تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     15-10-2024

رسولِ رحمتﷺ کی عالمگیر دعوت …(6)

نبیٔ رحمتﷺ کا خط بنام شُرَحْبِیل بن عمرو غسانی: قیصر روم کی باجگزار ریاستوں میں کئی چھوٹی چھوٹی امارتیں شامل تھیں۔ قبیلہ غسان کا ایک خاندان شام کے کچھ حصے پر حکمران تھا جبکہ ایک دوسرا خاندان مرکزی شہر دمشق اور اس کے گردو نواح پر حکمرانی کرتا تھا۔ آنحضورﷺ کے دور میں شُرحْبِیل بن عمرو غسانی اس حصے کا حاکم تھا‘ موجودہ ملک اردن بھی اس کی قلمرو کا حصہ تھا۔
نبی اکرمﷺ نے جب شاہان وملوک کے نام خطوط کا سلسلہ شروع کیا تو اس حکمران کے نام بھی خط لکھا۔ آپﷺ کا خط لے کر جانے والے صحابی حضرت حارث بن عمیر ازدی رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے مکتوب گرامی موتہ کے مقام پر اس حکمران کو پہنچایا۔ اس دور کے تمام حکمرانوں میں سے سب سے بدترین ردِعمل اسی نے ظاہر کیا۔ اس بدبخت نے صحابی رسول کو گرفتار کرکے باندھ دینے کا حکم دیا اور پھر انہیں نہایت سنگدلی سے شہید کروا دیا۔ صحابی رسول اپنا فرض ادا کرنے کے بعد جان کا نذرانہ پیش کرکے سرخرو ہو گئے مگر اس ظالمانہ شاہی فیصلے کے نتیجے میں مدینہ کی اسلامی ریاست کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا ہو گیا۔ اس جبر نے ہر بندۂ مومن کا دل توڑ دیا۔ حضور پاکﷺ خود بہت غمزدہ ہوئے اور آپﷺ نے اس غم کا اظہار بھی کیا۔ ہر مسلمان کی جان محترم ومکرم ہے اور حدیثِ رسول میں اس کی حرمت خانہ کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ بیان کی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک دن بیت اللہ شریف میں خانہ کعبہ کی طرف نظر اٹھائی اور فرمایا ''اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اے کعبہ! تو کس قدر پاکیزہ ہے‘ تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے۔ (مگر جان لوکہ) مومن کی حرمت تیری حرمت سے بھی کہیں عظیم تر ہے۔ اللہ جل جلالہٗ نے تجھے حرمت بخشی ہے تو اسی نے مومن کے مال‘ جان اور عزت کو بھی حرمت سے نوازا ہے اور اس نے مومن کے بارے میں بدگمانی سے منع فرمایا ہے‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی)۔ اسی مضمون کی ایک اور روایت بھی امام طبرانی نے بیان کی ہے جس کے راوی عمرو بن شعیب ہیں جو اپنے والد اور وہ اپنے والد سے یہ روایت بیان کرتے ہیں۔ (المعجم الاوسط)
بدبخت غسانی حکمران کی اس ظالمانہ کارروائی کی اطلاع مدینہ میں پہنچی تو فطری طور پر آنحضورﷺ اور تمام صحابہ کرام بہت غمزدہ ہوئے۔ آنحضورﷺ نے فی الفور یہ فیصلہ کیا کہ اس ظلم کا بدلہ اور بے گناہ صحابی کے خون کا قصاص لینا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آپﷺ نے تمام خطرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تین ہزار صحابہ پر مشتمل ایک لشکر موتہ کی طرف روانہ فرمایا جس کی سربراہی کے لیے تین صحابہ کو نامزد کیا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ فوجیوں کی کمان زید بن حارثہ کریں گے‘ اگر زید کو کچھ ہو جائے تو کمان جعفربن ابی طالب سنبھال لیں گے‘ اگر جعفر کو بھی کچھ ہو جائے تو فوجوں کے سپہ سالار عبداللہ بن رواحہ ہوں گے۔ اگر عبداللہ کو بھی کچھ ہو جائے تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو سپہ سالار بنا لیں اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں (رضی اللہ عنہم)۔ صحابہ کرامؓ اکثر کہا کرتے تھے کہ اس انداز میں آنحضورﷺ نے کبھی کوئی لشکر نہیں بھیجا تھا۔
آپﷺ کا معمول یہ تھا کہ کسی ایک صحابی کو سپہ سالار بناتے اور لشکر کو روانہ کر دیتے۔ صحابہ کرامؓ نے اسی وقت سمجھ لیا کہ ان تینوں کمانڈروں کو جنگ میں شہادت ملے گی۔ کئی صحابہ ان کو رخصت کرتے ہوئے جب گلے ملے تو یہ سمجھ کر کہ غازی کو نہیں شہید کو مل رہے ہیں۔ اس جنگ میں تین ہزار صحابہؓ نے ایک لاکھ بیس ہزار رومی و شامی فوجوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ تینوں سپہ سالار بے جگری سے لڑتے ہوئے یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسلامی لشکر کی کمان سنبھالی اور کمال حکمت عملی اور بہادری کے ساتھ دشمن کے بھاری بھر کم لشکر کو میدانِ جنگ سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ جنگ موتہ کے حالات پوری تفصیل کے ساتھ ہماری کتاب ''رسولِ رحمتﷺ تلواروں کے سائے میں‘‘ (جلد سوم) میں درج ہیں۔
نامہ نبویﷺ بنام حارث غسانی‘ حاکم دمشق: جس طرح موتہ کا حکمران غسانی تھا‘ اسی طرح شام کے مرکزی علاقے دمشق اور اس سے ملحقہ خطوں پر بھی اسی خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک امیر حارث بن ابی شمر غسانی حکمران تھا۔ اسے بھی آنحضورﷺ نے خط لکھا جو حضرت شجاع بن وہب الاسدی رضی اللہ عنہ اس کے پاس لے کر گئے۔ آپﷺ نے اپنے خط میں اسے اسلام کی دعوت دی اور فرمایا کہ اسلام قبول کر لینے کی صورت میں تم اپنی سلطنت پر قائم رہو گے۔ اسلام قبول کر لینے سے انسان کا بھلا ہی بھلا ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں اس نے کہا: مجھ سے میری بادشاہت کون چھین سکتا ہے‘ اور اسلام قبول نہ کیا۔ یہ شخص اگر داخلِ اسلام ہوجاتا تو اپنی حکومت پر بھی قائم رہتا‘ اس کی عزت ووقار میں بھی اضافہ ہوتا اور آخرت میں بھی نجات اور بلندیٔ درجات کا مستحق قرار پاتا۔ ابنِ قیم نے زاد المعاد میں آنحضورﷺ کے مختصر خط کا پورا متن دیا ہے۔
ترجمہ ''اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان از حدرحم کرنے والا ہے۔ یہ خط اللہ کے رسول محمدﷺ کی طرف سے حارث بن ابی شمر کے نام ہے۔ جو شخص ہدایت کی پیروی اختیار کرے گا‘ اس کے لیے سلامتی ہے۔ ہدایت، اللہ پر ایمان اور (اس کے رسول کی) تصدیق ہے۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہٗ لاشریک پر ایمان لے آئو تمہاری حکومت باقی اور سلامت رہے گی‘‘۔
مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ شرحبیل غسانی کی طرح یہ بھی آنحضورﷺ کا مضمون سن کر بہت سیخ پا ہوا مگر اس نے آپﷺ کے ایلچی سے کوئی تعرض نہ کیا۔ البتہ اشتعال میں آکر کہنے لگا کہ یہ کون شخص ہے جسے میں جانتا تک نہیں ہوں اور جو مجھے اب ایسا خط لکھتا ہے جس میں مجھ سے میرا ملک چھین لینے کی دھمکی پنہاں ہے۔ جواب میں اس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ میں ابھی اپنی فوج کے ذریعے اس کا مزاج درست کر دوں گا۔
امام زرقانی کے مطابق قیصر روم کو اس کے عزائم کا پتا چلا تو اس نے اسے اس ارادے سے منع کر دیا۔ قیصر روم جان چکا تھا کہ مدینہ کی ابھرتی ہوئی اسلامی ریاست کا مقابلہ کرنا آسان نہیں‘ اسی لیے اس نے اپنے اس گورنر کو یہ نصیحت کی۔ اس پیغام کے ملنے کے بعد اس کا لب و لہجہ بھی بدل گیا۔ کئی دنوں تک اس نے آنحضورﷺ کے ایلچی کو اپنے پاس روکے رکھا۔ پھر اس نے سابقہ عزائم کو چھوڑ کر نرم رویہ اپنایا اور قیصر روم کی نصیحت پر عمل کیا اور وقتی طور پر عافیت پا لی۔ اس کے بعداس نے حضرت شجاع رضی اللہ عنہ کے ذریعے آنحضورﷺ کو سلام بھیجا۔ آپﷺ کے بارے میں اچھے جذبات کا اظہار کیا اور ایک مثقال سونا بھی آپﷺ کی خدمت میں بھیجا تاہم یہ حکمران اسلام قبول کرنے سے انکاری ہی رہا اور حالتِ کفر میں مارا گیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے سیرۃ خیر الانام‘ اردو‘ دائرہ معارف اسلامیہ‘ ص: 306)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved