اندوہناک خبروں کی تو کمی نہیں‘ روزانہ کہیں نہ کہیں سے دل دہلانے والے واقعات ہماری نظروں کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ ایک سال سے تو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی‘ نقل مکانی‘ گھروں‘ ہسپتالوں‘ سکولوں اور آبادیوں کی تباہی کی ایسی داستان رقم ہو رہی ہے جس کی مثالیں تو اور بھی ہو سکتی ہیں لیکن اس پر عالمی بے حسی کی کوئی مثال جدید تاریخ میں کم از کم سامنے نہیں آئی۔ اصل کہانی اور واقعات کی تفصیل تو مکمل طور پر دنیا اس وقت پڑھ اور دیکھ سکے گی جب کبھی آگ اور خون کا یہ کھیل ختم ہو گا۔ اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ فلسطینیوں کوکبھی امن نصیب ہوگا کہ نہیں۔ ایک غالب نقطہ نظر فلسطینیوں اور ان کے حامیوں میں ہمیشہ یہ رہا ہے کہ جس صہیونی جنگ کا آغاز 75سال قبل یورپی آبادکاروں نے فلسطین میں کیا تھا‘ وہ آج بھی جاری ہے۔ اس میں وقفہ اگر ہوا ہے تو وہ صرف مزید تیاری اور زیادہ مہلک ہتھیار جمع کرنے کی غرض سے‘ یا پھر فلسطینیوں کی امن کی موہوم خواہش اور صہیونی جنگ بازوں کی تھکاوٹ کی وجہ سے تھا۔
گزشتہ تیس سالوں سے کئی بار امن کی خواہش اور کمزور فلسطینیوں کی مصلحت پسندی کے پیش نظر جامع امن منصوبوں پر چند مرتبہ کچھ پیش رفت دیکھی جو خصوصاً 1992ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے نتیجے میں عمل میں آئی۔ خوش فہمیاں بھی پیدا ہوئیں کہ اسرائیل کی سلامتی کی ضمانتوں کے ساتھ فلسطین کی آزاد نہیں تو داخلی طور پر ایک خود مختار ریاست کی ہی ابتدا ہو گی۔ اس سلسلے میں فلسطینی قیادت نے بہت سے سمجھوتے کیے‘ یا انہیں ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے مطابق فلسطین کی آزادی کی تنظیم‘ پی ایل او نے اسرائیل کے وجود کو پہلی مرتبہ تسلیم کیا اور مسلح جدوجہد کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ اس کے بدلے میں اسرائیل نے فلسطینی ریاست نہیں بلکہ اتھارٹی کی کچھ داخلی خودمختاری کی ہامی بھری اور تاریخی طور پر الجھے ہوئے مسائل‘ جیسے دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ جہاں یہ اتھارٹی قائم ہوئی‘ وہاں سے صہیونی بستیوں کا خاتمہ‘ غزہ اور ان علاقوں کے درمیان جغرافیائی رابطہ اور 1998ء میں اپنی زمینوں اور بستیوں سے بے دخل مہاجرین کی اسرائیل میں واپسی کو آئندہ مذاکرات پر چھوڑ دیا گیا۔ عملی طور پر سوائے ''اتھارٹی‘‘ کے اور کچھ نہ ہو سکا‘ بلکہ مغربی کنارے پر مزید یہودی آبادکاری کا سلسلہ جاری رہا۔
فلسطینیوں کے ایک طبقے میں اس معاہدے کے خلاف غم وغصہ موجود تھا جو اس وقت ہی سے حماس اور اسلامی جہاد کی تنظیموں کی صورت ظاہر ہوا۔ بنیادی طور پر غزہ میں قائم ان تنظیموں نے پی ایل او سے اپنا راستہ جدا کر لیا۔ فلسطینیوں میں بھی تقسیم‘ جو پہلے بھی تھی‘ کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر شدت اختیار کرتی چلی گئی۔ عرب دنیا میں بڑھتی ہوئی تقسیم کا‘ جو ہر جگہ داخلی نوعیت کی تھی‘ ایک برادر ملک نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اُسے مزید ہوا دی۔ یہ تقسیم ہمیں یمن‘ عراق‘ شام‘ لبنان اور فلسطینی علاقوں میں واضح نظر آتی ہے۔ اور یہ آج نہیں‘ بلکہ کئی دہائیوں سے ہے۔ یاسر عرفات مرحوم جنہوں نے اپنے طور پر بہت بڑی قربانی دی اور اپنی پوری سیاسی جدوجہد کے ثمر‘ نام اور مقام دائو پر لگا کر جرأت مندانہ انداز میں اس معاہدے پر دستخط کیے‘ اور اسرائیلی وزیراعظم یزہاک رابن سے ہاتھ ملایا‘ آخر میں چند کمروں میں محصور ہو کر رہ گئے اور اسی تنہائی میں جان دے دی۔ اسرائیل میں انتہا پسندوں کی کمی تو شروع دن سے ہی نہیں تھی‘ جنہوں نے بے رحمی سے فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور کرنے کے لیے دہشت گردی کی فضا قائم کی تھی‘ اور اسے دہائیوں تک جاری رکھا۔ وہ اس معاہدے کے بھی خلاف تھے جس میں کچھ محدود علاقوں میں محدود اختیارات کے ساتھ فلسطینی ریاست کا غیر واضح خاکہ دیا گیا تھا۔ ایسے ہی ایک انتہا پسند نے یزہاک رابن کو بھی گولی مار دی۔
معافی چاہتا ہوں‘ یہ چند تاریخی حوالے گزشتہ ایک سال سے غزہ میں اسرائیل کی طرف سے نسل کشی کی المناک داستان کو سمجھنے کے لیے ضروری تھے۔ صہیونی ریاست کی بربریت کے بارے میں بہت کم خبریں باہر آ رہی ہیں‘ اور اکثر وہ اسرائیلی ذرائع سے یا اُن چند صحافیوں کی جرأت مندی کی وجہ سے‘ جو اپنی جان کی بازی لگا کر کچھ نہ کچھ میڈیا کو فیڈ کر رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے سینکڑوں کی تعداد میں میڈیا پرسن قتل کیے ہیں۔ دنیا کے طاقتور ممالک اور علاقائی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو سب کچھ معلوم ہے کہ غزہ میں انسانی زندگیوں کو کیسے برباد کیا جا رہا ہے‘ مگر وہ سب خاموش ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس واحد عالمی رہنما ہیں جنہوں نے کم از کم غزہ کی تباہی کے خلاف آواز اٹھائی ہے‘ اور ان کی آواز اس لیے معتبر ہے کہ ان کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں۔ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ غزہ اب انسانی بودوباش کے قابل ہی نہیں رہا۔ وہاں سب کچھ وہاں تباہ ہو چکا ہے‘ گھر‘ ادارے‘ مارکیٹیں‘ انفراسٹرکچر اور معیشت۔ نہ جانے وہاں بے گھر اور بار بار جگہ بدلنے والے بے یارو مددگار انسانوں‘ خاص طور پر چھوٹے بچوں کی اکثریت‘ جو اَب یتیم ہو چکی ہے‘ کی نفسیاتی کیفیت کیا ہو گی۔ کم از کم میری نسل نے انسانی زندگی کا یہ المیہ دوسری مرتبہ دیکھا ہے۔ اس سے پہلے ایک سال سے زیادہ عرصہ تک ایسی ہی خون کی ہولی بوسنیا میں سربیا نے بوسنیا کی آبادی کے خلاف کھیلی تھی اور یورپ خاموش رہا تھا۔ آخر بہت سی تباہی کے بعد امریکہ نے قدم اٹھایا اور فوجی مداخلت کرکے مزید تباہی سے آبادی کو بچا لیا‘ جس میں مسلم اور مسیحی آبادیاں شامل تھیں۔
اسرائیل کے جنگی جرائم کی عملی‘ سیاسی اور سفارتی معاونت موجودہ امریکی انتظامیہ ببانگ دہل کر رہی ہے۔ زبانی کلامی‘ ناقابلِ یقین تباہی کی باتیں ضرور کرتے ہیں‘ مگر اسلحہ اور ڈالر تواتر سے اسرائیل کی نسل کشی کی حکمت عملی کو توانا رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں امریکی قیادت نے سترہ ارب ڈالر سے کہیں زیادہ کی امداد‘ یعنی مفت کا سرمایہ‘ اسرائیل کو جنگی تیاریوں کے لیے عنایت کیا ہے۔ واہ واہ‘ ہمارے ملک کی اتحادی سیاسی جماعتوں نے فلسطینیوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے گھسی پٹی کل جماعتی کانفرنس منعقد کی ہے۔ دیگر اسلامی ممالک میں سے صرف اردن‘ سعودی عرب اور کسی حد مصر اور متحدہ عرب امارات وہاں اشیائے خورونوش اور ادویات پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں بھی وہاں رسائی کے لیے اسرائیل کی تائید اور اجازت درکار ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں‘ خاص طور پر مغربی ممالک میں‘ اس جنگ کے خلاف جلوس نکلے ہیں۔ یہ یہودیوں اور مسلمانوں کا مسئلہ جس انداز میں ہمارے ملک میں بنا کر پیش کیا جاتا ہے‘ ایسا نہیں ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف صہیونیوں کی جنگ کو دنیا بھر کے باشعور لوگ دیکھ رہے ہیں۔ فلسطینیوں میں عیسائی بھی ہیں جو ہمیشہ فلسطینی ریاسست کے قیام اور آزادی کی جدوجہد میں شریک رہے ہیں۔ اور یہ بھی غلط ہے کہ دنیا کے سب یہودی اسرائیلی جارحیت‘ نسل کشی یا اسرائیلی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں‘ یا ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے مؤثر حمایت امریکی جامعات میں طلبہ کی طرف سے ہے‘ جو اپنی جامعات پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اسرائیلی کمپنیوں سے سرمایہ نکالیں اور ان کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved