہیں آئے۔ آج بھی ان کے گھر والے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔ آٹھ سال کا عرصہ گزر گیا ،آمنہ مسعود نے اپنے آنسوئوں اور دکھ کو اپنی طاقت بنا لیا اور اپنے جیسے دوسرے ہزاروں خاندانوں کے دکھ کو بانٹنے کے لیے لاپتا افراد کی بحالی کے لیے ایک فورم بنایا۔ ڈیموکریٹک ہیومین رائٹس پاکستان (DHRP) ان تمام لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جن کے عزیز پُراسرار طور پر زندگی کے منظرنامے سے غائب ہو گئے۔ آٹھ سال کی تھکا دینے والی جدوجہد کے باوجود 52 سالہ آمنہ پُرامید ہیں کہ ایک روز ان کے شوہر ضرور ان سے آ ملیں گے۔ لاپتہ افراد کا معاملہ بلوچستان میں بہت گمبھیر ہے۔ صرف اس ایک صوبے سے کم و بیش دو ہزار افراد غائب ہیں۔ الیکشن 2013ء میں چلائی جانے والی الیکشن مہم میں تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں نے ایسے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور وعدہ کیا کہ وہ برسرِ اقتدار آ کر ان افراد کے معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک تو ایسے مظاہروں میں شرکت بھی کرتے رہے ہیں جو لاپتا افراد کے اہل خانہ ان کی بازیابی کے لیے کرتے تھے۔ ڈاکٹر عبدالمالک ہمیشہ کہتے تھے کہ لاپتا افراد کا معاملہ بلوچستان کا بنیادی اور اہم ایشو ہے، مگر حکومت میں آنے کے بعد ان کا اعتراف کر لینا کہ ہم لاپتا افراد کا معاملہ حل کرنے میں ناکام رہے ہیں‘ ان کی حکومت کی ناکامی ہے۔ عوام کی جان اور مال کا تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر حکمران یہ کہہ دیں کہ وہ یہ ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے تو پھر انہیں حکومت میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اے پی سی بلانے کا مشورہ دینے والے وزیراعلیٰ خوب سمجھتے ہوں گے کہ ان اقدامات سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے۔ انہیں ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا جو قانون کے نفاذ کی راہ میں حائل ہیں۔ حکومت کے پاس طاقت اور قانون ہے‘ پھر حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر کو کھلی چھٹی کیوں؟ بلوچستان حکومت کے لیے صرف یہ اعتراف کر لیناکافی نہیں کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں حکومت کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔ معاملات بہت پیچیدہ اور گمبھیر سہی مگر ان کے حل کی جانب سفر کا آغاز تو ہونا چاہیے۔ پہلا قدم تو صحیح سمت میں اٹھنا چاہیے۔ لاپتہ افراد کے ایشو پر پارلیمنٹ اور حکومت کو حرکت میں آنا چاہیے۔ جن کے پیارے جیتے جی ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں اُن کے دکھ کو سمجھنا چاہیے۔ انتظار کی سولی پر لٹکے ہوئے ہزاروں خاندان جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے بچھڑنے والے عزیز زندہ ہیں یا پھر لاقانونیت کی تاریک راہوں میں مار دیے گئے ہیں۔ یہ جاننا ان کا حق ہے۔ اس سے کم از کم جان لیوا انتظار تو ختم ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved