تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     16-10-2024

پشتون بھائیوں کو بات اب سمجھ آ رہی ہے

پشتون علاقوں پر جو جنگ وجدل کے بادل چھائے رہے اُس کی وجہ ایک ہی تھی‘ فتنۂ افغانستان۔ اس فتنے کا آغاز اپریل 1978ء میں ہوا تھا جب سردار داؤد کی حکومت کا تختہ اُلٹا گیا اور افغان کمیونسٹ اقتدار میں آئے۔ یہ واقعہ ہونا تھا کہ جنرل ضیاالحق کی حکومت نے ڈھول پیٹنا شروع کر دیے کہ افغانستان کی ہیئت بدل گئی ہے۔ افغانوں کو ترغیب دی جانے لگی کہ 'کافر‘ اقتدار پر قابض ہو گئے ہیں اور پاکستان کے بارڈر افغانوں کیلئے کھلے ہیں۔ کچھ افغان تو خود سے آئے لیکن افغانوں کے لشکر اور جھنڈ‘ جنہوں نے پاکستان کا منہ کیا‘ بہت حد تک ہماری اس وقت کی حکومت کے ڈھول پیٹنے کے بہکاوے میں ہجرت کیلئے تیار ہوئے۔ ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھیں بند تھیں اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پشتون بھائیوں کی بھی یہی حالت تھی۔ اب 40‘ 45سال بعد پشتون بھائیوں کو سمجھ آ رہی ہے کہ اُن کے ساتھ کیا ہاتھ ہوا۔ سوچ میں تبدیلی مثبت ہے لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ بڑی دیرکر دی مہرباں آتے آتے۔
1978ء میں پشاور کی آبادی لگ بھگ پانچ لاکھ تھی۔ افغانوں کے آنے سے یوں کہیے کہ راتوں رات آبادی دگنی ہو گئی۔ کلاشنکوف سے پاکستانی قوم ناآشنا تھی۔ یہاں کے ہتھیار تو بارہ بور‘ تھری ناٹ تھری یا سیون ایم ایم رائفل ہوا کرتے تھے۔ ایک دم پاکستانی قوم کلاشنکوف اور اُس کے فائر پاور سے آشنا ہو گئی۔ یہاں کے نشے چرس اور افیون ہوا کرتے تھے۔ مہاجرین کے آنے سے پاکستانی قوم میں ہیروئن کے استعمال کی تمہید بندھی۔ ہر چیز کی سمگلنگ پہلے بھی ہوتی تھی لیکن اُس کا پیمانہ بڑھنے لگا۔ روسی فوج کے آنے سے پہلے افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔ یہ کبھی ہو سکتا تھا کہ افغانستان میں شورش ہو اور ہمارے مہربان مداخلت نہ کریں؟ پاکستانی ریاست میں عقل ہوتی تو کمیونسٹ انقلاب کے بعد ہی افغانستان میں استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتی۔ لیکن ہم نے ہر وہ کام کیا جس سے افغانستان کے حالات خراب ہوئے اور ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر رہے کہ کس آگ سے کھیل رہے ہیں۔
پوری قبائلی پٹی میں افغان آ کے بسنے لگے اور پشتون بھائیوں نے آنکھیں بند کر کے اسلامی اخوت کا نعرہ لگایا۔ یہاں کے کرتے دھرتے افغان خانہ جنگی کے گاڈ فادر بن گئے۔ پشتون نہ سمجھ سکے اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ولی خان واحد لیڈر تھے جنہوں نے متنبہ کیا کہ یہ جس آگ سے ہم کھیلنے جا رہے ہیں اس سے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ نہیں تو جو بھی پشتون لیڈر تھا اُس نے تالیاں بجائیں اور جہاد کے حق میں نعرے لگائے۔ افغان کمیونسٹ بھی پرلے درجے کے نکمے تھے۔ افغان معاشرے کی خصوصیات کو سمجھے بغیر کچھ زیادہ ہی انقلاب لانے کی اُنہوں نے کوشش کی جس کی وجہ سے خانہ جنگی کی آگ بھڑکی۔ پہلا کمیونسٹ لیڈر نور محمد ترکئی مارا جا چکا تھا اور اُس کے بعد حفیظ اللہ امین جو آیا تو وہ بھی حالات پر قابو نہ پا سکا۔ روسیوں نے دیکھا کہ افغانستان کے حالات سنبھل نہیں رہے تو اُنہوں نے سب سے بڑا بلنڈر کر دیا۔ اپنی ایک لاکھ فوج افغانستان میں دھکیل دی اور ببرک کارمل کو سلگتے ہوئے افغانستان کا سربراہ بنا دیا۔ روسی فوج کا آنا تھا کہ یہاں کے حکمرانوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ موقع کو غنیمت جانتے ہوئے امریکہ نے جنگ کے شعلے بھڑکائے۔ ڈالر‘ ریال اور فوجی سازو سامان آنے لگا‘ اس بہتی گنگا میں یہاں کے حکمرانوں نے بھی ہاتھ دھوئے۔ امریکیوں نے خانہ جنگی کو جہاد کا درجہ دے دیا‘ مہاجرین مجاہدین بن گئے اور جب تک ٹارگٹ روس تھا یوں لگتا تھا کہ عالمِ اسلام کا سب سے بڑا رفیق اور ہمدرد امریکہ ہے۔
اچانک ہی پشاور ایک بین الاقوامی شہر بن گیا۔ پوری اسلامی دنیا سے جہاد کا خواب دیکھنے والے انتہاپسند عناصر نے پشاور کا رُخ کر لیا۔ دنیا جہاں کے دفتر یہاں کھل گئے اور مغربی میڈیا نے بھی پشاور کو اپنا مرکز بنا لیا۔ پشاور اورگردو نواح میں زمین مہنگی ہونے لگی۔ دکانوں کے کرائے بڑھ گئے‘ مختلف کاروباروں میں وسعت آئی۔ کیونکہ پاکستان میں بھی ڈالر آ رہے تھے تو سرکاری خزانہ‘ جو پہلے غربت کا مارا تھا‘ اُس کے حالات بہتر ہو گئے۔ پاکستانی معیشت میں پیسے کی ریل پیل ہونے لگی۔ ماڈرن ہتھیار بھی مل رہے تھے۔ باہر کی امداد کی وجہ سے مختلف محکمے پھلنے اور پھولنے لگے۔ عالمی سطح پر جنرل ضیا‘ جو پہلے اتنی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے تھے‘ راتوں رات عالمی مدبر بن گئے اور ہر کوئی اُن سے ملنا چاہتا تھا۔ ایئرفورس کو ایف سولہ طیارے ملنے لگے اور ہماری اوقات ہی کیونکہ اتنی تھی‘ بحیثیت قوم ہم نے اس کو بہت بڑی کامیابی جانا۔ بحیثیت قوم پشتون بھی ان سارے معاملات سے خوش اور مطمئن تھے۔
1989ء میں روسی تو افغانستان سے نکل گئے اور اُنکے نکلتے ہی امریکہ کی افغانستان میں تمام دلچسپی ختم ہو گئی۔ جنرل ضیا چیختے چلاتے رہے کہ روسی انخلا سے پہلے افغانستان میں مخلوط حکومت بننی چاہیے۔ اب اُن کی کس نے سننی تھی‘ روسی گئے اور پیچھے نجیب اللہ کو سربراہِ افغانستان چھوڑ گئے۔ ہمیں پھر بھی عقل نہ آئی‘ نجیب اللہ کے خلاف بھی پاکستان کا وہی مخاصمانہ رویہ رہا جو نام نہاد جہاد کے دنوں میں تھا۔ آخرکار نجیب اللہ کے خلاف اندر سے بغاوت ہوئی اور اُس نے اقوامِ متحدہ کے دفتر میں پناہ مانگی۔ جنہیں ہم نے مجاہدین کا لقب دیا تھا‘ وہ آپس میں لڑنے لگے اور اُن کی خانہ جنگی کی وجہ سے کابل تباہ ہو کے رہ گیا۔ قتل وغارت افغانستان میں بڑھنے لگی‘ امن عامہ نام کی کوئی چیز نہ رہی۔ اس صورتحال میں قندھار میں تحریک طالبان نے جنم لیا اور چونکہ ہمیں تو کبھی عقل آنی نہیں تھی کہ افغانستان کی آگ میں بار بار ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے‘ طالبان کے آغاز میں بھی ہمارا ہاتھ تھا۔
پاکستان میں تب پرویز مشرف اقتدار پر براجمان ہو چکے تھے۔ کئی اُن کے ساتھی تھے جو طالبان کے ساتھ بڑی ہمدردی رکھتے تھے۔ جیسے جنرل ضیا کے شروع کے دنوں میں پاکستانی خزانہ خالی تھا‘ مشرف کے شروع کے دنوں میں بھی خزانے کا یہی حال تھا۔ جیسے روسی مداخلت جنرل ضیا کے کام آئی‘ نائن الیون کے واقعات مشرف کے کام آئے۔ ٹوئن ٹاورز کا گرنا تھا کہ امریکہ نے افغانستان پر اعلانِ حملہ کر دیا۔ جنگی کارروائیوں کیلئے امریکہ نے ہمارے سامنے ڈیمانڈیں پیش کیں جو آنکھ جھپکنے میں ہی ہم نے مان لیں۔ افغانستان نے تو میدانِ جنگ بننا ہی تھا لیکن ہماری قبائلی پٹی اورباقی صوبہ سرحد اُس جنگ کی لپیٹ میں آنے لگے۔ طالبان اور القاعدہ کے لوگ اس طرف آئے اور ہم نے آنکھیں بندکر لیں۔ ایک طرف امریکہ کے حامی تھے اور ساتھ ہی طالبان کی طرف نرم گوشہ رکھتے تھے۔
کسی پشتون رہنما نے اس صورتحال پر اعتراض اٹھایا؟ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے عمائدینِ جے یو آئی اور جماعت اسلامی جنرل مشرف کی حکومت کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ اے این پی مشرف کے ساتھ تھی۔ آفتاب شیر پاؤ اُس حکومت کے تھم تھے۔ اور اگر پی ٹی آئی کے جیالے برا نہ منائیں تو خانِ اعظم نے بھی بھونڈے ریفرنڈم میں جنرل مشرف کی حمایت کی تھی۔ یہاں پاکستان کا مفاد اس میں تھا کہ حامد کرزئی اور اُس کے بعد اشرف غنی کی حمایت کرتے تاکہ افغانستان کے حالات سنبھلنے کی طرف جاتے۔ لیکن یہاں کے حکمران اندرونِ خانہ اُن کے خلاف لگے ہوئے تھے۔ یعنی وکٹ کے ہم دونوں طرف کھیل رہے تھے‘ امریکیوں کے ساتھ اور طالبان کے ساتھ بھی۔ اور مزے کی بات یہ کہ اعتراض کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اب جب سب نقصان ہو چکا ہے‘ نہ صرف پشتونوں کا بلکہ پاکستان بھر کا‘ اب بھی ہمیں ہوش نہیں آ رہی۔ ہم یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ پاکستان کے وجود کو اگر خطرہ ہے تو ایک خاص قسم کی انتہاپسندی سے۔ لیکن چلیے پشتون جرگے والے ٹھیک بات کر رہے ہیں‘ دیرآید درست آید۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved