شجاعت قریشی صاحب ایک بڑے ادارے میں برسوں نوکری کرنے کے بعد ریٹائر ہوچکے ہیں۔ تین چار ماہ میں ان سے کہیں نہ کہیں ایک آدھ ملاقات ہو جاتی ہے تو کچھ دیر گپ شپ لگ جاتی ہے۔ ان کا تعلق چونکہ ہمارے وسیب سے ہے لہٰذا یہ گپ شپ سرائیکی میں ہوتی ہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے جب ان سے سرائیکی کے وہ متروک الفاظ سننے کو ملتے ہیں جو میں نے اپنے بچپن میں گاؤں کے بزرگوں سے سنے تھے اور اب اتنے برسوں بعد میرے ذہن سے محو ہو چکے تھے۔ شہروں میں آکر مادری زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ میل ملاپ بڑھنے سے دوسری زبانوں کے الفاظ آپ کی گفتگو کا حصہ بننا شروع ہو جاتے ہیں اور یوں دھیرے دھیرے آپ کی مادری زبان کے الفاظ آپ کے ذہن سے محو ہونے لگتے ہیں۔ لیکن شجاعت قریشی کے پاس سرائیکی زبان کے وہی روایتی اور دلچسپ جملے‘ مٹھاس اور دیہاتی لطیفے پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہیں جن کا وہ کھل کر استعمال کرتے ہیں۔
اس دفعہ ان سے فون پر بات ہوئی تو حال احوال پوچھنے کے بعد کہنے لگے: آپ ٹی وی پروگرام کرتے ہیں‘ کالم لکھتے ہیں‘ آپ ایک کام تو کریں۔ اس موضوع پر لکھیں کہ پاکستان میں بڑے عرصے بعد عالمی سطح کا ایک بڑا ایونٹ ہو رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبر ممالک کے نمائندے پاکستان آرہے ہیں۔ بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کی شرکت کی وجہ سے عام پاکستانیوں کیلئے اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس موقع کو پاکستان کو خوب استعمال کرنا چاہیے۔ انہوں نے لاہور میں 1974ء میں بھٹو صاحب کی بلائی گئی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا حوالہ دیا جس میں مسلم ملکوں کے سربراہوں کو پاکستان لا کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کی وجہ سے پورے پاکستان کا ماحول اور مزاج ہی بدل گیا تھا۔ لاہور ایک الگ قسم کا‘ عالمی شہر لگ رہا تھا۔ شجاعت قریشی کے بقول اس طرح کا بڑا ایونٹ اب بھی کرایا جا سکتا ہے کہ بڑی مدت بعد پاکستان میں کچھ نیا اور بڑا ہونے جا رہا ہے۔ ہمیں اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو ممالک اس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں‘ ان کے شہریوں کیلئے پاکستان آمد پر ویزے کے اجرا کی سہولت کا اعلان کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ غیرملکیوں کو اس موقع پر پاکستان آنے کی دعوت دینی چاہیے۔ اس وقت پاکستان ڈالر اور روپے کے فرق کی وجہ سیاحوں کیلئے بہت سستا ملک ہے۔ ایک ہزار ڈالر کا مطلب ہے تقریباً دو لاکھ اسی ہزار روپے‘ اور کوئی بھی سیاح اس رقم سے بڑے مزے سے اسلام آباد میں ایک ہفتہ گزار سکتا ہے۔ جہاں سیاح پاکستان میں سستے داموں سیاحت کا مزہ لے سکتے ہیں وہیں پاکستان بھی سیاحت سے ڈالر کما سکتا ہے اور سب سے بڑھ کر‘ اس موقع کو استعمال کرکے سیاحوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا سکتا ہے۔ اکتوبر میں اسلام آباد کا موسم انتہائی خوشگوار ہوتا ہے جو کسی بھی غیرملکی کیلئے بڑا مثالی موسم ہے۔ اس علاقے میں تاریخی مقامات بھی ہیں جیسے ٹیکسلا ہو گیا‘ کٹاس راج مندر۔ مری‘ نتھیا گلی جیسے خوبصورت مقامات بھی ہیں۔ قریشی صاحب کہنے لگے کہ اس سلسلے میں لوک ورثہ میوزیم بہت اہم ہے جہاں پاکستان بھر سے فنکار اپنے فن کا جادو جگاسکتے ہیں۔ شجاعت قریشی کا کہنا تھا کہ جب غیرملکی سیاح پاکستان آتے ہیں تو بہت متاثر ہوتے ہیں اور بڑا خوش ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔
قریشی صاحب کے بقول اسلام آباد میں شکر پڑیاں بڑی خوبصورت جگہ ہے‘ ان کانفرنس کے دنوں میں اسے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی لوک ورثہ میوزیم اور پریڈ گراؤنڈ موجود ہیں جہاں بڑے بڑے سٹال لگائے جا سکتے ہیں‘ خوبصورت پاکستانی ثقافت کے علاوہ غیرملکی پاکستان کے روایتی لباسوں سے بھی بڑے متاثر ہیں۔ پاکستانی ملبوسات بہت رنگ برنگے اور ہاتھ کی کڑھائی کی وجہ سے غیرملکیوں کو بہت پسند ہیں۔ کانفرنس کے دنوں میں شکر پڑیاں کو پاکستان کا ثقافتی مرکز بنایا جا سکتا ہے جہاں پاکستانی موسیقی‘ ڈھول‘ علاقائی رقص چل رہا ہو‘ لوگ اسلام آباد کے شاندار موسم میں ان سرگرمیوں سے محظوظ ہوں‘ کوئی خریداری کر رہا ہو توکوئی ڈھابے پر بیٹھا کھا پی رہا ہو‘ کوئی ڈھول کی تھاپ پر رقص دیکھ رہا ہو یا خود رقص کر رہا ہو۔ پاکستانی ثقافت ایک اعتدال پسند اسلامی ثقافت ہے۔ اس خطے پر عرب‘ ایرانی‘ ترک‘ مغل‘ افغان یا مشرقی ایشیائی اقوام حکمرانی کر چکی ہیں اور ان کے اثرات ہماری ثقافت میں موجود ہیں لہٰذا اس کے اندر ایک کشش ہے۔ قریشی صاحب کہنے لگے کہ پاکستانی کھانے بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ پاکستانی چاول ہوں یا گلابی نمک‘ یہ پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ چمڑے کا سامان ہو یا اعلیٰ معیار کی جینز‘ سب کچھ یہاں بنتا ہے۔ ان مصنوعات کے سٹال بھی لگائے جا سکتے ہیں۔
قریشی صاحب کا کہنا تھا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے ساتھ ہی سرمایہ کاری کانفرنس بھی منعقد کرائی جا سکتی ہے۔ وہ کہنے لگے کہ دبئی کو ہی دیکھ لیں‘ آئے روز وہاں کوئی نہ کوئی نمائش ہو رہی ہوتی ہے جس میں دنیا بھر سے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ شجاعت قریشی کا ماننا ہے کہ یہ کوئی ایسا کام نہیں جو ہم نہیں کر سکتے‘ ہمارے پاس بہت کچھ ہے لیکن ہم دنیا کو دکھا نہیں پا رہے اور یہی ظلم ہے جو ہم نے اپنے ملک کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ میں شجاعت قریشی صاحب کی پُرجوش آواز سنتا رہا۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ فوری طور اس منصوبے کی حکومت منظوری دے تو وہ راتوں رات یہ سب کچھ ممکن کر دکھائیں۔ شکر پڑیاں بھی سج جائے گا‘ پریڈ گراؤنڈ میں سٹال بھی لگ جائیں گے جہاں ہر قسم کی پاکستانی مصنوعات موجود ہوں گی۔ پھر اسلام آباد میں ڈیڑھ سو سے زیادہ غیرملکی سفارت خانے ہیں‘ تمام غیرملکی سفیروں کو شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے ساتھ ساتھ ان ثقافتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے مدعو کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ بھی اس ملک کی متنوع ثقافت کو دیکھ سکیں اور ہمارے لوگوں اور فنکاروں کے درمیان سکون سے چل پھر کر خریداری کر سکیں۔ کانفرنس کے موقع پر جڑواں شہروں میں چار دن کی جو چھٹی دی گئی ہے اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لوگ ان چھٹیوں میں گھروں میں بیٹھ کر وقت ہی ضائع کریں گے۔ پنڈی اسلام آباد کے لوگ ثقافتی سرگرمیوں میں شریک ہو سکتے ہیں‘ جس سے ہر طرف چہل پہل ہو گی۔ لوگوں کے چہروں پر خوشی ہو گی۔ یوں ان تین چار دنوں میں وفاقی دارالحکومت کی شکل ہی بدل جائے گی۔ ہمارے بارے میں جو دنیا بھر میں ایک مخصوص تاثر بن گیا ہے‘ اس اہم موقع پر اس کا توڑ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ سیاح کو اپنی طرف کھینچ کر تو لائیں پھر دیکھیں کہ ہماری دنیا کیسے بدلتی ہے۔
میں خاموشی سے شجاعت قریشی کی باتیں سنتا رہا۔ ان کی آواز میں جو خوشی اور جوش تھا‘ اسے دیکھ کر مجھے ایک لمحے کیلئے ڈر لگا کہ یہ بندہ کتنی آگے کی سوچ رہا ہے اور اسکی ان باتوں پر عمل نہیں کیا جائے گا ‘ اُلٹا جن دنوں یہ کانفرنس ہونی ہے‘ پورے شہر میں کرفیو کا سا ماحول ہو گا۔ چار چھٹیاں دینے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے اور ان کا مقصد لوگوں کو پابند کرنا ہے کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں کیونکہ غیرملکی مہمان آرہے ہیں اور یہ سب علاقے ہائی سکیورٹی رسک قرار دیے جا چکے ہیں۔ شجاعت قریشی اب بھی جوش و خروش کے ساتھ مجھے آئیڈیاز بتا رہے تھے کہ اس کانفرنس کی مدد سے پاکستان خود کو کیسے پوری دنیا کے سامنے ایک نارمل ملک کے طور پر پیش کر سکتا تھا۔میں سوچتا رہا کہ کیا واقعی سیاستدانوں‘ حکمرانوں یا خود عوام کو ایسا پاکستان چاہیے جو ویسا اچھا اور نارمل ہو جیسا شجاعت قریشی چاہتے ہیں؟ البتہ ایک بات کی خوشی ضرور ہوئی کہ کوئی ایک بندہ تو ملا جو اس ملک کو نارمل دیکھنا چاہتا ہے اور جس کی سوچ اب بھی مثبت ہے۔ جسے لگتا ہے کہ ہم اچھا بھی کر سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved