تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     01-11-2013

جہنم کی آگ

پیغمبر اسلام ﷺ نے حج کے موقع پر اپنے آخری خطبے میں فرمایا تھا۔ ’’جو لوگ میری بات سن رہے ہیں میرے الفاظ کو دوسروں تک اور وہ آگے دوسروں تک پہنچا دیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ آخری لوگ‘ براہ راست میرے الفاظ سننے والوں سے بہتر انداز میں میری بات سمجھیں ۔یا اللہ گواہ رہنا میں نے تیرا پیغام من و عن تیرے بندوں تک پہنچا دیا ہے‘‘۔ رفیق الرحمن ان آخری لو گوں میں سے ایک تھا جو شمالی وزیرستان سے اپنے بچوں سمیت واشنگٹن آیا‘ اس نے ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے پاکستان پر ڈرون حملوں کی مخالفت کی اور خدا کے رسولﷺ کی نصیحت پر عمل کیا ۔رفیق کوئی عالم دین نہیں تھا۔ وہ علاقے کے بچوں کو پڑھاتا تھا اور انتہا پسندوں سے ناواقف‘ اس نے کانگرس کے ارکان سے پوچھا کہ اس کی بوڑھی ماں کا کیا قصور تھا کہ جہنم کی آگ جیسے نام کا ایک میزائل براہ راست اسے لگا اور اس کی جان لینے کے علاوہ اس کے دو بچوں کو زخمی کر گیا۔ حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ ’’کسی کو نقصان نہ پہنچانا تا کہ کوئی تمہیں نقصان نہ پہنچائے‘‘ اور رفیق نے یہی نصیحت پلے باندھ رکھی تھی ۔ ملالہ‘ نواز شریف‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اب رفیق الرحمن‘ ایسا لگتا ہے کہ وائٹ ہاؤس پر بین الاقوامی دباؤ اس قدر بڑھ گیا کہ واشنگٹن‘ پاکستان پر ڈرون حملوں کو محدود کر رہا ہے ۔ کانگرس نے رفیق‘ اس کی نو سالہ بیٹی نبیلہ اور تیرہ سالہ بیٹے زبیر کا انتخاب ایمنسٹی کی اس رپورٹ سے کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ہم ہیل فائر میزائل کے دوہرے حملے کا کوئی جواز نہیں پا سکتے‘‘ جس نے 67سالہ مومنہ بی بی کی جان لی اور جس نے نبیلہ اور زبیر سمیت اس کے آٹھ پوتوں اور نواسوں کو مجروح کیا ۔یہ شمالی وزیرستان پر سی آئی اے کے ان 45 حملوں میں سے ایک تھا جو جنوری 2012ء اور اگست2013ء کے درمیان کئے گئے اور جن کا جائزہ ایمنسٹی نے لیا ۔ہر چند کہ قبائلی علاقے کو انتقام کی سر زمیں سمجھا جاتا ہے مگر رفیق نے اپنے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق‘ اپنی ماں کے قتل کا بدلہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ’’یہ اسلام ہے جو مجھے انتقام کے خیال کو دل میں جگہ دینے سے روکتا ہے ۔ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور کسی کے قصور کی سزا دینے کا اختیار ہمیں نہیں ہے‘ آپ نقصان کا ازالہ نقصان پہنچا کر نہیں کر سکتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکی عوام ہم سے برابری کا سلوک کریں‘‘۔ مومنہ بی بی اپنے گا ؤں ٹپی میں دایہ کا کام کرتی تھی ۔زبیر کو دادی سے پیار تھا ۔وہ اس کے کھیت میں چند گز کے فاصلے پر کھڑا تھا اور وہ نبیلہ کو سمجھا رہی تھی کہ بھنڈی‘ توری کو توڑنے کا وقت کب ہو گا ؟ زبیر نے پشتو میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ بڑی عید قریب تھی اور وہ بہت خوش تھا کہ اتنے میں یہ حملہ ہو گیا۔ اس واقعہ کو ایک سال گزر چکا ہے مگر سوگوار کنبے کو اب تک معلوم نہیں کہ ان کے گھر کی بزرگ عورت کو کیوں مارا گیا ؟ کمیٹی کی اس سماعت کے بعد ڈرون زدہ کنبے کو فلو ریڈا کے ڈیمو کریٹ ایلن گریسن سے ملوایا گیا اور رابرٹ گرینوالڈ بھی ان کے ہمراہ تھے جنہوں نے ڈرون حملوں سے بے گناہ عورتوں اور بچوں کے زیاں پر ایک دستاویزی فلم تیار کی ہے جو بدھ کو ریلیز ہوئی ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کانگرس نے ڈرون حملوں کے خلاف ایک متاثرہ کنبے کی آواز سنی اور توقع کی جاتی ہے کہ اس کے بعد وہ جو رائے قائم کرے گی اوبامہ انتظامیہ پر اثر انداز ہوگی ۔رفیق کا بیان نسبتاً فراخ دلی کا مظہر تھا جس نے کہا کہ ’’اسے امریکیوں سے کوئی گلہ نہیں ۔وہ ہماری طرح ہیں وہ دل سے ہماری بات سنیں گے۔ میں جھوٹ نہیں بولوں گا‘‘۔ رفیق نے نظریں نیچی رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں رنجیدہ تھا کیونکہ یہ بے انصافی تھی ۔میں نے اس کے بارے میں سوچا ۔ میں نے سوچا پاکستان میں بھی اچھے بُرے لوگ موجود ہیں ۔یہ امریکی نہیں امریکی حکومت ہے ۔یہ سیاست ہے‘‘۔ وہ اپنی حکومت کو بھی پوشیدہ طور پر ڈرون حملوں کی اجازت دینے پر مطعون کرتا ہے ۔ پہلی بار وہ مسکرایا اور اس نے کہا۔ ’’واشنگٹن کی گلیاں پکی ہیں اور چیزیں نسبتاً صاف ستھری ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں‘‘ ۔ زبیر کو وہ المناک دن اچھی طرح یاد ہے ۔پاکستان کے قبائلی علاقے میں آسمان اکثر نیلا رہتا ہے اور اسے نیلا آسمان پسند ہے ۔ بغیر پائلٹ امریکی طیارے ایسے ہی موسم میں پرواز کرتے ہیں ۔ اس وقت تک یہ منظر اس کا معمول بن چکا تھا۔ اسے ڈرون جہازوں سے ڈر نہیں لگتا تھا ۔وہ یا اس کی دادی عسکریت پسند نہیں تھے پھر انہیں کس بات کا ڈر تھا مگر اس واقعہ کے بعد بچوں کا کھیت میں کھیلنا موقوف ہوا ۔اسے اس بات کا دکھ ہے ۔ نبیلہ نے اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وطن واپس جا کر وہ اپنی سہیلیوں کو بتائے گی کہ واشنگٹن پر کوئی ڈرون حملہ نہیں ہوتا اور جگہ رہنے کے لئے اچھی ہے ۔ نیو امریکہ فائونڈیشن وہ تھنک ٹینک ہے جو پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کا حساب رکھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ 2005ء کے بعد کُل 365 حملے ہوئے‘ ان سے 1600 سے لے کر 2200تک عسکریت پسند مارے گئے اور 258 تا 307عام شہری جاں بحق ہوئے ۔اگر چہ شروع میں امریکہ انتظامیہ ان حملوں میں عام شہریوں کے جانی نقصان کی تردید کرتی تھی مگر اب مانتی ہے کہ بے گناہ لوگ بھی مارے گئے ہیں مگر جانی نقصان کم ہے جو Collateral Damage کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ حکومت نے کبھی جانی زیاں کے اعداد و شمار جاری نہیں کئے ۔ ڈرون حملوں کے لئے جنہیں وائٹ ہاؤس قانونی کہتا ہے گزشتہ مئی میں اوبامہ انتظامیہ نے نئے راہنما اصول جاری کئے۔ جب تک کہ تقریباً یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ ہدف کے آس پاس کو ئی شہری موجود نہیں ایسے حملے نہیں کئے جائیں گے۔ گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے یقین کی اس حالت کو دہراتے ہوئے کہا کہ ڈرون حملوں میں ان راہنما اصولوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ۔ نیو یارک مبنی تھنک ٹینک ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا۔ ’’امریکہ پاکستان پر جو ڈرون حملے کرتا ہے وہ قبائلی علاقوں کے لوگوں کے دلوں میں وہی خوف پیدا کرتے ہیں جو کبھی القاعدہ اور طالبان سے منسوب کیا جاتا تھا اور یہ ایک المیہ ہے‘‘۔ کانگرس کے ادارہ امن میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی یہ تقریر کہ ڈرون حملے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں حائل ہیں‘ اسی تناظر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ صدر باراک اوباما نے 2009ء میں امن کا نوبل پرائز وصول کرتے ہوئے ایک منصفانہ جنگ کا ولولہ خیز تصور پیش کیا تھا ۔ایک ایسی جنگ کا جو متوازن ہو‘ ضروری ہو اور جنگ کے خاتمے کا وسیلہ بنے۔ یہ سمجھنا دشوار ہے کہ پاکستان پر ڈرون حملے اس تصور پر پورے اتریں گے اور دہشت گردی کے خاتمے کا سبب بنیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved