تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     13-10-2024

ذاتی اور سیاسی مفاد سے اوپر

اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس چند روز بعد منعقد ہونے والا ہے‘ اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف نے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے۔ جس روز یہ اجلاس شروع ہو گا‘ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن سڑکوں پر نعرہ زن ہوں گے اور اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچ کر اپنے جذبات کا اظہار کریں گے۔ اس غیرمتوقع فیصلے پر پاکستان بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ تحریک کے ہمدردوں اور بہی خواہوں نے بھی اس پر اضطراب کا اظہار کیا ہے اور عمران خان صاحب سے یہ گزارش کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا کہ یہ کال واپس لے لی جائے یا اسے موخر کر دیا جائے۔ جب شنگھائی سمٹ کا انعقاد ہو چکا ہو اور معزز مہمان اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہوں تو پھر جس بھی شدت اور جس بھی انداز سے مناسب سمجھا جائے رہنما اور کارکن اپنے جذبات کا اظہار کر لیں۔ ابھی تک تحریک انصاف کے کسی بڑے رہنما نے اس اپیل پر کان نہیں دھرے۔ عمر ایوب ہوں یا وقاص اکرم‘ وہ اپنے دلائل کے ساتھ میدان میں موجود ہیں اور اپنے فیصلے کی داد وصول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے حریفانِ سیاست الزام لگا رہے ہیں کہ یہ اقدام ''ملک دشمنی‘‘ ہو گا۔ وہ یہ بھی یاد دلا رہے ہیں کہ 2014ء میں اسلام آباد میں برپا کیے جانے والے احتجاجی دھرنے کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا تھا۔ پاکستانی مفادات کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف پاکستان میں معاشی استحکام پیدا نہیں ہونے دینا چاہتی۔ وہ اسے اپنی سیاست کے لیے زہرِ قاتل سمجھتی ہے۔ اب جبکہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر کامیابی سے عمل کیا جا رہا ہے‘ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستانی معیشت کے بارے میں پُرامید ہیں ۔ زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے‘ مہنگائی کی شرح کم ہو چکی ہے‘ سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر میں شدید اضافہ ہوا ہے‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سمٹ کر رہ گیا ہے۔ سعودی عرب کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد نے پاکستان کا تاریخی دورہ کر کے مفاہمت کی 27یادداشتوں پر دستخط کر دیے ہیں اور اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے‘ تحریک انصاف سٹپٹا کر حرکت میں آئی ہے اور ماحول خراب کر کے غیر ملکی مہمانوں کو پاکستان آنے سے روکنے کے در پے ہو گئی ہے۔
تحریک انصاف ہو یا اس کے مخالف‘ دونوں کی باتوں کو سو فیصد قبول نہیں کیا جا سکتا‘ نہ ہی سو فیصد جھٹلایا جا سکتا ہے۔ شکایات میں وزن موجود ہے اور الزامات کو بھی مسترد کرنا آسان نہیں ہے۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ تحریک انصاف پاکستان کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے۔ قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی قیادت اس کے پاس ہے۔ خیبرپختونخوا میں اس کی حکومت قائم ہے جبکہ پنجاب میں بھی اس کی طاقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قائد حزبِ اختلاف اسی کے نمائندہ ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے بعد جو واقعات پیش آئے‘ وہ اب کئی برس کو محیط ہیں۔ اس کے احتجاجی اسلوب نے اس کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ عام انتخابات کے دوران شکایات کے جو انبار لگے‘ وہ بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ عمران خان پر درجنوں مقدمات قائم ہوئے‘ ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا کہ وہ جیل میں ہیں۔ ان کی جماعت کے متعدد سینئر رہنما اور کارکن بھی جیلوں میں ہیں۔ ان کی دو بہنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور اہلیہ بھی مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔ یہ سب صورتحال کسی طور اطمینان بخش نہیں۔ پاکستانی سیاست اس طرح کے بحرانوں سے کئی بار گزری ہے‘ کئی رہنماؤں نے مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا ہے۔ سزائیں پائی ہیں اور جیلیں کاٹی ہیں لیکن اپنا راستہ کھوٹا نہیں ہونے دیا۔ جب بھی موقع ملا ہے‘ بات چیت کا دروازہ کھولا ہے اور تلخیوں کو کم کرنے کے لیے کوشاں ہوئے ہیں۔ قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا‘ اسے اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش البتہ ضرور کی ہے اور اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔ صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف کی مثال سامنے ہے‘ دونوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ زرداری صاحب کا عرصۂ اسیری تو ایک عشرے سے بھی زیادہ ہے۔ نواز شریف کو عدالتوں نے جس طرح نشانہ بنایا اور انہیں اقتدار سے باہر نکالا‘ وہ ہماری تاریخ کا ایک انتہائی المناک بلکہ شرمناک باب ہے۔ ان رہنماؤں نے تصادم کے راستے پر چلنے سے انکار کیا اور ناخنِ تدبیر سے اپنا راستہ کشادہ کیا ہے۔ ان کے راستے میں دیواریں کھڑی کرنے والوں کو بالآخر دستار بصد مشکل سنبھالنا پڑی ہے۔ اگر عمران خان بھی اپنی سیاست کو حدود و قیود کا پابند رکھنے میں کامیاب ہو جاتے تو ان کی مشکلات میں بھی اضافہ نہ ہوتا۔ پارلیمانی سیاست کے آداب و اطوار کو نظر انداز کرنے سے وہ حالات پیدا ہوئے ہیں‘ جو ہر پاکستانی کے لیے پریشان کن ہیں۔
عمران خان ہوں یا ان کے مخالف‘ دونوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے۔ ایک دوسرے کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے انہیں کم کرنے کی کوشش دونوں کے مفاد میں ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ خان کی جائز شکایات کا ازالہ کرے‘ ان کی ملاقاتوں پر لگائی گئی پابندیاں ختم کرے۔ ان کے وکیل پنجوتھہ صاحب کا سراغ لگائے کہ انہیں کس نے غائب کیا ہے؟ انہیں برآمد کرانا وزارتِ داخلہ کی اولین ذمہ داری ہے۔ عمران خان پر بھی لازم ہے کہ وہ ردِعمل کا ایسا اسلوب اختیار نہ کریں جس سے ان کے مفادات کو شدید نقصان پہنچ جائے۔ پاکستانی قوم کی بھاری اکثریت سیاست اور قومی مفاد کو الگ الگ رکھنے کی اہمیت بخوبی سمجھتی ہے۔ ذاتی یا سیاسی مفادات کو کسی طور قومی مفاد پر غالب نہیں آنے دینا چاہیے‘ جو رہنما ذاتی طور پر نقصان اٹھا کر بھی اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھتے اور اس کے ساتھ جڑے رہتے ہیں‘ ان کا قد بلند ہوتا ہے اور ان کی مشکلات بھی ختم ہو کر رہتی ہیں۔
چند ہی ہفتے پیشتر پاکستان کا دورہ کرنے والے ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم کی زندگی اس بات کی شہادت دیتی ہے۔ انہیں جن نشیب و فراز سے گزرنا پڑا‘ اس کا تصور ہی دل چیر کر رکھ دیتا ہے۔ برسوں قید رہنے اور انتہائی مکروہ الزامات کی پاداش میں مقدمات بھگتنے والے اس سیاست دان کا راستہ روکا نہیں جا سکا۔ اس کے شدید ترین مخالف اس سے ہاتھ ملانے پر مجبور ہوئے اور عوام کی طاقت نے اسے پھر تخت پر لا بٹھایا۔ برسوں کی جدوجہد اس کے حوصلوں کو توڑ نہیں سکی اور وہ اب پھر نئے عزم کے ساتھ اپنے ملک کو آگے بڑھانے میں لگا ہوا ہے۔
امید کی جانی چاہیے کہ ہم پاکستانی ایک دوسرے کی طاقت بنیں گے اور ایک دوسرے کے انسانی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے قدم آگے بڑھائیں گے۔ اگر پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو مختلف ادوار میں مرنے اور مارنے پر تیار لوگ آج کہیں نظر نہیں آتے۔ اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے والے اب اس دنیا ہی سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ان کے بغیر بھی دنیا چلتی چلی جا رہی ہے :
اٹھے بادہ کش ہزاروں ہوا میکدہ نہ خالی
وہی رنگ ہے بزم کا‘ وہی روز جام چھلکے
آج جو لوگ اپنے آپ کو غیرفانی سمجھتے ہیں‘ وہ بھی اپنی غلط فہمی (یا خوش فہمی) دور کر لیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved