شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (SCO) ایک اہم علاقائی تنظیم ہے جو اس خطے کے سیاسی‘ اقتصادی اور سلامتی کے منظر نامے کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ بین الحکومتی تنظیم 2001ء میں قائم ہوئی تھی جو اپنے رکن ممالک کے درمیان سیاسی‘ اقتصادی اور سلامتی سے متعلق تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ ایس سی او میں چین‘ روس‘ پاکستان‘ بھارت اور کئی وسطی ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ اس تنظیم کا جنم ''شنگھائی فائیو‘‘ میکانزم سے ہوا تھا۔ یہ گروپ 1996ء میں چین‘ روس‘ قازقستان‘ کرغزستان اور تاجکستان نے تشکیل دیا تھا۔ اس گروپ نے ابتدائی طور پر سرحدی تنازعات کو حل کرنے اور فوجی معاملات میں باہمی اعتماد کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کی لیکن جلد ہی یہ علاقائی تعاون کے لیے ایک وسیع پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر گیا۔ 2001ء میں ازبکستان اس گروپ میں شامل ہوا اور شنگھائی میں ایس سی او کے باقاعدہ قیام کا اعلان کیا گیا۔ تنظیم کے مینڈیٹ میں سکیورٹی‘ اقتصادی اور ثقافتی تعاون کا احاطہ کیا گیا‘ جو خطے کے پیچیدہ جغرافیائی سیاسی ماحول میں باہمی انحصار کی عکاسی کرتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنے قیام سے لے کر اب تک کئی اہم اقدامات کیے‘ جنہوں نے اس اتحاد کو ایک ڈھیلے سکیورٹی اتحاد سے ایک کثیر جہتی تنظیم میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس وقت اس اتحاد نے اقتصادی تعاون‘ سیاسی استحکام‘ دہشت گردی‘ انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سے نمٹنے میں مشترکہ کوششوں کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے خطے میں اس کی اہمیت اس وقت بڑھ گئی جب 2017 ء میں بھارت اور پاکستان کو شامل کرنے کے لیے رکنیت کی توسیع کی گئی‘ جس نے عالمی سطح پر اس تنظیم کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو اجاگر کیا۔
وسطی ایشیا قدرتی وسائل خصوصاً تیل اور گیس کے وسائل سے مالامال ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم توانائی کی تقسیم اور وسائل کے انتظام میں تعاون پر مبنی معاہدوں کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس طرح کے اقدامات چین جیسے توانائی استعمال کرنے والے بڑے ملک اور قازقستان اور ازبکستان جیسے توانائی سے مالامال ممالک کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند ہوں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کی سرگرمیوں کے سماجی واقتصادی اثرات گہرے ہیں‘ خاص طور پر تجارت‘ انفراسٹرکچر اور سکیورٹی کے حوالے سے ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ علاقائی اقتصادی تعاون پر شنگھائی تعاون تنظیم کا زور اس کے اراکین کے لیے اہم مواقع پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ تجارتی راہداری‘ جیسا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے ذریعے فروغ پانے والے رابطے کو بہتر بنانے اور نئی منڈیاں کھولنے کے لیے کوشش ہو رہی ہیں۔ وسطی ایشیا کے خشکی سے گھرے ہوئے ممالک بہتر انفراسٹرکچر سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں‘ جو انہیں چین‘ روس‘ پاکستان اور بھارت جیسی بڑی معیشتوں سے جوڑتا ہے۔ روزگار کی تخلیق اور غربت میں کمی‘ انفراسٹرکچر‘ توانائی کے منصوبوں اور تجارت میں سرمایہ کاری ممکنہ طور پر اس خطے میں لاکھوں ملازمتیں پیدا کر سکتی ہے‘ جس سے پسماندہ علاقوں میں غربت میں کمی ہو سکتی ہے۔ وسطی ایشیا خاص طور پر غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمد‘ مقامی معیشتوں کو فروغ دینے اور تعمیرات‘ نقل وحمل اور لاجسٹکس جیسے شعبوں میں روزگار کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ دوسری طرف سلامتی اور استحکام‘ دہشت گردی‘ علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی سے نمٹنے پر ایس سی او کی توجہ سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے‘ جس کے نتیجے میں ایک بہتر اقتصادی ماحول پیدا ہوتا ہے۔ استحکام غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتا ہے‘ سیاحت کو فروغ دے سکتا ہے اور رکن ممالک کو طویل مدتی سماجی واقتصادی ترقی کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنے کے قابل بنا سکتا ہے۔ تاہم چیلنجز باقی ہیں۔ رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تفاوت‘ سیاسی رقابتیں اور مختلف مفادات‘ خاص طور پر پاکستان‘ بھارت اور چین کے درمیان ایس سی او کی آسانی سے کام کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ تنظیم کی تاثیر کو برقرار رکھنے کے لیے ان مفادات کو متوازن کرنا ضروری ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو 2017ء میں شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت کو اہم قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان اور تنظیم دونوں کے لیے اسے اہم سنگِ میل کہا گیا۔ اُس وقت ایس سی او پاکستان کے لیے اپنے سفارتی اثر ورسوخ کو بڑھانے‘ پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو گہرا کرنے اور علاقائی سلامتی کے مسائل میں اپنے کردار کو بڑھانے کے لیے ایک پلیٹ فارم پیش کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اسی طرح اس وقت پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اسے ایس سی او میں ایک سٹرٹیجک شراکت دار بناتا ہے۔ یہ وسطی ایشیا‘ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے درمیان اہم رابطے کے طور پر کام کر سکتا ہے جو اہم تجارتی راستے اور توانائی کی راہداری فراہم کرنے میں سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ یہی بات سکیورٹی تعاون پر بھی صادق آتی ہے۔ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات میں بھی ایک کلیدی پلیئر ہے۔ اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے اپنے تجربے کے ساتھ پاکستان ایس سی اوکے علاقائی انسدادِ دہشت گردی کے ڈھانچے میں مہارت لاتا ہے۔ ایس سی او اقتصادی تعاون پاکستان کو چین اور روس جیسی بڑی علاقائی طاقتوں کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ تنظیم کی علاقائی روابط اور تجارت پر توجہ پاکستان کو نئی منڈیاں کھول کر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرکے اپنے معاشی چیلنجوں پر قابو پانے میں مدد دے سکتی ہے۔ تاہم شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شرکت چیلنجز بھی پیش کرتی ہے‘ خاص طور پر تنظیم کے فریم ورک کے اندر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو منظم کرنے میں دونوں ممالک کی دیرینہ مخاصمت ہے اور دو طرفہ تناؤ کو دور کرتے ہوئے تعمیری مصروفیات کو برقرار رکھنے کے لیے محتاط سفارت کاری کی ضرورت ہے۔
ایس سی او یوریشیائی خطے میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے‘ متنوع ثقافتی اور سیاسی پس منظر سے تعلق رکھنے والے ممالک کو اکٹھا کرتا ہے۔ ایس سی او یوریشین کنیکٹیوٹی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘ خاص طور پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے جو خطے کے لینڈ لاکڈ ممالک کو بین الاقوامی منڈیوں سے جوڑتے ہیں۔ یہ رابطہ خطے کی معاشی خوشحالی کے لیے نا گزیر ہے۔ اس وقت اس تنظیم کی کامیابی کا انحصار علاقائی مفادات میں توازن پیدا کرنے والے ممالک کے متنوع مفادات میں توازن پیدا کرنے کی صلاحیت پر ہو گا۔ چین اور روس کے ساتھ دوسری سرکردہ طاقتوں کے ساتھ‘ چھوٹی ریاستوں کے مفادات کا احترام کرنے والے تعاون پر مبنی جامع طرزِ عمل کو برقرار رکھنا ضروری ہو گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایک متحرک اور کثیر جہتی ادارے کے طور پر بنایا گیا ہے‘ جو پورے یوریشیا میں گہرے تعاون کو فروغ دینے کا عزم ظاہر کر رہا ہے۔ اس کا مستقبل رکن ممالک کے اقتصادی انضمام‘ سکیورٹی تعاون اور ثقافتی تبادلے کے شعبوں میں مل کر کام کرنے کی صلاحیت سے تشکیل پائے گا۔ پاکستان تنظیم کے اندر تیزی سے فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ایس سی او کی سماجی واقتصادی استحکام کو بڑھانے اور علاقائی روابط کو فروغ دینے کی صلاحیت بیشک مسلسل بڑھ رہی ہے‘ تاہم جغرافیائی سیاسی رقابتیں‘ اقتصادی تفاوت‘ پاک بھارت تعلقات اور سلامتی کے خطرات جیسے چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ تعاون کو فروغ دیتے ہوئے ان مسائل سے نمٹنا ایس سی او کی مسلسل کامیابی کی کلید ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved