آٹھ اکتوبر 2005ء کا زلزلہ کون بھول سکتا ہے۔ اُن دنوں ملک کے بیشتر سکولوں و کالجوں میں طلبہ کے امتحانات ہو رہے تھے‘ تاہم اس دن میری چھٹی تھی اور اگلے روز میرا پیپر تھا۔ میں گہری نیند سو رہی تھی لیکن میری بہن پیپر کی فکر میں صبح جلدی اٹھ کر مطالعہ کر رہی تھی۔ یکدم شیلف سے ہماری کتابیں ہم پر گرنے لگیں۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ میری بہن نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر کی پہلی منزل سے گرائونڈ فلور پر لے آئی۔ مجھے وہ لمحات اب بھی یاد ہیں کہ گھر کی ہر شے زلزلے کے جھٹکوں سے لرز رہی تھی۔ ہم سے سیڑھیاں نہیں اُتری جا رہی تھیں۔ نیچے آکر ہم دونوں خوف سے اپنے والدین سے لپٹ گئیں اور پھر سب گھر کے لان میں چلے گئے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی ایسا خطرناک زلزلہ نہیں دیکھا تھا۔ بچے‘ بڑے سبھی خوف و ہراس کا شکار تھے۔ ہم بچوں نے تو زلزلہ رکنے کے بعد بھی گھر کے اندر جانے سے انکار کر دیا اور سارا دن لان میں گزارا۔ جب ہمت کرکے گھر میں واپس داخل ہوئے تو دیکھا کہ شو پیس اور فریم گرے ہوئے تھے۔ موبائل فون کے سگنل بھی ڈاؤن تھے۔ سب رشتہ داروں کو لینڈ لائن سے فون کیا اور ان کی خیریت دریافت کی۔ ٹی وی آن کیا تو پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ زلزلے سے بہت تباہی ہوئی تھی اور ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن چکے تھے۔ بالخصوص آزاد کشمیر میں بہت جانی اور مالی نقصان ہوا تھا۔ زلزلے کے بعد میری بہن اور دیگر سینئر طالبات نے رضاکارانہ طور پر ہسپتالوں میں کام کرنا شروع کر دیا کیونکہ اسلام آباد اورراولپنڈی کے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے تھے۔ اسلام آباد میں ایک رہائشی ٹاور زمین بوس ہو گیا تھا جس سے رہائشیوں کا بہت جانی و مالی نقصان ہوا۔ اکثر تو کئی دنوں تک ملبے تلے دبے رہے۔ پوری دنیا اس موقع پر زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے سامنے آئی اور متاثرین کی بحالی کا کام شروع ہوا۔ آج 2005ء کے زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں زندگی معمول پر آ چکی ہے‘ تاہم 19 برس بعد بھی اس زلزلے میں اپنے پیاروں کو کھونے والوں کے زخم تازہ ہیں۔ ناقص انفراسٹرکچر زلزلے کی شدت برداشت نہ کر سکا اور زمین بوس ہو گیا۔ اس زلزلے میں 80 ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بنے اور لاکھوں زخمی ہوئے ۔ہزاروں افراد عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔ زلزلے میں ہمیشہ کے لیے معذور ہو جانے والے کچھ افراد آج بھی نقلی ٹانگ اور بازو کے ساتھ زندگی کے معاملات چلا رہے ہیں۔
ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہم سانحات سے سبق نہیں سیکھتے۔ اکتوبر 2005ء کے زلزلے میں اموات کی ایک بڑی وجہ ناقص تعمیرات تھیں‘ لیکن کیا آنے والے وقت میں اس حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی منصوبہ بندی کی گئی‘ کیا ہم نے متاثرہ علاقوں میں بحالیٔ صحت اور ری ہیب کے ادارے بنائے‘ کیا قدرتی آفات کا نقصان کم کرنے کے لیے کوئی پالیسی تشکیل دی گئی؟ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ اکتوبر 2005ء کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں آج کثیرالمنزلہ عمارتیں تعمیر کی جا چکی ہیں‘ جن کے معیار کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ شاید بطور قوم ہم بہت مصروف ہیں‘ ہمارے پاس ایسی چیزوں پر دھیان کرنے کا وقت ہی نہیں ہے۔
زلزلہ بہت سے طریقوں سے انسانوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ ان کو خوف زدہ کر دیتا ہے‘ ان کو معاشی طور پر تباہ کر دیتا ہے‘ ان کی ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ 2005ء کے زلزلے کے 63 روز بعد ایک خاتون‘ نقشہ بی بی کو ہسپتال لایا گیا تھا۔ وہ 63 دن ملبے میں دبی رہی تھیں۔ میں ان سے بہت بار ملی۔ علاج کے بعد انہوں نے دوبارہ چلنا پھرنا بھی شروع کر دیا تھا لیکن ان کی ذہنی صحت شدید متاثر ہوئی تھی۔ انہیں بحالیٔ صحت کے لیے پیار اور ہمدردی کی ضرورت تھی لیکن ان کے خاندان کے دیگر افراد کی زلزلے میں ہلاکت کی وجہ سے انہیں ایدھی ہوم منتقل کر دیا گیا جہاں وہ تنہائی کی زندگی کاٹتی رہیں۔ جب تک وہ اسلام آباد میں رہیں‘ میں ان سے ملنے جاتی رہی لیکن پھر انہیں ملتان سنٹر بھیج دیا گیا تو یہ سلسلہ رک گیا۔ وہ بنا آواز کے ہنستی رہتی یا خلاؤں میں گھورتی رہتی تھیں لیکن منہ سے کچھ نہیں بولتی تھیں۔ وہ دس برس تک اسی حال میں زندہ رہیں اور 2015ء میں انتقال کر گئیں۔ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی ہمارے ملک میں مراکزِ صحت کی تعداد میں اضافے اور طبی سہولتوں کی بہتری کی طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کوئی بھی آفت انسان کو صرف جسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی متاثر کرتی ہے۔ کسی بھی حادثے یا سانحے کے بعد انسان کو جسمانی علاج کے ساتھ نفسیاتی علاج کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر نفسیاتی مسائل کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ انسان کو مفلوج کر دیتے ہیں۔
رِنگ آف فائر بیلٹ پر موجود ہونے کی وجہ سے جاپان دنیا میں زلزلوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے لیکن جاپان نے اپنے عوام کو زلزلوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کررکھے ہیں۔ جاپان نے ایسا سسٹم بنا رکھا ہے کہ کسی بھی قدرتی آفت کی صورت میں جاپان کے شہریوں کو فون اور ٹی وی پر فوری الرٹ مل جاتا ہے کہ قدرتی آفات کے دوران وہ خود کو محفوظ رکھیں۔ جاپان نے اپنا انفراسٹرکچر بھی ایسا بنایا ہے جس سے زلزلے کے دوران نقصان کم سے کم ہوتا ہے۔ جاپان کی ریسکیو اور ریلیف سروسز بھی بہت مستعدی سے کام کرتی ہیں۔ جاپان میں تمام شہریوں کو شروع سے ہی ابتدائی طبی امداد کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور زلزلے کی موک ڈرل(Mock Drill) بھی کرائی جاتی ہے تاکہ شہری زلزلے کی صورت میں انفرادی طور پر بھی اس سے محفوظ رہ سکیں۔
پاکستان میں بھی وقتاً فوقتاً زلزلے آتے رہتے ہیں۔ رواں سال بھی اب تک ملک میں متعدد بار زلزلہ آ چکا ہے‘ البتہ خوش قسمتی سے شدت زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ زلزلوں کی زد میں شامل ممالک کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود ہمارے ہاں بلڈنگ لاز کی کوئی پروا نہیں کی جاتی۔ یہاں ہر طرف کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ ہر طرف کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے۔ زلزلے کے خلاف مزاحمت کے علاوہ ان عمارتوں میں آگ بجھانے کے ضروری آلات بھی نصب نہیں کیے جاتے۔ نہ اخراج کا کوئی متبادل راستہ بنایا جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے کسی ہنگامی صورت میں نقصان زیادہ ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ حکومت کو نئی تعمیرات میں بلڈنگ لاز پر سو فیصد عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔
پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی بھی زد میں ہے۔ یہ خطہ ہر سال مون سون میں چھوٹے بڑے سیلاب سے متاثر ہوتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں زرعی شعبے پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں جس سے غذائی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ ان روز افزوں موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔ پاکستان میں موسمیاتی تغیرات کے نقصان کو کم سے کم رکھنے کے حوالے سے بھی کوئی خاص کام نہیں ہورہا۔ نئے درخت لگانا تو دور‘ ان کی کٹائی اسی طرح زور وشور سے جاری ہے‘ اسی طرح دریائوں کے کنارے تعمیرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ہم قدرتی آفات کو تو نہیں روک سکتے لیکن بہتر حکمت عملی اختیار کرکے ان کے نقصانات کو کم ضرور کرسکتے اور انسانی زندگیوں کو محفوظ بناسکتے ہیں۔ گوکہ زلزلے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن جو خطہ زلزلے سے متعدد بار متاثر ہو چکا ہو‘ وہاں کا انفراسٹرکچر تو بہتر اور زلزلہ پروف بنایا جا سکتا ہے۔ ریسکیو اور ریلیف کا انتظام بھی بہتر کیا جا سکتا ہے۔ہمارے حکمران اپنی تصویروں والے آٹے کے تھیلے تقسیم کرکے خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں حالانکہ ان کی ذمہ داریاں اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved