حضرت قائداعظم نے یہ ملک روشن جان کے لیے بھی بنایا تھا۔ تب روشن جان صرف 11 سال کی تھی۔ اُس نے قائداعظم کے کہنے پر ایشیا کی سب سے بڑی ہجرت میں حصہ لیا۔ 'لے کے رہیں گے آزادی‘ کا نعرہ لگایا اور پھر آزادی لے کے دکھا دی۔ اب اپنی عمرِ رواں کے 84ویں سال میں روشن جان اس بات پر حیران ہے‘ پریشان ہرگز نہیں کہ ریاستی طاقت ایک نہتے قیدی کی روح تبدیل کرنے پر زور لگا رہی ہے۔ روشن جان کا ایمان ہے کہ وہ قیدی کیسے تبدیل ہو سکتا ہے جو خود تبدیلی کا چلتا پھرتا نشان ہے۔ اُس قیدی کو کمرے کے ساتھ چھوٹی سی راہداری میں بھی چلنے پھرنے کی اجازت نہیں رہی۔ اُس کے سیل سے ورزش والی سائیکل اُٹھا لی گئی تاکہ اُسے جسمانی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ اُس کی دوائیاں ضبط‘ ڈاکٹر کا مریض تک رسائی کا دروازہ بند ہے جبکہ جیل کے عملے کی قیدی سے بات چیت پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ اگر یہ رپورٹ شدہ خبریں غلط ہوتیں تو اُس کے ڈاکٹر کو جیل کا کوئی اہلکار اپنی گاڑی میں بٹھا کر اُس کے سیل تک لے جاتا۔ یا اُس کی بہادر بہنوں‘ عظمیٰ خان اور علیمہ خان کو جو بھائی کے اَن گنت مقدمات کی پیروی کرتے کرتے خود بھی ضمیر کی قیدی بنا لی گئیں‘ اڈیالہ کے قیدی کی دونوں بہنوں کو جو اَب خود بھی بندی خانے میں ہیں‘ بھائی سے ملاقات کروا دیتا۔ ایسا نہ ہونا تھا‘ نہ ہونے دیا جائے گا۔ اس وقت عمران خان کے چاہنے والے جان بوجھ کر مشتعل کیے جا رہے ہیں کیونکہ اُنہیں اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں کہ کسی قیدی کے ڈاکٹر یا بہن سے ملاقات سے سکیورٹی کیسے Breach ہو جائے گی۔ اگر ڈاکٹر کو قیدی نمبر 804 کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تو کیا طوفان آ جائے گا۔ قیدی بھائی کی بہنوں نے خیریت پوچھ لی تو کیا نقصان ہو جائے گا۔
پنجاب اور مرکز کی حکومتوں نے عمران خان سے ملاقات نہ کرانے کے لیے اَن دیکھے خطرات کے علیحدہ علیحدہ نوٹیفکیشن نکالے ہیں۔ لیکن ایسے فرضی اور سیاسی آرڈر نکالنے کا ایک اثر لازماً ہوتا ہے کہ یہ لوگ ریاست کو Comedy Character بنا کر پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ جن عام لوگوں کے پاس ایلیٹ مافیا کی منی لانڈرنگ لیڈرشپ کی طرح‘ دور دیس کے ملکوں میں دوسرے گھروں کا آپشن موجود نہیں اُن کی کیفیت ان دنوں اپنے گھرمیں بیٹھ کر ایسی ہو چکی ہے:
اپنے کمرے کی جالیوں کے پرے اپنا نام اجنبی سا لگتا ہے
سارے دن جیسے جن پکارتے ہیں دل پہ عفریت سینگ مارتے ہیں
یوں چمکتی ہے غم سے اک اک آنت‘ جیسے راتوں میں بھتنیوں کے دانت
دل میں تابوت سے اتارتی ہیں‘ فائلیں قبر کو پکارتی ہیں
آنکھ پرمُہر‘ ہونٹ پر تالے‘ ذہن میں عنکبوت کے جالے
نہ کوئی اپنا فن‘ نہ اپنا کرافٹ‘ غیر کے واسطے ہر ایک ڈرافٹ
غیر کی شکلِ خاص کا غازہ‘ غیر کی مرحمت کا خمیازہ
غیر کا مکر‘ غیر کا اخلاق‘ غیر کے عشق کا سیاق وسباق
کیا اسی دن کے واسطے ہم نے
مرحلے طے کیے تھے برسوں کے؟
فرعون ساری دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عبر ت کی مثال بن گیا۔ وہ مصر میں مرا ہوا پڑا ہے۔ اس کے باوجود وہ مصری حکومت اور عوام کو ہر سال اربوں روپے کما کر دیتاہے۔ لیکن یہاں والے ہر سال اربوں روپے کھا جاتے تھے لیکن ان کی خُو میں کمی کا لفظ غائب تھا۔ دو ہفتوں میں پنڈی‘ اسلام آباد اور پوٹھوہار کے شہری تیسری دفعہ چار دن کے لیے بڑی جیل میں قید کر دیے گئے۔ اس نئے لاک ڈائون کے تین مقاصد شہرِ اقتدار میں گردش کر رہے ہیں۔
جبری لاک ڈائون کا پہلا مقصد: میڈیا کے ذریعے حکمران بتا رہے ہیں کہ موجودہ سرکار شنگھائی سمٹ کے بینر تلے لاک ڈائون کر رہی ہے لیکن باخبر لوگ جانتے ہیں کہ اس سمٹ کو صرف شاہراہ دستور کی مشرقی جانب منعقد ہونا ہے۔ باقی راسے بند کرنے کی کیا تُک بنتی ہے؟ لاک ڈائون کا اصلی مقصد ''اصلی آپریشن‘‘ پر پردہ ڈالنا ہے۔
جبری لاک ڈائون کا دوسرا مقصد: یہ مقصد تین دن کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں انصاف کے دروازے پر تالا لگانا ہے تاکہ PTI کے جن MNA's اور سینیٹرز کو اغوا برائے ووٹ کا شکار بنایا جا رہا ہے عدالت انہیں تحفظ نہ دے سکے اور اُن کی گمشدگی کا نوٹس بھی نہ لے سکے۔
جبری لاک ڈائون کا تیسرا مقصد: یہ مقصد کھلے عام ہر روز وہ ٹولی بیان کرتی ہے جسے پچھلے چار سلیکشن میں سندھ کی حکومت تحفے میں دی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ اب اُنہیں نئی ڈیل دی گئی ہے کہ تم آئینی ترمیم کروا دو‘ ہم تمہارا وزیراعظم بنا دیں گے۔ اس پہ ذرا غور کریں کہ آئینی ترمیم کے بارے میں (ن) لیگ کی زبان پر تالے کیوں پڑے ہیں۔ (ن) لیگ کو خطرہ ہے ادھر دستور بدلا اُدھر وزیراعظم نیا آ جائے گا۔
پچھلے تین سال سے ہر وقت چوہے اور بلی کے کئی کھیل کھیلے گئے ہیں جبکہ قوم کو اُلو بنانے کا منترا ہے کہ استحکام واپس آ گیا۔ اگر استحکام کسی گھریلو ملازم کا نام ہے جو چھٹی پہ گائوں گیا تھا تو وہ یقینا واپس آ گیا ہو گا۔ ریاستی استحکام تب آئے گا جب ریاست میں دستوری راج آئے گا۔ دستورکے نیچے سرکار اور اُس کے درباریوں کو رویے بدلنا ہوں گے ورنہ روشن جان پھر آ جائے گی۔روشن جان آتی رہے گی۔
شام ڈھلے جب یہ وکالت نامہ لکھا جا رہا ہے اصلی سرکار کے درباری ہرکارے ہانپتے کانپتے مختلف دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ قیدی نمبر 804 سے ملاقات کے بدلے 15 اکتوبر کے احتجاج کی کال واپس لینے کے لیے۔ پہلے خان کے سامنے ترلا کیا گیا اب ترلا ٹکّے ٹوکری کے ریٹ پر گر گیا۔ ریکارڈ کے لیے عرض ہے آئین میں پہلی ترمیم اور اٹھارہویں ترمیم‘ دونوں PPP کے دور میں ہوئیں۔ اگر متوازی آئینی عدالت قائم کرنا ہوتی تو تب آسان موقع تھا۔ تسلی رکھیں‘ بچے کے وزیراعظم بننے کے غبارے کی ہوا اُسی طرح نکلے گی جیسے جنرل ضیا کا نام آئین سے خارج ہوا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved