تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     01-11-2013

جو دل پہ گزرتی رہتی ہے

کوہستان نمک کے جوار میں بارش برستی رہی اور بہت دور، لاہور کے مشرقی مطلع پر بلّھے شاہ کی آواز مسلسل گونجا کی ۔ علموں بس کریں او یار اکّو الف ترے درکار اسلام آباد پہنچنے کی بے تابی سر پہ سوار تھی مگر طارق چوہدری نے کہا کہ قبرستان جانا ہے ۔فوراً ہی فیصلہ کیا کہ کچھ اور تکان برداشت کی جائے ۔ اس دن سے دل ملال میں تھا کہ جواں مرگ طلحہ کے ساتھ کچھ اور وقت گزارا ہوتا۔ چلو ، اب سہی ! سرکارؐ کا فرمان تو یہ ہے کہ جو تم سے کٹے ، اس سے بھی جڑو۔ رشتے اور تعلقات نبھانے پر کتنا اصرار عالی مرتبتؐ کو رہا کرتا۔ خاندان خدا کو ایسا عزیز ہے کہ اس کی دائم باقی رہنے والی کتاب میں ، جس نے گزشتہ صحیفوں کو منسوخ کیا، صرف اس ایک ادارے کی تفصیلات ہیں۔ حال ہمارا یہ ہے کہ خود اپنے گھروں کے لیے وقت نہیں پاتے ۔ بنیاد بکھرتی رہتی ہے ، جڑ کھوکھلی ہو تی جاتی ہے اور ہم شاخوں کو سنوارنے میں لگے رہتے ہیں ۔ ’’یہ طلحہ کی قبر ہے‘‘ غلام محمد آباد کے تاریکی میں ڈوبتے وسیع و عریض قبرستان میں پہنچ کر میرے بھائی نے کہا ’’یہ ابّا جی کی ، یہ پیر جی (بڑے بھائی) ، یہ محمد رفیق اور یہ ماسی جی‘‘ آنسو امڈے مگر نہ امڈے۔ سب کچھ تو خاک نے سمیٹ لیا۔ باقی کیا بچا، باقی کیا بچا؟ ’’بی بی جی‘‘زیرِ لب میں نے کہا ’’بی بی جی‘‘اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ ذہن پر زور دینے کی کوشش کی کہ والدہ محترمہ کو دنیا سے رخصت ہوئے کتنے برس بیت چکے ۔ سبھی نے ، میری دونوں بہنوں نے بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور اٹھائے رکھے۔ طارق چوہدری تاریخ کا سنجیدہ طالبِ علم ہے اور اس سے زیادہ عصرِ رواں کی سیاست کا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے عزائم پر اس کا تجزیہ سب دوسروں سے مختلف تھا اور وہی درست ثابت ہوا۔کراچی میں فساد کا آغاز ہوا تو اس نے کہا : مجھے اندیشہ ہے کہ اب یہ تھم نہ سکے گا۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا اور ہفتہ بھر کے بعد طارق کی ان سے ملاقات ہوئی تو پلٹ کر اس نے بتایا: جنرل کا لہجہ کہتاہے کہ وہ اقتدار میں رہے گا ۔ حالات بھی ایسے ہیں کہ گرہ کھولنا چاہیں تو بھی کھول نہ سکیں گے ۔ آج اس کاخیال یہ تھا کہ عالمِ اسلام اور مغرب کی کشمکش بڑھتی چلی جائے گی ۔ مسلم دنیا کے رہنمائوں کو احساس اور اندازہ نہیں کہ طوفانوں کے بعد ایک اور طوفان ہے ۔ اس باپ کا شکستہ لہجہ ، جس نے چند روز قبل اپنے فرزند کو کھویا ہے مگر آواز میں وہی استحکام ، وہی یقین ۔ لقمہ دینے کی کوشش کی کہ احادیث میں کچھ اشارے ہیں مگر جب سوچ سمجھ کر وہ بات کرے تو پہاڑی ندی کی طرح بلندی سے گرتاہے اور کشتی اس میں اتر نہیں سکتی ۔ کہنا اس کا یہ تھا کہ پاکستانی سیاستدانوں کو حالات کی سنگینی کا ذرا سا ادراک بھی نہیں ، تیاری تو بہت دور کی بات ہے ۔ خود اپنی پارٹی تحریکِ انصاف کے بارے میں بھی اس کی رائے یہی تھی ۔ چند رو ز قبل اس نے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد جائے گااور کپتان سے صاف صاف بات کرے گا۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک ہے ، جو فقط سامنے کے عوامل سے نتیجہ اخذ نہیں کرتے ۔ دوسروں کے نہیں ، وہ اپنے ذہن سے سوچتاہے اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ دانشوروں اور لیڈروں سے وہ مختلف ہے ، تجزیے کے ہنگام جو اور تو سب ملحوظ رکھیں مگر ذاتِ باری تعالیٰ کو کبھی نہیں۔ اس کے ابدی قوانین کو خال خال۔ کھانا خاموشی سے کھایا گیا اور گاڑی سرپٹ دوڑنے لگی۔ بلال الرشید کو کرید بہت رہتی ہے ۔ تبادلۂ خیال کا موقعہ بھی زیادہ تر سفر میں ملتاہے ۔ وہ سوال کرنے لگا۔ کچھ دیر تو گفتگو جاری رہی ، پھر فیصل آباد ، رحیم یار خان اور لاہور کے قبرستان یاد آئے؛حتیٰ کہ کچھ اور باقی نہ رہا۔ کتنا اہتمام اس مختصر سی زندگی کے لیے ہوتاہے ، کیسی جان توڑ جدوجہد۔ اس دائمی حیات کے لیے کچھ بھی نہیں ۔ جب ایک دوست کا فون آیا تو بی بی جی کا خیال ذہن میں تھا اور وہ ایک جملہ جو ناراضی میں ایک بار اپنے بیٹوں سے انہوںنے کہا تھا ’’میں ان پڑھ ہوں ، جاہل نہیں‘‘ وہ سب انہیں امّی جی کہا کرتے ، مجھ قدامت پسند کے سوا، آپا جی مرحوم مجھ پر ہنسا کرتیں : تم وہی چک 42جنوبی والے ہو ، تمہاری عادات کبھی نہ بدلیں گی ۔ انتقال کے بعد اب میں انہیں ’’بے جی‘‘کہنے لگا ۔آدھی رات کو جب کبھی آنکھ کھلتی ’’بے جی ، میں اکیلا ہوں ‘‘ اپنی اولاد سے بے جی کے تین مطالبے تھے ۔ قرآن پڑھو ، نماز اور جو کچھ زائد ہے ، اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔ آخر عمر ایک جملہ تکیہ ء کلام ہو گیا تھا ’’اللہ کی مخلوق بہت دکھی ہے‘‘ پندرہ برس ہوتے ہیں ، ایک بار میں نے پوچھا : کچھ روپے چاہئیں؟ حیرت سے میری طرف دیکھا اور بولیں ’’خدا کی دنیا محتاجوں سے بھری پڑی ہے ‘‘ طارق چوہدری سچ کہتے ہیں ، چک 42جنوبی سرگودہا کے بعد، بڑا آدمی زندگی میں کم ہی دیکھا ۔وہ اور طرح کے لوگ تھے۔ معمولی پڑھے لکھے مگر عبادت گزار‘ مگر کمال کے کشادہ دست۔ ماموں ابراہیم نے عشا کے بعد غنودہ گھر کے دروازے پر دستک دی ۔ ان کے ہاتھ میں چند گنّے ۔ سویر ان سے پوچھا گیا کہ اس زحمت کی ضرورت کیوں پڑی؟ بولے :بٹائی کی زمین ہے ، آدھی فصل آپ کی ، آدھی ہماری ۔ بچے شام کو کچھ گنے توڑ لائے تھے ۔ جمعہ کے خطبے میں ڈاکٹر نذیر مسلم کی آواز گونجتی تو اس طرح لوگ ہو جاتے ، جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ۔ ریا سے پاک، یکسر پاک۔ سینیٹر طارق چوہدری کے والد حاجی محمد حسین کو تب منشی جی کہا جاتا تھا کہ کبھی استاد رہے تھے ۔ ہوش کی آنکھ کھولی تو ابوالکلام آزاد اور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی سمیت ، ہندوستان کے اکثر مسلم اکابر سے واسطہ رہا۔ رفتہ رفتہ ،بتدریج، تصوف کی طرف مائل ہوتے گئے مگر وہ مجہول تصوف نہیں ، جو تقلید سکھاتا اور عقل چاٹ لیتاہے ۔ ہر عنوان پہ اپنی رائے رکھتے اور ایسی بے باکی کے ساتھ اظہارِ خیال کہ لاہور کے دانشور حیرت کیا کرتے ۔ اس سے بھی زیادہ ان کی حسّ مزاح ۔ ایسا زہد اور ایسی بشاشت۔ رہی سخاوت تو ان کی زندگی ہی میں ضرب المثل تھی ۔ ایسے محاسن کہ سننے والے حیرت زدہ رہ جاتے ۔ بیٹے کے ملازم نے کہا : میاں جی ، یہ کوہِ مری کیا ہے ؟ بولے سامان اٹھالائو اور ہمارے ساتھ چلو۔ سب سے چھوٹے فرزند مشتاق نے پوچھا : کون سے آم خرید لائوں ؟ کہا : جو سب سے مہنگے ہوں ،ظاہر ہے ، وہی اچھے ہوں گے ۔ جوانی میں دوستوں کی ضیافت کے لیے آموں کا پورا باغ خرید لیا کرتے اور دودھ کے لیے ایک عدد گائے۔ رئیس نہ تھے ،فقط سفید پوش۔ درویش نے کہاتھا: کردار ایک شخصی چیز ہے ۔ خاندان یا قبیلے کا نہیں ہوتامگر یہ بھی کہا: قبائل اور خاندانوں کے رجحانات ہوتے ہیں اور ان سے چھٹکارا کم ہی۔ طارق چوہدری اگر اس قدر بے باک ہے تو اس میں تعجب کیا؟ میاں محمد خالد حسین عمر بھر روپے کو اگر ہاتھ کا میل نہ سمجھتے تو اور کیا سمجھتے ۔ آخر کو میں نے یہ سوچا: ادراک اگر عمل میں نہ ڈھلے تو علم کیا؟ تقلید ہی ا گر شعار رہی تو علم کیا؟ زیادہ تعلیم یافتہ وہ نہیں تھے مگر آزاد جیے۔ بے نیاز جیے ۔ بہت کتابیں پڑھ کر ہم نے کیا پایا؟ کوہستان نمک کے جوار میں بارش برستی رہی اور بہت دور، لاہور کے مشرقی مطلع پر بلّھے شاہ کی آواز مسلسل گونجا کی ۔ علموں بس کریں او یار اکّو الف ترے درکار

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved