دلیپ کمار نے بالی وڈ کی فلم انڈسٹری میں میتھڈ ایکٹنگ کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنے کردار کو پہلے کاغذ پر لکھتا‘ اس کے بارے میں تحقیق کرتا‘ اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا تھا اور پھر اس کردار کو امر بنا دیتا تھا۔ دلیپ کی فلم ''گنگا اور جمنا‘‘ کے بارے میں معروف اداکار امیتابھ بچن کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فلم چالیس‘ پچاس مرتبہ دیکھی تھی۔ فلم انداز (1949ء) کے بعد دلیپ نے آن (1952ء)‘ نیا دور (1952ء)‘ انسانیت (1955ء)‘ آزاد (1955ء)‘ مدھو متی (1958ء)‘ پیغام (1959ء) اور کوہ نور (1960ء) میں کام کیا۔ کامیابیوں کا سفر جاری تھا لیکن اس کی زندگی میں ایک خلا تھا۔ وہ ماں کے انتقال کے بعد خود کو تنہا محسوس کرتا تھا۔ مدھوبالا کے ساتھ اس کا جذباتی لگاؤ تھا‘ اس نے مدھو کو اپنی شریکِ حیات بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن مدھو کے والد نے کاروباری مصلحتوں پر اس رشتے کو قربان کر دیا۔ اس کے بعد دلیپ کا دل کہیں نہیں لگا۔ اُدھر اس کی قربت حاصل کرنے کے لیے کتنے ہی دل بے چین تھے‘ ان میں سے ایک کم سن سائرہ بانو بھی تھی جو اداکارہ پری چہرہ نسیم بیگم کی بیٹی تھی۔ دلیپ کمار اس کا آئیڈیل تھا۔ جب اس کی عمر اٹھارہ سال ہوئی تو اس نے تہیہ کر لیا کہ اگر وہ شادی کرے گی تو دلیپ کے ساتھ۔ بظاہر یہ ایک انہونی بات تھی کیونکہ دلیپ اس سے دُ گنی عمر کا تھا۔ جب وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس ہندوستان آئی تو فلمی دنیا میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ سائرہ نے راج کپور‘ دیو آنند اور دوسرے ہیروز کے ساتھ کام کیا لیکن اس کی خواہش دلیپ کے ساتھ کام کرنے کی تھی۔ دلیپ اس کے ساتھ کام کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیتا کہ وہ کم سن بچی ہے اور میں اس کے ساتھ ہیرو کا کردار ادا نہیں کروں گا۔
سائرہ اب دلیپ کے رویے سے دلبرداشتہ ہو گئی تھی۔ پھر ایک دن ایک عجیب واقعہ ہوا۔ یہ سائرہ کی سالگرہ کا دن تھا اور اس کی ماں نسیم بانو نے فلمی ستاروں کو دعوت پر بلایا تھا۔ دلیپ بھی اس دعوت میں شریک تھا۔ اس روز اُس نے سائرہ کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ اب ایک کم سن بچی نہیں بلکہ ایک پُرتمکنت خاتون تھی۔ دلیپ نے دل ہی دل میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر لیا کہ وہ سائرہ بانو سے شادی کرے گا۔ اس وقت دلیپ کی عمر 44 برس تھی اور سائرہ صرف 22 سال یعنی دلیپ کی عمر سائرہ کی عمر سے دُگنی تھی۔ تب دلیپ کو وہ دن یاد آگیا جب تامل ناڈو میں فلم ''آزاد‘‘ (1955ء) کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔ وہیں ایک دوست کی بدولت اسے ایک جوتشی سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا جس نے دلیپ کمار کو بتایا تھا کہ اس کی شادی فلمی دنیا کی ایک ایسی لڑکی سے ہو گی جس کی عمر دلیپ سے نصف ہو گی۔ آج سائرہ کے گھر میں بیٹھے اسے تامل ناڈو کے جوتشی کی پیش گوئی یاد آئی۔ اس نے سوچا قدرت کیسے ہماری منزلوں کا انتخاب کرتی ہے۔ تب دلیپ نے سائرہ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا جسے سائرہ اور اس کی والدہ نے بخوشی قبول کر لیا۔ یوں 44 سال کی عمر میں دلیپ شادی کے بندھن میں بندھ گیا اور یہ شادی آخری دم تک قائم رہی۔ یہ شادی 1966ء میں ہوئی‘ اگلے ہی سال دلیپ کی فلم ''رام اور شیام‘‘ ریلیز ہوئی‘ جو باکس آفس پر کامیاب رہی۔ 1970ء میں پہلی بار دلیپ کمار اور سائرہ بانو ''گوپی‘‘ فلم میں اکٹھے آئے۔ اس فلم کو لوگوں نے پسند کیا لیکن سائرہ کے ساتھ دو اور فلمیں ساگینہ (1974ء) اور بیراگ (1976ء) لوگوں کی توجہ حاصل نہ کر سکیں۔ یہ دلیپ کی زندگی میں پہلا موقع تھا کہ اس کی تین فلمیں داستان (1972ء)‘ ساگینہ اور بیراگ باکس آفس پر ناکام ہوئی تھیں۔ یہی وہ وقت تھا جب دلیپ کمار نے عارضی طور پر فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ دلیپ کمار کی خاموشی کا یہ عرصہ تقریباً پانچ سال پر محیط تھا۔ فلموں سے دلیپ کی عارضی کنارہ کشی اس وقت ختم ہوئی اسے سنیل دت نے اپنی ایکشن فلم '' کرانتی‘‘ میں کام کی دعوت دی۔ اس فلم میں دلیپ کمار کے ساتھ اشوک کمار اور سنیل دت نے کام کیا۔ 1981ء کا سال اس لیے بھی اہم تھا کہ پانچ سال بعد دلیپ دوبارہ فلمی دنیا میں آیا تھا اور'' کرانتی‘‘ میں کام کیا تھا۔ یہ سال اس لیے بھی اہم تھا کہ اسی سال دلیپ نے ایک خاتون اسما حسن سے خفیہ شادی کر لی تھی۔ یہ شادی تین سال تک رہی لیکن میڈیا میں خبریں آنے کے بعد دلیپ کمار نے اسما کو 1983ء میں طلاق دے دی ۔ 1982ء میں دلیپ کی ایک اور فلم ''شکتی‘‘ ریلیز ہوئی جس میں اس کے مقابل امیتابھ بچن‘ راکھی اور سمیتا پاٹیل نے کام کیا۔ ''شکتی‘‘ نے باکس آفس پر شاندار کامیابی حاصل کی اور اس سال کی بہترین فلم کا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کیا۔
1984ء میں دلیپ کی ایک فلم '' مشال‘‘ آئی جس میں اس کے ہمراہ انیل کپور اور وحیدہ رحمن تھے۔ اس فلم نے بھی باکس آفس پر شاندار کامیابی سمیٹی۔ اس میں دلیپ کمار کی اداکاری کو بہت سراہا گیا‘ جس میں وہ ایک یونین لیڈر کا کردار ادا کر رہے تھے۔ 1991ء میں دلیپ کی ایک اور فلم ''سوداگر‘‘ ریلیز ہوئی جس میں دلیپ کمار کے ساتھ راج کمار اور منیشا کوئرالا بھی تھے۔ یہ فلم بھی باکس آفس پر کامیاب رہی اور دلیپ کو اس فلم میں بہترین اداکاری پر فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ اس فلم کو بالی وُڈ کی بہترین فلموں میں شامل کیا جاتا ہے۔ دلیپ کی آخری فلم ''قلعہ‘‘ تھی جو 1998ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں دلیپ نے بیک وقت والد اور بیٹے کا رول ادا کیا۔ اس فلم کے لیے بھی دلیپ کو بہترین اداکار کے ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔
فلم ''قلعہ‘‘ کے بعد دلیپ نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا‘ یوں اداکاری کا ایک شاندار دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ دلیپ کو اس کی خدمات کے عوض پدم بھوشن ایوارڈ (1991ء)‘ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ (1994ء)‘ پدم دی بھوشن ایوارڈ ( 2015ء) اور داغ‘ دیو داس‘ رام اور شیام اور کرما میں بہترین کارکردگی پر ایوارڈ دیے گئے۔ یہ سب کامیابیاں اپنی جگہ لیکن پشاور کے گلی کوچے اور اُن سے جڑی یادیں اس کی راتوں کی تنہائیوں میں اس کے پاس آ بیٹھتی تھیں اور پھر وہ دیر تک ان یادوں کی انگلی پکڑ کر بچپن کے آنگن میں کھیلنے نکل جاتا تھا۔ دلیپ کو دوبار پاکستان آنے کا موقع ملا اور وہ پشاور ‘ قصہ خوانی بازار میں واقع اپنی حویلی کو دیکھنے گیا۔ پاکستان کی حکومت نے اسے 'نشانِ پاکستان‘سے بھی نوازا تھا۔
اب دلیپ فلموں سے ریٹائر ہو گیا تھا۔ شام کو وہ اکثر بمبئی میں اپنے بنگلے کے ٹیرس پر بیٹھ کر غروبِ آفتاب کامنظر دیکھتا۔ پھر وہ کرسی کی پشت پر ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیتا۔ تب اس کے اندر کے منظر روشن ہو جاتے۔ اسے پشاور کی گلابوں والی گلی اور وہاں کی ٹھنڈی صبحیں اور سلونی شامیں یاد آ جاتیں۔ اسے اپنے بچپن کے دن یاد آجاتے جب پشاور میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے مغرب کا وقت ہوتا تو اسے ماں کی بات یاد آجاتی ''یوسف مغرب کے بعد گھر سے باہر نہیں رہنا‘‘ اور وہ بے اختیار اپنے گھر کی طرف بھاگنے لگتا۔ آج بھی وہ ہمیشہ کی طرح بمبئی میں اپنے گھر کے ٹیرس پر کرسی پر بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور وہ چشمِ تصور میں اپنے دلبر شہر پشاور کی گلیوں میں اپنے کم سن دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اچانک ٹیرس پر تیز ہوا کے شور سے اس کے تصور کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اس نے اپنی آنکھیں کھول کر ادھر اُدھر دیکھا ۔وہ بمبئی میں گھر کے ٹیرس پر بیٹھا تھا۔ سورج کب کا غروب ہو چکا تھا۔ ٹیرس پر ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا اور اس اندھیرے میں اس کے بچپن کا گھر نجانے کہاں کھو گیا تھا۔(ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved