چھوڑیں سیاسی کشمکش اور آئینی ترامیم کے جھگڑوں کو‘ چلو چائے پیتے ہیں۔
ملک کے طول وعرض میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں چائے نہ پکتی ہو۔ پکتی کا لفظ چائے کے ہمارے مخصوص ذائقے کے پیش نظر استعمال کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں تو چائے بنائی یا تیار کی جانی چاہیے۔ مفرح‘ خوش ذائقہ‘ خوش رنگ اور معطر چائے کی پیالی کے لیے اچھی پتی ضروری ہے‘ جو ہمارے ہاں ملنی محال ہے۔ چند کمپنیوں کی اجارہ داری ہے جو مختلف معیار کی چائے زیادہ تر کینیا‘ ویتنام‘ روانڈا اور یوگنڈا سے بوریوں میں درآمد کرتی ہیں۔ پھر اپنے کارخانوں میں مکسنگ کرکے اپنے اپنے منفرد برانڈ کے ڈبوں میں بھر کر بازار میں فروخت کرتی ہیں۔ معیار سب کا ایک ہی ہے‘ لیکن تشہیر کے لیے سب کا انداز مختلف ہے۔ اس میں زور کڑک چائے پر ہے۔ لوگ بھی تیز پتی کا مطالبہ کرتے ہیں‘ اور جہاں بھی چائے کا آرڈر دیں‘ یہ کہنا نہیں بھولتے کہ چائے ذرا تیز بنانا۔ کئی عجیب وغریب عادات‘ ذائقے اور دلچسپیاں ہمارے عوامی کلچر کا حصہ بن چکی ہیں جس میں ہماری مخصوص چائے نوشی کی بڑھتی ہوئی عادت سرفہرست ہے۔ مخصوص اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جو چائے ہمارے ڈھابوں‘ ہوٹلوں اور یہاں تک کہ مہنگے شہری کیفے میں ملتی ہے‘ ایسی دنیا کے شاید ہی کسی اور ملک میں تیار کی جاتی ہو۔ برصغیر میں چائے کا کلچر انگریزوں نے متعارف کرایا تو ان کے پیش نظر مالیاتی فوائد تھے۔ اسی طرح تمباکو اور دیگر مصنوعات کے ساتھ چین اور ہمارے ہاں افیون کی فروخت کو بھی انہوں نے ہی فروغ دیا۔ سامراجیت کے جبر میں محکوم قوموں نے حکمرانوں کے طرزِ زندگی کو اختیار کر کے معتبر بننے کی کوشش میں اپنا سب کچھ گنوا دیا ہے۔ چائے کو تجارتی اور صنعتی پیمانے پر انگریز حکومت نے اپنی نوآبادیوں میں موسم کے لحاظ سے موزوں علاقوں میں کاشت کرانا شروع کیا اور چائے کو زیر تسلط ممالک میں اجارہ داری قائم کر کے فروخت کیا۔ انڈیا میں کاشت ہونے والی چائے وہ امریکی ریاستوں تک میں فروخت کیا کرتے تھے‘ اور جہاں جہاں ریاستی اثر اور منڈیوں تک رسائی تھی‘ چائے نوشی کو متعارف کرایا۔
برطانیہ یا امریکہ میں لوگ چائے اس طرح نہیں تیار کرتے جس طرح ہمارے گھروں اور ڈھابوں میں پکائی جاتی ہے۔ انگریزی تہذیب میں تو چائے نوشی کا ایک سلیقہ ہے جو ہمارے ہاں دیکھنے نہیں آتا۔ یہاں برصغیر میں مقیم اپنے افسروں کے بڑے بڑے چمن زاروں میں میز کرسیاں لگا کر گھر کے افراد یا دوستوں کے درمیان چائے دانی سے کالی چائے پیالی میں انڈیلتے اور اکثر بغیر دودھ کے اس کی خوشبو اور ذائقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ایک عرصہ تک ہمارے ملک میں چائے نوشی کی یہ نفاست اشرافیہ اور متوسط طبقوں اور دانشوروں میں قائم رہی۔ طالب علمی کے زمانے میں کئی سالوں تک پاک ٹی ہائوس میں چائے پینے کا موقع ملا۔ سٹیل کی کیتلیوں میں پتی اور ابلتا ہوا پانی کچھ دیرکے لیے بند رکھا جاتا۔ جب اس کی خوشبو آپ کے ماحول کومعطر کرنا شروع کرتی اور آپ پیالی میں ڈالتے‘ شکر اور دودھ علیحدہ سجائے جاتے۔ ایک عرصہ تک اہلِ ذوق کو خالص چائے نوش کرتے دیکھا۔ وہ چینی اور دودھ کی ملاوٹ نہیں کرتے تھے۔ ہم اہلِ ذوق نہ سہی مگر اچھی چائے کے شوقین ہمیشہ سے رہے ہیں اور ہم بھی ملاوٹ کے خلاف ہیں۔ حال ہی میں ایک مرتبہ پاک ٹی ہائوس پرانی یادیں کھینچ کر لے گئیں تو مشین کی ٹونٹی سے برآمد ہونے والا محلول کاغذ کی پیالی میں تھما دیا گیا اور اسے چائے قرار دے کر سو روپے لے لیے گئے۔ اس ''چیز‘‘ کو ناصر کاظمی کی تصویر کے سامنے میز پر رکھ کر کچھ دیر تک سوچتا رہا‘ اور پھر اس پر مزید کوئی کارروائی کیے بغیر باہر نکل آیا۔ بہتر تو یہ تھا کہ جب بند پڑا تھا تو بند ہی رہتا۔ شاعروں اور ادیبوں کی تصویر لگا کر قومی ورثے کو کسی کاروباری ٹھیکے دار کے حوالے کرنا ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔
ہماری نسل کے لوگ جانتے ہیں پاک ٹی ہاؤس کے ساتھ کونے میں ایک چھوٹا سا چائے خانہ تھا‘ بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی‘ کاؤنٹر کے پیچھے ایک بابا چائے تیار کرتا تھا جس کی چائے پورے لاہور میں مشہور تھی۔ چائے بنانے میں عجلت سے کام نہیں لیتا تھا۔ بڑے سلیقے سے سٹیل کی کیتلی کو صاف رکھتا۔ ہر کپ کے لیے نئی پتی ڈال کر اسے کچھ دیر دم دیتا۔ جب تسلی ہو جاتی کہ رنگ‘ ذائقہ اور خوشبو پیدا ہو گئی ہے تو آپ کو گرم دودھ الگ کیتلی میں ڈال کر دیتا۔ اس وقت کے لاہور کے ہر نامور ریستوران اور کیفے میں‘ جو سب مال روڈ پر تھے‘ چائے سلیقے سے تیار ہوتی تھی۔ تب اس کا رواج دیہات میں نہیں پھیلا تھا اور گھروں میں دن کا آغاز چائے سے نہیں ہوتا تھا۔ اب تو پہاڑوں سے لے کر صحراؤں تک‘ جس طرف جائیں کھانے کو کچھ ملے نہ ملے‘ چائے کا کھوکھا ضرور نظر آئے گا۔ شہروں میں تو چائے خانوں نے خوب رنگ جمایا ہے۔ خوشی تو اس بات کی بھی ہے کہ لوگوں کو کوئی جگہ مل بیٹھنے‘ دکھ درد بانٹنے اور گپ شپ کا موقع ملتا ہے۔ ہمارے شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ میں تفریح کے لیے کچھ نہیں بنایا گیا۔ کہیں بھی مقامی ثقافت اور طرزِ تعمیر کا عکس نظر نہیں آتا۔ ان میں سوائے چکن فروشی اور برگر گردی کے اور کچھ نہیں۔ ریستوران اور کیفے کے نام دنیا کے ہر ملک کے مشہور پکوانوں اور شہروں پر ہیں‘ مقامی ثقافت عالمیت کے گہرے سائے میں دم توڑ چکی ہے۔ اس طرح کافی بھی مل جاتی ہے‘ بلکہ جن جگہوں کا طواف ہماری نودولت مند کلاس کرتی ہے اب وہاں قطار اندر قطار کافی ہائوسز ہیں۔ باہر کے عجیب وغریب ناموں کی تختیوں کے ساتھ کافی کا ایک کپ کئی سو روپے میں ملتا ہے۔ خریدنے والوں کا رش لگا رہتا ہے۔
اکثر ہم دور سے گزر جاتے ہیں۔ کبھی کبھار اپنے کافی کے دور کی عادت سے مجبور کرسی سنبھال لیتے ہیں۔ کافی اب بھی پینے کو جی چاہتا ہے لیکن جو ہم پیتے ہیں یہاں ملتی نہیں اور یہ شوق برطانیہ یا امریکہ جانے کا موقع ملے تو وہاں پورا کرتے ہیں۔ کافی کے شوقین اور دانشورانہ گفتگو کرنے والے ہمارے دوست باہر ہی رہ گئے ہیں۔ سوچتا ہوں یہاں جنگل کے ایک درخت کے نیچے میز لگا کر کافی کا نیا ذوق متعارف کرائوں لیکن ڈر ہے کہ اس کی خوشبو سے مسحور ہو کر کہیں پرندے اس پر نہ ٹوٹ پڑیں۔ لوگوں میں تو یہاں کافی کا ذوق سرے سے ہے ہی نہیں۔
چائے کی بات ہو رہی تھی کہ اس کا سلیقہ اب وہی ہے جو آپ کو ہر وقت چولہے پر ابلتے برتن میں چائے‘ پتی‘ دودھ اور چینی کی آمیزش کی صورت میں نظر آتا ہے۔ چائے بنتی اور لوگوں کو ایسی چائے پینے کا منظر دیکھنے کے لیے کبھی کبھار بازاروں کی طرف نکل جاتا ہوں۔ دیہات میں چائے کا موقع ملے تو منظر اور بھی پُررونق ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پوری آبادی کام کاج سے فارغ ہے‘ سب ریٹائر ہو چکے ہیں اور وقت گزاری کا صرف ایک ہی ذریعہ رہ گیا ہے کہ کھوکھے یا ہوٹل پر بیٹھ کر پیالی پر پیالی اڑائیں‘ گپ شپ کریں اور جب سورج ڈھلے تو گھر چلے جائیں۔ اب ہم میں کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہیں کہ چائے میں چینی ڈالنے کی کیا ضرورت ہے‘ دودھ مکس نہ کرنے کی فرمائش کرنا تو دور کی بات ہے۔ دراصل انگریز بہادر اپنی مصنوعات بیچنے میں بہت ہوشیار تھا۔ یہ دودھ اور چینی کی آمیزش کی ترغیب شروع میں چائے کی مارکیٹنگ کے لیے دی گئی تاکہ کالی چائے دیہاتیوں کو ناگوار نہ لگے۔ اب یہ ملغوبہ ہماری کڑک اور ذائقہ دار چائے کہلاتا ہے۔ کہیں بھی جائیں‘ اس سے بچنا محال ہے۔ کوئی مہمان آ جائے تو بھی یہی ہوتا ہے۔ اصل چائے اور کافی تو اب تنہائی میں ہی نصیب ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved