تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     09-10-2024

بنگلہ دیش پلان کیسے ناکام ہوا

چار اکتوبر کو اَنہونی ہوئی جب پی ٹی آئی کی کال پر اسلام آباد پر ایک دفعہ پھر چڑھائی کا پروگرام بنایا گیا۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ یہ پی ٹی آئی کا جمہوری حق تھا کہ وہ احتجاج کرے لیکن جس بات نے سب کو پریشان کیا اور اس کی ابھی تک پی ٹی آئی ورکرز کو بھی سمجھ نہیں آرہی وہ یہ ہے کہ آخر ورکرز کو اس آگ میں دھکیل کر پارٹی لیڈر کہاں غائب ہو گئے؟ جب اسلام آباد کی سڑکوں پر خیبرپختونخوا سے آئے ورکرز اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں مار کھا رہے تھے‘ گرفتاریاں ہو رہی تھیں‘ آنسو گیس کا استعمال ہو رہا تھا تو اس وقت وہ لیڈر کہاں تھے جو ہر وقت ٹویٹر پر ایکٹو اور ٹی وی پر شوز یا پریس کانفرنس کرتے نظر آتے ہیں۔ ورکرز کو تو بلا لیا لیکن جب ایکشن شروع ہوا تو پتا چلا کہ وہ لیڈر تو آئے ہی نہیں جنہیں 'انقلاب‘ لانا تھا۔ ورکرز کو ڈی چوک میں مار کھاتے وقت پتا چلا کہ ان کے لیڈروں کو تو عمران خان نے حکم دیا تھا کہ وہ سب ''ورک فراہم ہوم‘‘ کریں گے‘ لہٰذا جب پولیس آنسو گیس اور گرفتاریاں کر رہی تھی تو اس وقت پی ٹی آئی کے سب لیڈر اپنے اپنے گھروں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بیٹھے ٹویٹس کررہے تھے۔ ان ٹویٹس میں وہ ان ورکرز کا حوصلہ بڑھا رہے تھے جو بدترین شیلنگ میں پولیس کے ساتھ مَتھا لگائے ہوئے تھے۔ حالانکہ اس وقت انہیں ورکرز کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔
دو دن تک ورکرز اسلام آباد کی سڑکوں پر پولیس اور آنسو گیس سے لڑتے رہے لیکن کوئی لیڈر یا پارٹی کا اہم نمائندہ نظر نہ آیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس ناکام احتجاج کے دوران 800کے قریب لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن میں اکثر پر دہشت گردی کے پرچے درج کیے گئے ہیں۔ زیادہ تر کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے اور وہ بھی‘ جو خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں سے اب پنڈی‘ اسلام آباد میں مقیم ہو چکے ہیں۔ یہ بھی پتا چلا کہ جو نوجوان گرفتار ہوئے وہ پنڈی اور اسلام آباد میں دن بھر مزدوری کرتے ہیں اور جب پی ٹی آئی کو ضرورت پڑتی ہے تو یہ آگے آگے ہوتے ہیں۔ اب یہ گرفتار ہوئے ہیں تو اکثریت کے پاس وکیل کرنے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ علی امین گنڈاپور‘ جو خیبرپختونخوا سے بڑے طمطراق اور دھوم دھڑکے ساتھ نکلے تھے‘ وہ مظاہرین کو ڈی چوک تک پہنچانے کے بعد خود کہاں چلے گئے۔ کیا وہ ایک دفعہ پھر اغوا ہو گئے تھے؟ انہیں پھر اٹھا لیا گیا تھا؟ یہ وہ سوالات تھے جو ان ورکرز کو پریشان کررہے تھے جو اُس وقت پولیس کا مقابلہ کر رہے تھے۔
ان تمام باتوں اور سوالات کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ پلاننگ کا حصہ تھا۔ اس دفعہ جو پلاننگ کی گئی تھی وہ نو مئی سے مختلف تھی۔ نو مئی سے پہلے تو سب کو ٹارگٹس دیے گئے تھے کہ عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں کس نے کیا کرنا ہے۔ ان کی آڈیو ٹیپس تک سامنے آگئیں اور ان کے خلاف کارروائی ہوئی۔ اس دفعہ بنگلہ دیش میں ہونے والے ہنگاموں کی طرز پر منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ عمران خان بہت پُرجوش تھے کہ لوہا گرم ہے‘ عوام موجودہ حکومت سے تنگ ہیں‘ بنگلہ دیش ٹائپ عوامی احتجاج کی لہر پیدا کی جائے۔ علی امین گنڈاپور چونکہ وزیراعلیٰ ہیں لہٰذا انہیں وفاقی حکومت نہیں روک سکے گی‘ وہ اپنے ساتھ تگڑا ہجوم لا کر ڈی چوک بٹھا دیں گے اور خود غائب ہو جائیں گے۔ اس دفعہ پالیسی نئی ہو گی‘ کوئی پارٹی لیڈر اس ہجوم کے ساتھ لیڈ کرنے کے لیے نہیں ہو گا۔ اس ہجوم کا ہر فرد لیڈر ہو گا اور وہ خود موقع پر فیصلہ کرے گا کہ اس نے اگلا قدم کیا اٹھانا ہے۔ یہ شاید پہلا سیاسی احتجاج تھا جس میں ٹاپ لیڈر شپ کے بجائے ورکرز خود اپنے لیڈر تھے۔ انہیں کسی سے رہنمائی کی ضرورت نہیں تھی۔ مقصد یہ تھا کہ جب علی امین گنڈاپور غائب ہوں گے تو یہ افواہیں گردش کرنا شروع کریں گی کہ انہیں غائب کر دیا گیا ہے۔ اس پر ان کے ساتھ خیبرپختونخوا سے آیا ہوا ہجوم غصے میں آکر توڑ پھوڑ شروع کرے گا۔ لڑائی میں شدت آئے گی۔ پورا اسلام آباد ان احتجاج کرنے والوں کے کنٹرول میں ہوگا۔ اس وقت اسلام آباد میں ملائیشیا کے وزیراعظم بھی موجود ہوں گے‘ شنگھائی کانفرنس کے دعوت نامے بھی کنفرم ہو رہے ہوں گے اور حکومت پر دباؤ ہوگا کہ وہ ان مظاہرین کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو جیل میں عمران خان سے رابطہ کرے۔ آپ نوٹ کریں کہ پی ٹی آئی کے کچھ لیڈر ٹویٹس اور کلپس میں کہہ رہے تھے کہ اس احتجاج کو ختم کرنے کی کنجی اڈیالہ کے قیدی کے پاس ہے۔ مطلب تھا کہ ان سے رابطہ کریں۔ عمران خان کو پوری امید تھی کہ حالات خراب ہونے پر ان سے ویسے ہی ادارے رابطہ کریں گے جیسے اگست میں رابطہ کیا گیا تھا اور صبح سویرے جیل کا گیٹ کھلوا کر ان کی ملاقات اعظم سواتی سے کرائی گئی تھی اور خان صاحب کو کہا گیا تھا کہ وہ احتجاج کی کال واپس لے لیں کیونکہ شہر میں پہلے ہی مذہبی جماعتوں کے لوگ داخل ہو چکے ہیں اور کہیں دونوں دھڑوں کے اراکین کا تصادم نہ ہو جائے۔ خان مان تو گیا لیکن اس کے بدلے آٹھ ستمبر کا جلسہ مانگا جو انہیں دے دیا گیا۔
عمران خان کو اس بارگین سے احساس ہوا کہ ان کے پاس ایسی عوامی قوت ہے جسے اگر وہ درست طریقے سے استعمال کریں تو وہ مرضی کی ڈیل لے کر باہر نکل سکتے ہیں۔ یوں بنگلہ دیش طرز پر یہ منصوبہ بنا کہ جیسے وہاں طالب علموں نے خود ہی تحریک چلائی‘ جانیں دیں ویسی تحریک انصاف کے ورکرز بھی چلا سکتے ہیں۔ وہ بھی اسلام آباد کو میدانِ جنگ بنا کر حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں کہ اگر اس ہجوم کو قابو کرنا ہے تو عمران خان کے پاس جانا ہو گا۔ عمران خان یقینا دو روز تک انتظار کرتے رہے ہوں گے کہ کب جیل کا گیٹ کھلتا ہے اور ان کی پارٹی کے لیڈر اداروں کے نمائندوں کے ساتھ ان سے ملاقات کر کے شنگھائی کانفرنس سے پہلے شہر کے حالات ٹھیک کرنے کی درخواست کرتے ہیں اور اس کے بدلے وہ اپنی شرائط پیش کریں گے۔ یقینا وہ سخت مایوس ہوئے ہوں گے کہ ان کا پلان کامیاب نہیں ہوا۔ الٹا پی ٹی آئی کے ورکرز نے اپنے لیڈروں سے پہلی دفعہ دھوکا کھایا۔ ورکرز اس بات کو ہضم نہیں کر پا رہے کہ انہیں اکیلے کیوں پولیس کے ہاتھوں میں دے دیا گیا تھا۔ خود لیڈرز غائب ہوگئے تھے۔ وہ سب ورک فرام ہوم کیوں کررہے تھے؟ کیا پی ٹی آئی کو ورکرز کی لاشیں چاہیے تھیں؟ اس سوال کا جواب ورکرز کو کوئی نہیں دے رہا۔
میرے خیال میں عمران خان کے علاوہ کسی لیڈر کو بھنک تک نہیں پڑی ہو گی کہ ان سب کو کیوں روکا گیا۔ وجہ صاف ہے۔ عمران خان کو اس دفعہ صرف بپھرا ہوا ہجوم درکار تھا۔ وہ اس ہجوم کو کنٹرول نہیں کرانا چاہتے تھے لہٰذا لیڈروں کو ڈی چوک سے دور رہنے کا حکم دیا گیا۔ سب کو کہا گیا کہ وہ غائب ہو جائیں۔ اس دفعہ ہجوم کو اسلام آباد شہر کا کنٹرول سنبھالنے دیں لیکن ہجوم خلافِ توقع آنسو گیس اورگنڈاپور کے غائب ہونے کی خبروں سے غصے میں آنے کے بجائے الٹا حیران اور پریشان ہوا۔ ہجوم میں لوگ اتنے نہیں تھے جتنی خان کو امید تھی۔ جو لوگ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ جب ہجوم بپھرا ہوا ہو تو وہ کیا قیامت ڈھاتا ہے تو وہ کسی وقت شیکسپیئر کے جولیس سیزر ڈرامے میں مارک انٹونی (Mark Antony) کی سیزر کی لاش پر کی گئی تقریر کے بعد رومن ہجوم کو دیکھ لے جس نے جذبات میں پورے شہر کو آگ لگانا شروع کر دی تھی۔ شاید خان کے ذہن میں بھی اس سے ملتا جلتا منصوبہ تھا‘ اسی لیے پارٹی لیڈروں کو گھر بٹھا دیا گیا تھا۔ حالات بگڑنے پر خان کو امید تھی کہ جیل میں ان سے پہلے کی طرح رابطہ ہو گا اور وہ اپنی شرائط پر بپھرے ورکرز کو کنٹرول کریں گے۔ عمران خان کی مایوسی اپنی جگہ‘ لیکن لگتا ہے ہجوم خان صاحب سے زیادہ سمجھدار نکلا اور جب اسے لگا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے تو وہ پیچھے ہٹ گیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved