لگتا یوں ہے کہ حکومت ہر حال میں تہیۂ طوفان کیے بیٹھی ہے۔ پیپلز پارٹی روایتی طور پر آئین کی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کی شہرت رکھتی ہے‘ مگر مقامِ حیرت ہے کہ اس کے جواں سال چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری عدلیہ کے پَر کاٹنے اور اسے مقننہ اور مقتدرہ کے تابع کرنے کے لیے بڑی بے قراری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایک طرف بلاول کی بالک ہٹ ہے کہ وفاقی آئینی عدالت ہر صورت بنے گی تو دوسری طرف مولانا کا گرم چشیدہ عزمِ صمیم ہے کہ آئینی بینچ بنے گا‘ الگ عدالت نہیں بنے گی۔
بلاول تازہ تازہ آکسفورڈ یونیورسٹی اور جمہوریت کے مرکز انگلستان سے وطن عزیز لوٹے تو وادیٔ سیاست میں ان کی آمد بادِ صبا کا تازہ جھونکا محسوس ہوئی۔ اُن کے ابتدائی دور کی باتیں سُن کر یوں لگا جیسے وہ قومی سطح پر اپنی سیاست کی بنیاد آئین کی سربلندی اور قانون کی حکمرانی پر رکھیں گے جبکہ اندرونِ سندھ غربت و جہالت کا خاتمہ اور سماجی انصاف کا بول بالا کریں گے مگر ''اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘۔ ستمبر میں حکومت کی طرف سے آئینی ترامیم کے خفیہ بل کو دونوں ایوانوں میں پیش کرنے کے دنوں میں قاضی فائز عیسیٰ کی توسیع اور ان کی بحیثیت چیف جسٹس آئینی عدالت میں تقرری کا خوب چرچا تھا اور ان کی 25 اکتوبر کو باقاعدہ ریٹائرمنٹ کے نوٹیفکیشن کے بعد یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ شاید حکومت 26ویں آئینی ترمیم لانے سے وقتی طور پر دستبردار ہو گئی ہے‘ تاہم ایسا ہرگز نہیں۔ حکومت نے سابقہ روایات کے مطابق جانے والے چیف جسٹس کی جگہ آنے والے چیف جسٹس کا ابھی تک نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا۔
بعض باخبر قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت دراصل آنے والے ''کسی طوفان‘‘ سے خوفزدہ ہے۔ جبکہ وکلا‘ ججز اور قانون دانوں حتیٰ کہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا ابھی اس بات پر اتفاق ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ ایک پروفیشنل جج ہیں۔ حکومت نے اپنے سابقہ مسودے میں کچھ رد و بدل کیا ہے اور نئی حکمت عملی کے تحت اسے خاصا مختصر کر دیا ہے۔ سابقہ ترمیمی مسودے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پانچ سینئر ججز کے پینل سے وزیراعظم جسے چاہیں گے اسے قاضی القضاۃ مقرر کر دیں گے۔ گویا جسے پیا چاہیں گے وہی سہاگن کہلائے گی۔
12 اکتوبر بروز ہفتہ قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس سینئر رہنما جناب خورشید شاہ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں بھی پیپلز پارٹی وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر مُصر رہی۔ اس مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت سات ججز پر مشتمل ہو گی۔ ان ججز کی تقرر ی کا ایک تفصیلی پروسیجر بیان کیا گیا ہے جس کا لبِ لباب یہ ہے کہ ان کی تقرری بھی پارلیمانی کمیٹی ہی کرے گی۔ جہاں تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تقرر کا تعلق ہے‘ اس کا تقرر آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ یہ آٹھ اراکین حکومتی پارٹی اور اپوزیشن سے برابر کی تعداد میں لیے جائیں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چیف جسٹس ضروری نہیں کہ سب سے سینئر ترین جج ہی ہو‘ اس کا انتخاب تین سینئر ترین ججوں میں سے کیا جائے گا۔ نئے بل میں پہلے ترمیمی مسودے کے مقابلے میں لچک پیدا ہوئی ہے مگر حکومتی اتحاد آئینی عدالت کے قیام اور چیف جسٹس کے تقرر کے طریق کار کے سلسلے میں اپنی ضد پر اڑا ہوا ہے۔
اگرچہ حکومت نے جے یو آئی(ف) کے بارے میں کچھ دعوے کیے ہیں مگر جمعیت علمائے اسلام آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچ بنانے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ دستوری معاملات میں انڈیا ہم سے بہت آگے ہے۔ ہم تو آئین بناتے اور توڑتے رہے مگر وہاں پہلے روز سے جو آئین قائم ہوا اس کی اب تک پاسداری کی جا رہی ہے۔ ہم نے آئین کی حقیقی روح پر کم ہی عمل کیا ہے۔ دستوری معاملات زیر بحث لانے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ کے تحت آئینی بینچ مقرر کیا جاتا ہے جس میں کم از کم پانچ ججز ہوتے ہیں۔ یہ بینچ آئین و قانون سے متعلقہ کسی معاملے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اسی طرح کسی فرد کی طرف سے داخل کی جانے والی پٹیشن یا پارلیمنٹ وغیرہ کی طرف سے بھیجے گئے ریفرنس کا فیصلہ بھی عدالت عظمیٰ کا یہی بینچ کرتا ہے۔اس طرح سے دو بڑی عدالتوں میں دوئی پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی عدالتیں آپس میں متصادم ہوتی ہیں۔ اسی طرح نہ ہی ایک علیحدہ عدالت کے پہاڑ جتنے اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
بات یہیں بس نہیں کی گئی‘ حکومتی ترمیمی مسودے کے مطابق یہ دستوری عدالتیں ہر صوبے میں بھی قائم کرنے کی تجویز ہے۔ سپریم کورٹ کا آئینی بینچ‘ یہی معقول بات ہے‘ یہی جمہوریت کی روح ہے اور یہی پارلیمانی نظام کا تقاضا ہے۔
اتوار‘ 13اکتوبر کو میری مولانا فضل الرحمن سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اُس وقت مولانا حیدر آباد‘ سندھ پہنچنے والے تھے۔ مولانا نے بتایا کہ وہ 14 اکتوبر بروز سوموار میر پور خاص میں ایک بڑے تاریخی اجتماع سے خطاب کریں گے۔ پھر 15 اکتوبر کو کراچی میں بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد 16 اکتوبر کو لاہور میں میاں نواز شریف کی دعوت پر اُن سے ملاقات ہو گی۔ اسی طرح 17 اکتوبر کو پی ٹی آئی کے اسد قیصر مولانا کے ساتھ تبادلۂ خیالات کے لیے اسلام آباد تشریف لائیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ ملاقاتوں کے اس طویل سلسلے کا ہدف کیا ہے؟ مولانا کا جواب مختصر تھا: 26ویں آئینی ترمیم کے بارے میں مکمل اتفاقِ باہمی کا حصول۔ مولانا نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ ہفتے کے دوران خاصی کثیر الجہات پیش رفت ہو چکی ہے۔ میں نے کچھ نام لیے تو مولانا نے فرمایا کہ حضرت! ناموں کو چھوڑیے‘ ہم آئین کے تحفظ اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنائیں گے اور اس سے کم کسی بات پر کمپرومائز نہیں کریں گے۔ مولانا کی فوق السطور اور بین السطور گفتگو سے میں نے اندازہ لگایا کہ دو ہفتے قبل مولانا کا جو دو ٹوک اور بے لچک موقف تھا‘ اس میں کچھ لچک آ چکی ہے۔ تاہم ان کی باتوں سے عیاں تھا کہ وہ آئینی عدالت کے قیام کے بجائے آئینی بینچ پر اصرار کریں گے تاکہ عدالتی نظام میں ''یونٹی آف کمانڈ‘‘ رہے۔
گزشتہ ہفتے شہرِ اقتدار سے آنے والی خبروں میں یہ خبر نمایاں تھی کہ اسلام آباد کی ہر دلعزیز شخصیت جناب میجر (ر)عامر کے دولت کدے پر مولانا فضل الرحمن اور چودھری نثار کی ملاقات ہوئی۔ میجر صاحب خیبر پختونخوا کے ایک ممتاز دینی خانوداے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ان کے غریب خانے پر یہ ما حضر کی ایک دعوت تھی۔ چودھری صاحب میرے پرانے دوست ہیں اور آپ کی طرح مولانا کے ساتھ بھی ہمارے دینی پس منظر کی بنا پر کئی نسلوں کے تعلقات ہیں۔ اس غیر رسمی ملاقات میں میجر صاحب نے دونوں مہمانوں سے عرض کیا کہ آئیڈیل صورت تو وہ ہوتی ہے کہ جب ملک کے تمام ادارے پارلیمنٹ‘ عدلیہ اور مقتدرہ اپنے اپنے دائرے میں کام کر رہے ہوں۔ یہ تینوں ادارے ملک و قوم کا محور بھی ہیں اور فخر بھی۔ ان کے درمیان کسی طرح کی کشاکش نہیں ہونی چاہیے۔ اس موقع پر چودھری نثار صاحب نے اپنے طویل پارلیمانی تجربے کی بنا پر کہا کہ حکومت اور اپوزیشن آئینی ترامیم کے لیے مکمل ہم آہنگی پیدا کریں اور کوئی ایک فریق دوسرے کے حقوق کو بلڈوز کرنے کا مرتکب نہ ہو۔
میجر صاحب کی رہائش گاہ پر ہونے والی اس غیر رسمی ملاقات میں بھی مولانا نے یقین دہانی کرائی کہ وہ بھی انہی خطوط پر آگے بڑھ رہے ہیں اور ان شاء اللہ قوم کو جلد ہی خوشخبری ملے گی۔ مولانا کی فراست سے ہمیں یہی امید ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved