تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     17-10-2024

فلسطین‘ اسرائیل۔ کون جیتا؟ کون ہارا؟

اکتوبر 2023ءسے اکتوبر 2024ء۔جنگ کا ایک بھیانک سال۔ کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ یہ جملہ ویسے تو کہنا آسان ہے لیکن اس کا جواب آسان نہیں۔ عالمی تعلقات‘ جانی‘ مالی‘ عسکری اور سیاسی فائدے اور نقصانات سبھی اس جنگ کا حصہ ہیں‘ اور سب کا تجزیہ کیے بغیر کہنا ممکن نہیں کہ اس جنگ میں جیتا کون اور شکست کس کی ہوئی۔ اگر خلاصہ بتانا ہو تو یہ کہ حماس کے پاس اپنی جانوں اور گھروں کے سوا قربان کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں‘ سو وہ انہوں نے کھو دیے جبکہ اسرائیل کے پاس کھونے کےلئے بہت کچھ تھا‘ جو اس نے جنگ میں کھویا ہے۔ صرف عسکری محاذ پر نہیں‘ دیگر محاذوں پر بھی۔ اس نقصان کی تفصیل بہت طویل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ زیادہ جانی نقصان اور غزہ کا ملبے کا ڈھیر بن جانے کے باوجود حماس فتح یاب ہوئی اور اسرائیل کو نہایت کاری ضرب لگانے میں کامیاب رہی۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک اسرائیل کو اتنا گہرا زخم کبھی نہیں لگا تھا۔
سات اکتوبر 2023ءکو حماس کے اچانک حملے کےلئے اسرائیل کسی بھی طرح تیار نہیں تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اسرائیلی برسوں سے یہ سمجھ رہے تھے کہ اکا دکا راکٹ فائر کرنے کے سوا حماس میں بڑے حملے کی ہمت ہے نہ اہلیت۔ چنانچہ اسکے گمان میں بھی اس طرح کا بھرپور حملہ نہیں تھا۔ 1200 افراد کو قتل کر دینا اور 200 سے زیادہ قیدیوں کو ساتھ لے جانا حماس کی بڑی کامیابی تھی۔ حماس کو اندازہ تھا کہ اسرائیل غضب ناک ہوکر غزہ پر ٹوٹ پڑے گا اور اس کےلئے انہوں نے سرنگوں وغیرہ کا نظام بنا رکھا تھا۔ حماس کو اس حملے سے دو فوائد تو ابتدا ہی میں مل گئے۔ ایک تو فلسطین کا ایک بار پھر دنیا کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آنا اور دوسرا‘ اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کا تاثر تہس نہس ہو جانا۔ اس کے ساتھ حماس کو دو اور مقاصد بھی حاصل ہو گئے۔ اول اسرائیل کو شدید تکلیف پہنچانا‘ دوم اس کے شہریوں میں عدم تحفظ کا شدید احساس پیدا ہو جانا۔ اسرائیل کےلئے ممکن نہیں تھا کہ وہ جوابی کارروائی نہ کرے۔ اسرائیل کی جنگی طاقت اور اس کی پشت پر امریکہ اور مغرب کی مہیب قوتوں کا موجود ہونا اسے ایک دیو بناتا ہے جس کے سامنے حماس ایک بچے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ چنانچہ اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ حماس کو صفحہ ہستی سے مٹا کر غزہ سے اس کا وجود ختم کر دے گا اور تمام اسرائیلی قیدیوں کو گھروں میں واپس لایا جائے گا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک سال تک بدترین فضائی اور زمینی حملوں کے باوجود کیا یہ دونوں دعوے پورے ہو سکے؟ 42 ہزار بے گناہ فلسطینی شہری‘جن میں بچوں کی تعداد 19 ہزار بتائی جاتی ہے‘ شہید ہو چکے۔ اسرائیلی دعویٰ کہ حماس کے سات ہزار جنگجو اور کمانڈر شہید کیے جا چکے‘ اگر یہ درست ہو تب بھی کیا یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ حماس کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا؟ اور اب وہ اسرائیل کےلئے خطرہ نہیں رہی؟ بتایا جاتا ہے کہ 100 کے قریب اسرائیلی یرغمالی اب تک حماس کے قبضے میں ہیں۔ اس طرح اسرائیل کا دوسرا مقصد بھی ناکام رہا۔
اسرائیل کی عربوں اور فلسطینیوں سے کوئی بھی جنگ اتنی طویل نہیں ہوئی جتنی موجودہ جنگ ہے۔ ایک سال گزرنے کے بعد بھی یہ نہ صرف جاری ہے بلکہ علاقے میں پھیل کر عالمی جنگ کے خطرے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ لبنان‘ اور ایران اس لڑائی کے الگ الگ محاذ بن چکے ہیں۔ یہ پھیلاﺅ حماس کے مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ اسرائیل کا اپنے متعدد دشمنوں کے ساتھ الجھ جانا اور اس کی طاقت کمزورتر ہو جانا حماس کےلئے سودمند ہے۔ دنیا کے سٹیج پر مسئلہ فلسطین کا ایک بڑے عالمی تنازع کی صورت میں نمودار ہونا بھی حماس کی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ دنیا فلسطین کا معاملہ بھول چکی تھی‘ اسرائیل مسلسل اپنی آبادیاں پھیلا رہا تھا۔ عرب ممالک اسرائیل کے قریب ہو رہے تھے اور قریب تھا کہ بڑے عرب ملک اسرائیل کو تسلیم کرکے باقیوں کےلئے راستہ ہموار کر دیتے مگر حماس نے تمام منصوبے خاک میں ملا دیے۔ پس پردہ ہونےوالے مذاکرات ختم ہو گئے اور عرب سربراہان نے اپنے شہریوں کے ردِعمل کے خوف سے خود کو فاصلے پر کر لیا۔ یہ بھی حماس کے مقاصد کی فتح اور اسرائیلی شکست ہے۔ ایک سال کے بعد عالمی سطح پر بھی اسرائیل کو بہت ممالک کی مخالفت اور تنہائی کا سامنا ہے۔ سات اکتوبر کے حملے کے بعد غیر مسلم دنیا کا تاثر حماس کے خلاف تھا لیکن غزہ پر وحشیانہ بمباری‘ عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد کے ساتھ بے گناہ عوام کی مسلسل شہادتوں نے یہ تاثر تبدیل کر دیا۔ اب اسرائیل نسل کشی کا مجرم ہے اور عالمی عدالت اسکے خلاف فیصلہ بھی دے چکی۔ اس سے قبل فلسطین کے حق میں دنیا بھر میں ایسے بھرپور مظاہرے نہیں ہوئے تھے۔ یہ بھی فلسطینیوں کی کامیابی ہے کہ اب اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے والا ملک نہیں بلکہ قتلِ عام کا مرتکب سمجھا جا رہا ہے اور فلسطینی جارح نہیں‘ مظلوم بن چکے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ مسلم ملکوں کے سربراہوں کو بھی خواہی نخواہی اسرائیل کی مذمت کرنا پڑتی ہے کیونکہ ان کے عوام میں اسرائیل کے خلاف بے پناہ نفرت پائی جاتی ہے۔ مسلم ممالک کا کردار‘ نیز او آئی سی کا کردار بدقسمتی سے زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں۔ اگرچہ ترکیہ دیگر ممالک سے بہتر کچھ عملی اقدامات کا حامل رہا ہے‘ تاہم زیادہ داد اُن ملکوں کو دینی چاہیے جو مسلم نہیں لیکن انسانیت کے ناتے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں۔ ان میں تازہ ترین اضافہ نکاراگوا کا اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان ہے۔ دو دن قبل بولیویا ان ممالک میں شامل ہوا جو عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی دائر درخواست میں فریق ہیں۔ یہ کامیابیاں اہم ہیں لیکن یہ بڑی قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں ہوئیں۔ 42 ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی‘ پورا غزہ ملبے کا ڈھیر بن جانا۔ حماس کے اہم لوگوں کی شہادت‘ بے گھری‘ وبائیں اور غذا‘ ادویہ اور طبی امداد کا قحط۔ یہ وہ قربانیاں ہیں جو حماس سمیت فلسطینیوں نے دیں اور جو ہنوز جاری ہیں۔
غزہ کی مختصر سی پٹی میں نہ تو کوئی صنعتیں تھیں‘ نہ فیکٹریاں‘ نہ بر آمدات۔ جو چھوٹے کاروبار تھے وہ جنگ میں تباہ ہو گئے۔ دور سے بیٹھ کر پُرامن ماحول میں بات کرنا اور چیز ہے اور دھماکوں‘ خون اور نعشوں کے بیچ رہ کر زندگی گزارنا بالکل اور معاملہ ہے۔ لیکن اسرائیل کا وہ منصوبہ ناکام ہو گیا کہ ہر طرف سے غزہ کے مسلمانوں کو کھدیڑ کر مصر کے صحراﺅں میں ہانک دیا جائے اور غزہ کی یہ پٹی خالی ہو جائے۔ نہ غزہ کے مقہور غزہ چھوڑنے کو تیار ہیں نہ مصر نے ان کےلئے راستہ کھولا۔ اس لیے ایک سالہ جنگ کے بعد بھی غزہ کا مستقبل اسرائیل کےلئے مسلسل چیلنج ہے۔ اس جنگ کا ایک اور نتیجہ اسرائیل کے خلاف یہ نکلا کہ فلسطین کے 14 گروپ یکجا ہو گئے۔ جولائی میں اعلانِ بیجنگ کے ذریعے‘ جس میں فلسطینی اتھارٹی اور حماس دونوں شریک تھے‘ ایک معاہدہ ہوا جس کے نکات فلسطینیوں کے مل کر کام کرنے اور اسرائیل کے خلاف مشترکہ جدوجہد پر مبنی ہیں۔ اب تک اسرائیل فلسطینی اتھارٹی اور حماس کے اختلافات کا فائدہ اٹھاتا رہا لیکن فلسطینیوں کا یکجا ہو جانا مستقبل میں اسرائیل کےلئے ایک بڑا مسئلہ بنے گا۔
فتح یا شکست صرف یہی نہیں کہ کس کا کتنا جانی نقصان ہوا‘ یا کتنی عمارتیں تباہ ہوئیں۔ اس تحریر میں ایک سالہ جنگ کے دوران اسرائیل کے عسکری‘ مالی‘ اقتصادی‘ سیاسی‘ سیاحتی نقصانات اور عالمی تعلقات پر بات نہیں کی جا سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک شعبہ اسرائیل کےلئے تاریخ کے بدترین نقصان کا پیغام لایا۔ اس پر تفصیلی بات ابھی کرنی ہے۔ لیکن ایک نظر بینک آف اسرائیل کے اس بیان پر ڈال لیجیے کہ اس سال کے آخر تک اسرائیل کی اس جنگ پر لاگت 67 بلین ڈالرز ہو جائے گی۔ یہ لاگت اس امریکی مسلسل امداد کے باوجود ہے جو امریکی تاریخ کا اسرائیل کےلئے سب سے بڑا پیکیج ہے۔ 67 ارب ڈالر لاگت کے بعد اسرائیل نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ مجھے اس میں شک نہیں کہ موجودہ پابندیوں اور مصلحتوں سے باہر مستقبل کا مورخ لکھے گا کہ اسرائیل کو بدترین زخم اسی جنگ میں لگے تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved