فیصلہ آپ کا ہے۔ سوشل میڈیا کی فضول بحثو ں میں دن گزارنا ہے یا زندگی کی خوبصورتیاں محسوس کرنے میں۔ کسی مقرر کے چن چن کر عیب نکالنے ہیں یا چائے‘ کافی کے ایک گرم گھونٹ سے حرارت بھری زندگی جسم میں رقص کرتی محسوس کرنی ہے۔ تازہ کٹی گھاس کی سوندھ بھری مہک میں سانس لینا ہے‘ کالے سر والی بلبل کے چہچہے سننے ہیں‘ کبوتری کو مائل کرتے‘ پنکھ پھیلائے کبوتر کا مخصوص رقص دیکھنا ہے یا کسی بے دماغ شخص کے ساتھ اُلجھ کر وقت برباد کرنا ہے۔ فیصلہ آپ کا ہے۔
میرا دن ایک خوشی کی خبر لے کر طلوع ہوا ہے۔ میرے کچھ گم گشتہ مہمان لوٹ آئے ہیں۔ وہ پیارے واپس آگئے ہیں جو گویا روٹھ کر چلے گئے تھے اور وجۂ بیگانگی مجھے معلوم نہیں تھی۔ ایک کانٹا سا چبھا ہوا تھا کہ معلوم نہیں ہم سے مہمان کیوں ناراض ہو گئے؟ ان کی خاطر میں کیا کمی کوتاہی ہوئی کہ پلٹ کر نہیں آئے؟ یہ کانٹا آج صبح نکل گیا۔ میں نے دیکھا کہ خاکستری فاختاؤں کا وہ جوڑا لان میں دانہ پانی پر اُترا ہے جو بہت دنوں سے نظر نہیں آیا تھا۔ وہ چھوٹی سی ہیمنگ برڈ جیسی زرد چشم‘ سیہ رنگ‘ نیل دم چڑیا بھی نظر آئی جو ٹکوما بیل کے پھولوں سے رس لینے آتی ہے۔ ذرا دیر میں کبوتروں کا وہ جوڑا بھی منڈیر پر آبیٹھا جس کا کبوتر سفید اور کبوتری سرمئی مائل ہے۔ یہ سفید کبوتر دانے پر اُترا تو اس کی پھیلی ہوئی پنکھ نما سفید دم کے خوبصورت سیاہ حاشیوں کا منظر صبح کا حاصل تھا لیکن آج یہ کمزور اور دبلا لگ رہا تھا۔ بیک وقت دل خوش اور اداس ہو گیا۔ پیارے! تم تو میرے گھر کی رونق ہو‘ تم اتنے دن کہاں رہ گئے تھے؟ اور کمزور کیوں ہو رہے ہو؟ کبوتر پیٹ بھر کر اڑا تو اپنا ایک پَر وہیں چھوڑ گیا۔ میں نے پر اٹھا لیا اور اس حیران کن ڈیزائن کو دیکھتا رہا۔ آپ کسی پَر کو اٹھا کر دیکھیں وہ ایک فن پارہ دکھائی دے گا۔ خوبصورت‘ پرندے کی بنیادی ضرورتوں سے مکمل لیس اور نہایت ہلکے وزن والا مضبوط پَر کسی شہکار سے کم نہیں ہوتا۔ کچھ اور خوبصورت پرندے بھی منڈیروں پر آکر بیٹھتے جا رہے تھے۔ میرے گم گشتہ مہمان۔ جو شاید مجھ سے ناراض نہیں تھے‘ محض مصروف تھے۔ یہ وہ پرندے تو ہیں نہیں جو موسم موسم ہجرت کر کے بہتر علاقوں کی طرف چلے جایا کرتے ہیں۔ بظاہر انہیں پڑوس ہی میں کہیں بہتر دانہ پانی کی سہولت میسر آگئی تھی تو اچھی دعوت اڑانے جایا کرتے ہوں گے۔
لیکن یہ تو چھوٹے پرندوں کی بات ہے۔ سب سے بڑا پرندہ بھی کچھ دن سے پَر پھیلا کر اُتر آیا ہے۔ موسمِ خزاں۔ وہ پرندہ جو سال میں صرف ایک دو مہینوں کیلئے آتا ہے۔ اس پرندے کے پر‘ زرد‘ گلابی‘ نارنجی‘ آتشی اور عنابی ہیں۔ ایسے پر کسی پرندے کے نہیں۔ سب سے الگ اور منفرد حسن والا پرندہ۔ جس کی خوبصورتی بہاروں کو ماند کرتی ہے۔ خزاں لاہور سمیت شمالی علاقوں کے شہروں پر اُتر آئی ہے اور ایک اداس خاموشی اپنے حسن کے ساتھ باغوں‘ پارکوں اور درختوں میں مسکن بنا رہی ہے۔ مجھے خزاں کی آمد کی اطلاع میرا سفید مور دیتا ہے۔ اسے سب سے پہلے پتا چل جاتا ہے کہ خزاں راستے میں ہے۔ ایک دو ماہ پہلے تک اس کی لمبی گھنی دم اس کیلئے سنبھالنی مشکل ہوتی تھی۔ ایک ماہ پہلے تک وہ پر پھیلا کر رقص کرتا تو سینکڑوں آنکھوں والے بڑے سے پنکھ سے پنجرے کو بھر دیتا تھا۔ پنجرے کی چھت کے قریب ٹہنے پر بیٹھتا تو دم پنجرے کی زمین کو چھوتی تھی۔ ستمبر کے آغاز سے اس نے رقص کرنا چھوڑ دیا اور اس کے سفید پَر پنجرے میں بکھرنے لگے۔ وہ دبلا اور کمزور سا لگنے لگا۔ اس کی مغرور گردن اسی طرح تھی لیکن جثہ مختصر لگتا تھا۔ ہر سال یہی ہوتا تھا اور یہ خزاں اور اس کے بعد سردیوں کی آمد کا اعلان تھا۔ پت جھڑ اس کیلئے پَر جھڑ ہوا کرتا ہے۔ اب یہ چند مہینے اسی طرح گزارے گا۔ فروری کے وسط میں اس کے نئے چمکیلے پر نمودار ہوں گے‘ دم لمبی اور پنکھ بڑا ہونا شروع ہوگا۔ اور ہمیں پتا چل جائے گا کہ بہار کی آمد آمد ہے‘ دھوپ بھرے سبز موسم شروع ہونے والے ہیں۔
پرندوں کی دنیا پر ماہرین کی کتابیں پڑھیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے۔ میں ایک ایسی ہی کتاب پڑھ رہا تھا جو کسی دلچسپ ناول سے کم نہیں۔ یہ ایک پورا جہان ہے جس کا ہمیں علم بہت کم ہے۔ پرندے حیران کن طریقے سے موسموں کو بھانپ لیتے ہیں۔ ساری گرمیاں ان کے پر بارش اور ہوا اور دھوپ کی مار سہتے ہیں۔ ساری گرمیاں پرندے اپنے پروں کی صفائیاں کرتے رہتے ہیں اور مردہ پر نکال کر پھینکتے رہتے ہیں۔ پھر جب گرمیاں اپنے اختتام کی طرف بڑھتی ہیں تو ان کے بہت سے پروں کی تبدیلی لازمی ہو چکی ہوتی ہے۔ آپ اگر خزاں کے آغاز سے پارکوں اور باغوں میں جاکر مشاہدہ کریں تو وہاں پرندوں کے پر کافی تعداد میں نظر آئیں گے۔ لیکن سردی کی ضرورت اور اڑان کیلئے پر ضروری ہیں اس لیے پرندے بہت محتاط طریقے سے رفتہ رفتہ اپنے پروں کو تبدیل کرتے ہیں۔ پھر ہجرت کرنے والے پرندوں کے الگ مسائل ہیں۔ انہیں لمبی اڑان کیلئے تازہ دم پر چاہئیں اور اس کیلئے پرانے پروں کو نکال پھینکنا ضروری ہے۔ واحد جاندار‘ جس کے جسم پر پروں کا لباس ہوتا ہے‘ پرندے ہیں اور یہ لباس ان کا قیمتی ترین اثاثہ ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پرندوں کے پروں کے رنگ‘ چمکیلا پن اور بڑا پنکھ مادہ کو لبھانے کیلئے نہایت اہم ہیں‘ کیونکہ یہ چیزیں نر کی طاقت اور صحت کو ظاہر کرتی ہیں۔ صرف پروں کے بارے میں معلومات ہی پڑھنا شروع کریں تو حیرتوں کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔
سوچئے تو حیرانی ہوتی ہے کہ کیسی سمجھ ہے پرندوں کو موسموں کی ضرورت کی اور ان کا مقابلہ کرنے کی۔ سخت سردی سے بچنے کیلئے یہ اپنے پروں کو پھلا کر چھوٹی چھوٹی جیبیں سی بنا کر ہوا قید کر لیتے ہیں اور وہ ہوا جسم کی گرمی سے انہیں گرم رکھتی ہے۔ آپ غور کیجیے گا کہ عام پرندے بھی لیکن گیت گانے والے پرندے بالخصوص‘ سردیوں میں کم بولتے ہیں۔ شاید اپنی توانائی اور درجہ حرارت محفوظ رکھنے کیلئے۔ ان کی چہکاروں سے گونجتا باغ خزاں میں خاموش ہونا شروع ہوتا ہے اور سردیوں تک ایک گہرا سکوت انہیں ڈھانپ چکا ہوتا ہے۔ شہروں میں تو پھر بھی ایسا سکوت نہیں ہوتا لیکن دیہات میں سردیوں کا سکوت اب بھی بولتا محسوس ہوتا ہے۔
خزاں کا بہت بڑا پرندہ اتر چکا ہے۔ کچھ دن پہلے لاہور میں خزاں کی پہلی بارش ہوئی۔ رات بھر بارش برستی رہی۔ اس کے ساتھ بادِ شمال کی وہ خوشبو بھی تھی جو سردیوں کی آمد کا اعلان کرتی ہے۔ مجھے خزاں کی آمد کے ساتھ ہی سرد علاقوں کی یاد آنے لگتی ہے۔ اگرچہ بہت سرد علاقے برف باری اورشدید سردی میں بہت سے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن خزاں کا حسن انہی علاقوں میں ہے۔ ٹورنٹو‘ شکاگو‘ اٹلانٹا‘ کلیو لینڈ‘ الکلی‘ لنبریز‘ لندن‘ پاراڈان (یوکے) وغیرہ۔ نظر سے وہ منظر نکلنے والے نہیں‘ نہ وہ حسن فراموش کیا جا سکتا ہے۔ یہ مقامات تو پھر دور ہیں‘ ہنزہ کی خزاں دیکھ لیں‘ سکردوکے آتشی رنگ نظروں میں بھر لیں یا خوازہ خیلہ سوات کے دریا کنارے کے زرد‘ عنابی درخت دل میں سمو لیں‘ کیا کوئی تازہ پھول ہوں گے جیسے خزاں کے یہ پتے نظر آتے ہیں۔ یہ پتے ایک دو مہینوں کیلئے مہمان ہی تو ہیں۔
زندگی اپنے رنگ لیے بار بار ہمارے پاس آتی ہے۔ ہمیں متوجہ کرتی ہے لیکن ہم منہ پھیر کر دوسری طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ خزاں‘ سردی‘ بہار‘ گرمی‘ برسات مہمانوں کی طرح ہمارے گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور ہم منہ موڑے رکھتے ہیں۔ پرندے ہمارے اردگرد چہچہے بکھیرتے ہیں‘ شاداب جھونکے ہمیں چھیڑتے ہیں اور پھول ہمیں دیکھ کر مسکراتے ہیں۔ لیکن ہمارا کٹھور پن ہمیں ایک خول میں بند رکھتا ہے۔ ہم ان مہمانوں کو نظر انداز کرتے ہیں لیکن یہ ہمیں نظر انداز نہیں کرتے۔ کچھ دن کیلئے چلے جاتے ہیں لیکن یہ گم گشتہ مہمان پھر واپس آجاتے ہیں۔ ان کی مہربانی ہے۔ ورنہ کون مہمان ناقدروں کے پاس واپس آتا ہے؟
نہ کرو یارو! نہ کرو۔ زندگی خود بھی ایک مہمان ہے۔ ایک خاص مہمان۔ لیکن یہ مہمان چلا جائے تو واپس آنے والا نہیں۔ کبھی نہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved