خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں تین روزہ پشتون قومی جرگہ جاری ہے جس کی منصوبہ بندی پچھلے دو ماہ سے ہو رہی تھی۔ اس جرگے کا باقاعدہ کوئی ایجنڈا تو سامنے نہیں آیا تاہم شنید ہے کہ تین روزہ جرگے میں پچھلی دو دہائیوں سے صوبے میں جاری دہشت گردی‘ لاکھوں افراد کی نقل مکانی‘ لاپتہ افراد کے معاملے اور معاشی صورتحال پر تقاریر ہوں گی اور آخری دن مشترکہ اعلامیہ جاری ہو گا۔ قومی جرگے کو امن جرگے کے نام سے بھی پکارا جا رہا ہے۔ قومی جرگے کے مقاصد و مطالبات کیا ہیں؟وفاقی و صوبائی حکومتوں کا جرگے کے انعقاد پر مؤقف کیا ہے؟ ابتدائی بطور پر وفاقی حکومت نے قومی جرگے کو روکنے کی کوشش کیوں کی؟ جرگے کے شرکا کے خلاف کریک ڈاؤن وفاقی حکومت کی ایما پر ہوا یا صوبائی حکومت نے کیا؟ کیا پی ٹی آئی اس جرگے سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے اور یہ کہ پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر قومی جرگے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟ ذیل کی سطور میں ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چند روز قبل پی ٹی ایم نے ضلع خیبر میں تین روزہ قومی جرگے کا اعلان کیا تھا جس کی منصوبہ بندی ابھی جاری ہی تھی اور خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور پنجاب سے عمائدین اس جرگے میں شرکت کے لیے آ رہے تھے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے پی ٹی ایم کو ملک میں امن اور سکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دے کر کالعدم قرار دے دیا گیا۔ وزارتِ داخلہ کی جانب سے پی ٹی ایم پر پابندی کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ 1997ء کے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11بی کے تحت پی ٹی ایم پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا پی ٹی ایم پر پابندی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ پی ٹی ایم نے قومی پرچم جلایا‘ بیرونِ ملک پاکستانی سفار تخانوں پر حملے کیے اور یہ کہ انہیں بیرونِ ملک سے فنڈنگ کی جارہی تھی۔ وزیر اطلاعات کے مطابق پی ٹی ایم کا کالعدم ٹی ٹی پی سے بھی تعلق ثابت ہوا ہے‘ پی ٹی ایم کے حملوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ بھی ساتھ دیتے ہیں ۔ پی ٹی ایم نے اس پابندی کے خلاف پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
پشتونوں کی ثقافت اور معاشرت میں جرگے کا مرکزی کردار ہے۔ یہ ایک روایتی اجتماع ہوتا ہے جس میں قبیلے کے بزرگ اور نمائندے جمع ہو کر مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ جرگے کا مقصد معاشرے میں امن‘ عدل اور انصاف کو قائم کرنا ہوتا ہے۔ جرگے کا آغاز قدیم زمانے میں ہوا تھا جب پشتون قبیلے آزادانہ طور پر زندگی گزارتے تھے۔ جب ان کے درمیان اختلافات اور تنازعات پیدا ہوتے تھے تو ان اختلافات کو حل کرنے کے لیے جرگہ منعقد کیا جاتا تھا۔ جرگے کا فیصلہ ماننا تمام فریقوں پر لازم ہوتا تھا۔ جرگے کا نظام پشتون معاشرے میں مؤثر ثابت ہوا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے پشتونوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات میں کمی آئی۔ اگر کوئی تنازع پیدا ہو بھی جاتا تو اس کا حل جرگے میں تلاش کر لیا جاتا۔ جرگے کے فیصلے عام طور پر انصاف پر مبنی ہوتے تھے‘ اس لیے جرگوں سے پشتون معاشرے میں امن اور استحکام قائم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پشتون معاشرے میں جرگے کا نظام رائج ہے۔ پشتونوں کے درمیان ہونے والے کئی مسائل کا حل آج بھی جرگے ہی میں تلاش کیا جاتا ہے۔ جرگے کے فیصلے عام طور پر پشتونوں کی روایات اور قبیلے کے قوانین پر مبنی ہوتے ہیں لیکن جس طرح پشتون روایات میں جرگے کو اہم تصور کیا جاتا ہے پشتون روایات سے باہر جرگے کو ویسی اہمیت حاصل نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ غیرپشتونوں کی طرف سے اکثرو بیشتر جرگے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے جس کا ایک مظہر ہمیں قومی جرگے سے متعلق اس وقت دیکھنے کو ملا جب قومی جرگے کو قومی عدالت سے تعبیر کیا جانے لگا اور اس پر مختلف طبقات کی طرف سے ردِعمل کا اظہار کیا گیا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ کسی کو متوازی عدالت لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
دیکھا جائے تو جرگے کو روکنے اور پی ٹی ایم پر پابندی سے معاملات مزید الجھاؤ کا شکار ہوئے کیونکہ پی ٹی ایم پر پابندی عائد ہونے کے بعد صوبے کے چیف سیکرٹری کی طرف سے ضلعی انتظامیہ کو پشتون قومی جرگہ روکنے کے لیے کارروائی شروع کرنے کی ہدایت دی گئی۔ حکم ملتے ہی پولیس نے روایتی انداز میں کارروائی کرتے ہوئے جرگے کے شرکا کے کچھ خیمے اپنی تحویل میں لے لیے جبکہ اس دوران موبائل سروس اور انٹرنیٹ سروس بھی متاثر ہوئی۔ پی ٹی ایم الزام عائد کرتی ہے کہ پولیس نے دو بار ان کے خلاف کارروائی کی کوشش کی۔ نو اکتوبر کی صبح ہونے والی کارروائی میں پشتون تحفظ موومنٹ کے تین کارکن جاں بحق اور دس زخمی ہوگئے۔ صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ وفاقی حکومت نے جرگے کے شرکا کے خلاف کارروائی کی، جس کا اسے آئین میں اختیار حاصل ہے۔ پی ٹی ایم کی طرف سے بنوں اور وزیرستان سے جانے والے قافلوں پہ بھی فائرنگ کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر خیبرپختونخوا حکومت نے طلبہ‘ سرکاری افسران اور عام عوام کو متنبہ کیا کہ وہ کالعدم قرار دی گئی پی ٹی ایم کی کسی سرگرمی میں شرکت سے گریز کریں۔ صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ پی ٹی ایم ایک غیرقانونی عدالت لگانا چاہتی ہے اور کالعدم ٹی ٹی پی بھی پی ٹی ایم کے جرگے کی حمایت کر چکی ہے‘ لہٰذا پی ٹی ایم کی حمایت کا مطلب ٹی ٹی پی کی حمایت ہو گا۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے پی ٹی ایم کے ساتھ بیٹھنے والوں کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے پی ٹی ایم پر پابندی کے فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی‘ پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) پی ٹی ایم پر پابندی کے حوالے سے اپنے مؤقف کا اظہار کر چکی ہیں۔ وفاقی حکومت کو جب لگا کہ سیاسی جماعتیں بھی پی ٹی ایم کے قومی جرگے کی حمایت کر رہی ہیں تو خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں وزیر داخلہ محسن نقوی‘ گورنر فیصل کریم کنڈی اور وفاقی وزیر امیر مقام کے علاوہ صوبائی سیاسی جماعتیں شریک ہوئیں۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں جمع ہونے والی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے متفقہ طور پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کا اختیار دیا۔ گرینڈ جرگے کی طرف سے اختیار ملنے کے بعد علی امین گنڈا پور پی ٹی ایم کے قومی جرگے کے میزبان بھی ہیں اور وفاق اور پی ٹی ایم کے درمیان پیام رساں بھی۔ تاہم وزیر داخلہ محسن نقوی نے وضاحت کی ہے کہ پشتون قومی جرگے میں اگر ریاست کے خلاف کوئی بات ہوئی تو اس کی ذمہ داری وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرعائد ہو گی۔
وفاقی حکومت کی تشویش کی وجہ صوبے میں دہشت گردی کے واقعات‘ چینی باشندوں پر دہشت گردانہ حملے اور ایس سی او سربراہی اجلاس کی میزبانی ہے۔ اس موقع پر حکومت کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتی۔ قوم پرست جماعتوں اور صوبائی حکومت کو بھی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ جب چند روز بعد غیرملکی سربراہانِ مملکت پاکستان آئیں تو انہیں کوئی ایسا پیغام نہ جائے جو ملک میں بدامنی یا اندرونی خلفشار کو ظاہر کرتا ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved