تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     16-10-2024

گنجی نہائے گی کیا…

اکثر لوگ اس وقت پریشانی کا شکار ہیں‘ ملکی حالات سے تنگ اور چڑچڑے۔ لیکن حیرت ہے کہ مجھے ابھی تک ایک بھی بندہ ایسا نہیں ملا (قبلہ جنید ابراہیم) گواہ ہیں جس سے پوچھنے پراس نے بتایا ہو کہ اس کے حالات پندرہ‘ بیس سال پہلے تو بہت اچھے تھے لیکن اب خراب ہیں اور وہ محل سے اُٹھ کر سڑک پر آ گیا ہے۔ عجیب صورتحال ہے کہ لوگوں کے حالات پندرہ بیس سال پہلے کی نسبت بہت اچھے ہیں پھر بھی وہ موجودہ حالات سے تنگ ہیں۔
میں خود بھی سمجھتا ہوں کہ اگر حالات خراب ہوئے ہیں تو 2018ء کے بعد جب ڈالر کا ریٹ اچانک پچاس‘ ساٹھ روپے اوپر گیا اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت اسے تین سو روپے تک لے گئی۔ جنوری 2022ء میں آئی ایم ایف کی ڈیل توڑی گئی اور اس وقت ملک اور قوم کے مفادات کا نہیںاپنی ذات اور سیاسی فوائد کا سوچا گیا۔ یہ بڑا جرم اور خودغرضی تھی جو اُس وقت دکھائی گئی اور جس کے اثرات سے ہم ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔ اکثر لوگ ڈالر کے اس کھیل کو نہیں سمجھتے لہٰذا وہ اپنی جگہ ٹھیک ہیں کہ مہنگائی بڑھی ہے لیکن وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ان کا معیارِ زندگی پندرہ‘ بیس سال پہلے سے بہت بہتر ہے۔
دراصل ڈالر کو معیشت کے ساتھ جوڑنے کا کام پرویز مشرف کے دور میں شوکت عزیز نے سرانجام دیا تھا‘ جب موصوف نے پٹرول‘ گیس وغیرہ کی قیمتوں کو عالمی منڈی سے جوڑ دیا۔ اب اگر عالمی سطح پر تیل‘ گیس کی قیمت بڑھتی تو پاکستان میں بھی نرخ بڑھ جاتے۔ پہلے جو پٹرول‘ ڈیزل وغیرہ کے نرخ سہ ماہی‘ ششماہی نکلتے تھے‘ وہ اب پہلے ایک ماہ اور پھر پندرہ دنوں پر آ گئے۔
پھر وہی بات کہ کم لوگ جانتے ہیں کہ شوکت عزیز سے پہلے پاکستان میں بہت سارے طبقات کو سبسڈی؍ رعایتیں ملی ہوئی تھیں‘ جس سے وہ طبقات مہنگائی یا دیگر برُے اثرات سے محفوظ رہتے تھے۔ اگرچہ 1990ء کی دہائی میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتیں فری مارکیٹ اکانومی کے فارمولے پر دھیرے دھیرے چلنا شروع ہو گئی تھیں کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا‘ نوکریاں دینا یا مہنگی چیزیں خرید کر لوگوں کو سستے داموں فراہم کرنا نہیں ہے۔ یوں سرکاری اثاثوں کو ایک ایک کر کے نجی شعبے کے حوالے کرنے کا کام شروع ہوا جس پر بیروزگاری کا نعرہ بلند ہوا۔ ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے نام پر پیسے دے کر برخاست کیا گیا۔ سرکاری بینک اس کام میں سرفہرست تھے‘ پھر دیگر اداروں کی بھی باری آتی گئی۔ لیکن نواز شریف اور بینظیر بھٹو اس سارے عمل کو سیاسی وجوہات کی وجہ سے اُس تیزی سے سرانجام نہیں دے رہے تھے جس کے لیے ان پر دبائو تھا۔ حکومت کا سارا بجٹ تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہو رہا تھا اور ترقیاتی بجٹ کے لیے پیسہ کم تھا‘ جس سے معاشی ترقی کی رفتار سست تھی۔
اگرچہ اسلام آباد میں برسوں کی رپورٹنگ کے بعد میرا ماننا ہے کہ حکومت ترقیاتی بجٹ کی رقوم مختص کرتے وقت جھوٹ سے کام لیتی ہے۔ یہ جان بوجھ کر پیسے زیادہ رکھنے کا اعلان کرتی ہے تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ اس کا معاشی پلان کتنا طاقتور ہے اور وہ معیشت کو اوپر اٹھا لے جائے گی۔ لوگوں کو نوکریاں ملیں گی اور قومی پیداوار بڑھے گی۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب سال ختم ہونے لگتا ہے تو پتا چلتا ہے صرف پچاس‘ ساٹھ فیصد بجٹ خرچ ہوا اور باقی کا بجٹ استعمال ہی نہیں ہو سکا۔ جن منصوبوں پر بڑے شور شرابے اور دعوؤں کے ساتھ پیسے رکھے گئے‘ وہ تو شروع ہی نہیں ہو سکے۔ ہر سال پندرہ مئی تک وزارتوں سے کہا جاتا ہے کہ جو رقوم وہ استعمال نہیں کرسکیں‘ وہ فنانس؍ پلاننگ ڈویژن کو واپس کر دیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ لوگ‘ جو ملک کو چلا رہے ہیں خصوصاً سرکاری افسران‘ رقوم خرچ کرنے کی صلاحیت ان میں کتنی ہے۔ اگر حکومت نے کوئی غیرضروری خرچ کرنا ہو اور بجٹ میں رقم مختص نہ کی گئی ہو تو پہلا حملہ اس ترقیاتی بجٹ پر ہی ہوتا ہے اور یوں وہ منصوبے جو قومی ترقی کے لیے ضروری ہوتے ہیں‘ ان پر منفی اثر پڑتا ہے۔ مجھے کوئی ایک سال بھی یاد نہیں پڑتا جب ترقیاتی بجٹ سو فیصد چھوڑیں‘ اسی نوے فیصد تک ہی استعمال ہواہو۔ کچھ عرصہ قبل چند عرب ممالک کی طرف سے بھی یہ شکایت کی گئی تھی کہ پاکستان کے پاس وہ ماہرین یا افسران ہی نہیں ہیں جو سرمایہ کاری کی تجاویز یا ایسا قابلِ عمل پروجیکٹ بنا کر انہیں دے سکیں‘ جس پر وہ اپنا پیسہ لگا سکیں۔ یوں ہر دفعہ محض اعلانات ہی سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں ملک اتنے ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گا لیکن پھر خاموشی طاری ہو جاتی ہے اور اچانک سال‘ دو سال بعد وہی خبر دوبارہ چلا دی جاتی ہے کہ فلاں ملک کا وفد آ رہا ہے اور سرمایہ کاری لا رہا ہے۔ وہ وفد آتا ہے اور واپس چلا جاتا ہے مگر ہم خالی ہاتھ ہی رہتے ہیں۔ آپ کتنے برسوں سے سن رہے ہیں کہ سعودی عرب پاکستان میں دس ارب ڈالرز سے ایک آئل ریفائنری لگانا چاہتا ہے‘ اب تک اس منصوبے پر کوئی عملی کام ہوتے دیکھا ہے؟ اس میں سعودی عرب کا قصور نہیں ہے‘ اسے شکایت ہے کہ جنہوں نے پاکستان میں منصوبے بنا کر دینے ہیں‘ وہ یہ کام اس کی تسلی کے مطابق مکمل نہیں کر پاتے‘ لہٰذا سرمایہ کار مایوس لوٹ جاتے ہیں۔ اگرچہ اس دفعہ ایک بڑا سعودی وفد پاکستان آیا اور بہت سے معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے۔ اس سے قبل اتنا بڑا وفد کبھی پاکستان نہیں آیا۔ سعودی عرب سرمایہ لگانا چاہتا ہے لیکن لگائے کہاں اور کیسے لگائے‘ اس حوالے سے سعودیوں کی رہنمائی کون کرے گا؟ ہمارے افسران اور بیورو کریسی کے اندر تو جیسے کہا گیا‘ اتنی صلاحیت ہی نہیں اور اس کا برملا اظہار اب سرمایہ کار بھی کر رہے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا سے بات ہوئی تو ان کا مؤقف کچھ مختلف تھا۔ انکا کہنا تھا کہ یہ کام بیورو کریٹس کا ہے ہی نہیں۔ حکومتیں بیرونی سرمایہ کاروں کو محض سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔ یہ ملک کا نجی شعبہ ہوتا ہے جو بیرونی سرمایہ کار کیساتھ مل کر کام شروع کرتا ہے‘ جس کے پاس ماہرین اور اہلیت ہوتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے جب بھی کامیاب سرمایہ کاری کی تو نجی شعبے میں ہی کی۔ اس لیے سلیم مانڈوی والا اس معاملے میں مثبت رائے رکھتے ہیں کہ اس دفعہ سعودی سرمایہ کاروں کی توجہ حکومت کے بجائے پاکستانی کاروباریوں پر مرکوز رہی کہ وہ دیکھیں کہ سعودی اور پاکستانی بزنس مین کیسے نئے نئے کاروبار اکٹھے کر سکتے ہیں۔ نجی شعبے کے پاس ہی وہ قابلیت اور اہلیت ہوتی ہے جس کی مدد سے کسی بھی کاروبار کو کامیاب کر کے نوکریاں پیدا کی جاتی ہیں اور حکومت کو ٹیکس دے کر معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا جاتا ہے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر ڈالر کے ریٹ نے چند برسوں میں لوگوں پر مہنگائی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ پاکستان کی اس وقت اسی ارب ڈالرز کی امپورٹ میں سے 35‘ 40 ارب ڈالر صرف تیل اور گیس یا پٹرولیم مصنوعات پہ خرچ ہو رہے ہیں۔ ہم گندم‘ کپاس‘ تیل اور دالیں تک باہر سے منگوا رہے ہیں۔ جب آپ ڈالروں میں باہر سے چیزیں منگواتے ہیں اور پھر انہیں روپوں میں منتقل کر کے ان پر ٹیکس لگا کر آگے لوگوں کو فراہم کرتے ہیں تو لوگوں کی چیخوں کا نکلنا ایک یقینی بات ہے۔
مزید ظلم یہ ہوا کہ تیل پر بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگا کر اس قوم کو ایک ایسے عذابِ مسلسل میں ڈال دیا گیا جس کا کسی کے پاس کوئی فوری حل نہیں۔ اب پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدہ دوبارہ کیا جا رہا ہے‘ جس سے صارفین کو سالانہ ساٹھ ارب روپے کی بچت ہوگی۔ جس ملک میں سالانہ 600 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہو یا اس کے بل نہ دیے جاتے ہوں‘ وہاں ساٹھ ارب کی بچت سے کیا ہو جائے گا۔ وہی بات کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved