تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     01-11-2013

پیغام کیا ہے؟

وزیراعظم کے دورہ امریکہ کی ایک اور کامیابی سامنے آ گئی۔ وزیراعظم نے کہا تھا کہ انہوں نے صدر اوباما سے ڈرونز پر بات کی ہے۔ آج خبر آ گئی کہ میران شاہ کے بازار میں ایک گھر پر ڈرون حملہ ہوا‘ جس میں 5 افراد ہلاک ہو ئے۔ سچ فرمایا گیا کہ ہم جو کہتے ہیں کر کے دکھاتے ہیں۔ واشنگٹن میں جو کہا‘ وزیرستان میں ہو گیا۔ یوں لگتا ہے کہنے اور سننے میں فرق پڑ گیا ہو گا۔ وزیراعظم نے ڈرون حملے روکنے کی بات کہی اور صدر اوباما نے اس کا الٹ سمجھا۔ جن لوگوں نے وزیراعظم کے دورہ امریکہ کو کامیاب قرار دیا تھا‘ اب وہ کیا کہیں گے؟ ہم نے امریکہ سے تجارت میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ وہ پورا نہیں ہوا۔ ڈرون حملے روکنے کی بات‘ صدر اوباما کی سمجھ میں نہیں آئی۔ الٹا انہوں نے ڈرون حملے شروع کر دیئے۔ امداد ہم نے مانگی ہی نہیں تھی۔ لیکن پرانی امداد میں سے جو رقم رکی ہوئی تھی‘اس کی ادائی ہو گئی۔اس دورے میں سب کچھ الٹ پلٹ ہو کے رہ گیا۔ جس چیز سے ہم نے منع کیا‘ وہ امریکیوں نے کر دی اور جس چیز کے لئے کچھ نہیں کہا گیا‘ وہ بھی کر دی۔ دورے کی کامیابی کے دعویدار یقینا پریشان ہوں گے کہ کونسی کامیابی پر فخر کریں اور کونسی پر افسوس؟ تازہ ڈرون حملے کو کامیابیوں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ جبکہ جناب وزیراعظم کے مداحوں نے دورے کو مجموعی طور پر کامیاب قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے کسی بھی وزیراعظم یا صدر کا دورہ امریکہ ناکام نہیں ہوا۔ جو بھی گیا‘ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر آیا۔ ہماری امداد بند ہوئی۔ امریکہ سے خریدے گئے اسلحے کے سپیئرپارٹس پر پابندی لگی۔ہم پر ایٹمی تیاریوں کے الزام میں پابندیاں لگائی گئیں۔ ہمارے فوجیوں کے تربیتی پروگرام بند کئے گئے۔ مشرقی پاکستان میں اتحادی ہونے کے باوجود ہمیں مدد دینے سے انکار کیا گیا۔لیکن ہمارے صدور اور وزرائے اعظم کے دورے؟ وہ بے حد کامیاب رہے۔ وزیراعظم کا حالیہ دورہ اصل میں شروع سے ہی عجیب طرح کا رہا۔ سفارتی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ دورہ الٹی طرف سے شروع کیا گیا۔ جو کچھ پہلے ہوتا ہے‘ وہ آخر میں کیا گیا اور جو کچھ آخر میں ہوتا ہے‘ وہ پہلے کر دیا گیا۔ مثلاً جب کوئی ملکی یا انتظامی سربراہ‘ بیرونی دورے پر جاتا ہے‘ تو وہ اپنے کسی ہم رتبہ عہدیدار سے ملاقات کرتا ہے۔ امریکی صدر چونکہ انتظامی سربراہ بھی ہوتے ہیں اور ہمارے وزیراعظم بھی انتظامی سربراہ ہیں۔ سفارتی روایات کے مطابق دورے کی ابتدا صدر اور وزیراعظم کی ملاقات سے ہونا چاہیے تھی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک انتظامی سربراہ‘ دوسرے ملک کے باضابطہ دورے پر جائے اور میزبان سے اس کی استقبالیہ ملاقات نہ ہو یا براہ راست اعلیٰ سطحی مذاکرات نہ کئے جائیں۔ مگر ہمارے وزیراعظم کو امریکہ پہنچ کر صدر اوباما سے ملاقات کے لئے کئی دن انتظار کرنا پڑا اور اس دوران مختلف حکام اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ خود وزیراعظم کو بھی امریکی حکام سے ملاقاتیں کر کے تبادلہ خیال کرنا پڑا اور یہ حیرت انگیز واقعہ بھی ہوا کہ پاکستان کے وزیراعظم ‘ امریکہ کے سیکرٹری خارجہ سے ملاقات کے لئے خود چل کر ان کے دفتر گئے۔ ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے اور میری یادداشت کے مطابق تو کبھی نہیں ہوا۔ جواب دیا جاتا ہے کہ وزیراعظم چونکہ خود وزارت خارجہ کی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔ وہ اپنی اسی حیثیت میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ گئے تھے۔ لیکن یہ عذر بھی اتنا ہی دلچسپ ہے‘ جتنا خود وزیراعظم کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ جانا۔ وزیراعظم درحقیقت تمام وزارتوں کا باس ہوتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کسی بھی محکمے کے وزیرسے ملاقات کے لئے اس کے دفتر جائے۔ کیونکہ وہ پہلے وزیراعظم ہوتا ہے اور بعد میں دیگر وزارتوں کا باس۔ یعنی پہلی حیثیت وزیراعظم کی ہوتی ہے اور بعد میں کسی دوسری وزارت کی‘ جو اس کے اپنے پاس ہو۔ لیکن واشنگٹن میں یہ سب کچھ ہوا اور مزید مضحکہ خیز بات یہ ہوئی کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے لوگ ‘ حکام سے ملاقاتیں کرتے رہے اور آخر میں صدر اور وزیراعظم کے مذاکرات ہوئے۔ اگر آپ روایات کو دیکھیں‘ تو وہ یوں ہیں کہ دورے کی ابتدا میں انتظامی سربراہوں کے مذاکرات ہوتے ہیں اور فالواپ میں وزیراعظم کی ٹیم میں شامل حکام اپنے اپنے ہم منصبوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں‘ جو اس لئے ہوتی ہیں کہ اعلیٰ سطحی مذاکرات میں جو کچھ طے ہوا ہو‘ اس پر عملدرآمد کے لئے متعلقہ حکام سے مہمان ہم منصبوں کی بات چیت ہو اور سربراہی مذاکرات میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کی کارروائی کی جائے۔ مگر وہاں تو گاڑی کے پیچھے گھوڑا لگایا گیا۔ یعنی حکام نے اپنے اپنے ہم منصبوں سے پہلے ملاقاتیں کر لیں اور اعلیٰ سطحی مذاکرات بعد میں ہوئے۔ پھر یہ ملاقاتیں کس لئے ہوئیں؟ اعلیٰ سطحی اجلاس سے پہلے حکام کی ملاقاتوں کا مقصد کیا تھا؟اور اعلیٰ سطحی مذاکرات کے بعد‘ حکام کی ملاقاتیں کب ہوئیں؟ کیونکہ مذاکرات کے بعد تو فوراً ہی واپسی کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ مذاکرات میں کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کے لئے دونوں طرف کے متعلقہ حکام کے باہمی رابطے کب کئے گئے؟ اور اگر نہیں کئے گئے‘ تواس کا مطلب کیا ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اعلیٰ سطحی مذاکرات میں کسی طرح کے فیصلے ہی نہیں کئے گئے‘ تو کیا مذاکرات صرف نشستند‘ گفتند‘ برخواستند کے مترادف تھے؟ وزیراعظم کو سینٹ میں شکیل آفریدی کے حق میں مہم چلانے والے اراکین کے پاس لے جایا گیا۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ پاکستان کے وزیراعظم اپنے ملک کے سب سے زیادہ بااختیار منصب پر فائز ہیں۔ اس درجے کا جو بھی مہمان کسی دوسرے ملک میں جاتا ہے‘ وہ اگر پارلیمنٹیرینز سے ملنے جائے‘ تو وہاں خطاب کرنے جاتا ہے۔ سینٹ یا ایوان نمائندگان میں سے ایک ہائوس میں جائے‘ تو بھی پورے ہائوس میں خطاب کرتا ہے اور مشترکہ اجلاس میں جائے‘ تو بھی پوری کانگریس کے سامنے تقریر کرتا ہے۔ لیکن وزیراعظم کی ملاقات چند سینیٹرز سے کرائی گئی اور وہ بھی جو ایک پاکستان مخالف تحریک میں سرگرم ہیں۔ ان لوگوں نے‘ وزیراعظم پر جن تلخ سوالات کی بوچھاڑ کی‘ وہ آداب میزبانی کے بھی خلاف تھے اور سفارتی روایات کے بھی۔ یوں لگتا ہے کہ وہائٹ ہائوس میں بھی ہمارے وزیراعظم کو اسی طرح کے سوالات کا سامناکرنا پڑا ہو گا۔ کیونکہ ملاقات کے بعد‘ انہوں نے میڈیا کو جو بریفنگ دی‘ اس میں انہیں کہنا پڑا کہ ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا پڑے گا۔ یہ وہ جملہ ہے‘ جو کسی بھی ملک کے انتظامی سربراہ کو دوسرے ملک میں جا کر کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وزیراعظم کا ایسی پوزیشن میں آنا کہ وہ میزبانوں کو اپنا گھر درست کرنے کا پیغام دیں‘ ثابت کرتا ہے کہ صدر اوباما نے ان سے کیا کچھ کہا ہو گا؟ یوں لگتا ہے کہ سارا پروگرام ہی جان بوجھ کر تیار کیا گیا تھا۔ یعنی پہلے وزیراعظم کو اپنے سے کم رتبہ لوگوں سے ملاقاتیں کر کے‘ ان کی باتیں سننا پڑیں اور آخر میں ان کی ملاقات صدر اوباما سے ہوئی۔ ابتدائی ملاقاتوں میں ہمارے وزیراعظم کو تلخ سوالات سننا پڑے ہوں گے‘ جن کا یقینی طور پر ان پر خاص قسم کا اثر ہوا ہو گا۔ میں تو یوں کہوں گا کہ باقاعدہ کسی پروگرام کے تحت‘ انہیں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہو گا اور پھر وہ اسی ذہنی کیفیت کے ساتھ صدر اوباما سے ملے ہوں گے۔ اگر آپ اس ملاقات کی فٹیج دوبارہ دیکھیں‘ تو آپ آسانی سے یہ سمجھ لیں گے کہ ہمارے وزیراعظم کووہائٹ ہائوس کے اندر جانے سے پہلے کس طرح دبائو میں رکھنے کی کوشش کی گئی؟ وزیراعظم کی باڈی لینگویج صاف بتا رہی تھی کہ انہیں وہائٹ ہائوس میں آنے سے پہلے ناپسندیدہ باتیں سننا پڑی ہوں گی۔ واشنگٹن میں جو ماحول بنایا گیا تھا‘ وہ یقینی طور پر کسی خوشگوار بات چیت کے لئے موزوں نہیں تھا۔ امریکیوں نے اپنا اصل موڈ ظاہر کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔ ایک ہفتہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ ڈرون حملہ کر دیا گیا۔ یعنی ہمارے وزیراعظم نے اپنے دورے کے دوران جس مطالبے کو مرکزی نکتہ بناکر پیش کیا‘ امریکیوں نے پہلی فرصت میں اسے پارہ پارہ کر دیا۔بہتر ہو گا کہ حکومت کی ترجمانی کرنے والے‘ اب بھی کامیابی کے دعوے کرنا چھوڑ دیں۔ دورے کے دوران اور اس کے بعد‘ امریکیوں کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ انہوں نے ہماری باتیں جزوی یا کلی طور پر مان لی ہیں۔ اس کے برعکس ان کی طرف سے جتنے بھی پیغامات اور اشارے سامنے آئے‘ وہ سب ایک ہی بات ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ اچھے موڈ میں نہیں۔ہمیں حقائق کو اسی طرح سمجھنا چاہیے‘ جیسے کہ وہ ہیں۔ اگر حقائق کا ادراک ہی نہیں کریں گے‘ تو ہم اپنی پالیسیاں کیسے بنائیں گے؟ امریکہ کی طرف سے وزیراعظم کے سامنے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا سوال بھی اٹھایا گیا۔ دیکھتے ہیں کہ اب نئی عدالتی کارروائی میں حکومت کا موقف کیا ہوتا ہے؟اور آخری سوال کہ تازہ ڈرون حملے میں کیا پیغام مضمر ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved