شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا کامیاب انعقاد پوری قوم کے لیے خوش خبری سے کم نہیں۔ اندرونی اور بیرونی گھٹن‘ کشمکش اور دشمن دشمن کے کھیل نے ہمیں طویل عرصے سے مایوسیوں کے اندھیروں میں قید کر رکھا ہے۔ اس سے نکلنے کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔ سفارتی تنہائی‘ امیج کے کٹھن مسائل‘ سیاسی عدم استحکام اور معاشی مسائل کا ہمارے حکمران ادراک کرتے نظر نہیں آ رہے اور نہ ہی قومی تعمیر وترقی کے حوالے سے کوئی حساسیت دکھائی دیتی ہے۔ ابھی دیکھیں گے کہ کیا اتحادی حکومت کوئی مربوط لائحہ عمل بنا سکے گی؟ اندرونی اصلاحات زندگی کے ہر شعبے میں درکار ہیں جنہیں بروئے کار لاکر حکومت عالمی برادری میں ملک کا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کی طرف کوئی خاطر خواہ پیش رفت کرے گی یا اپنی سیاسی بقا کی جدوجہد میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرتی رہے گی۔ ہمارا بڑا عالمی کردار تو دور کی بات ہے‘ ایک مؤثر اور خودمختار خارجہ پالیسی کی عملداری کے لیے بھی ہمیں کوئی واضح‘ مستحکم اور متوازن سمت ابھی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ ہمارے مسائل داخلی نوعیت کے ہیں‘ اور جب تک ہم انہیں حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے‘ ہم علاقائی اور عالمی اُفق پر اہم کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ کمزور معیشت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ہم بہت کچھ کھو بیٹھے ہیں۔
جنگیں لڑنے والے تو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر چلے گئے‘ مگر افغانستان کی طویل لڑائیوں کے جنگجو ہمارے معاشرے‘ عوام اور مملکت کے ساتھ خونریزی کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ ہمارے اندر بھی خطرناک انتہا پسند پیدا ہو چکے ہیں جو بات بات پر قتل وغارت‘ سڑکوں اور بازاروں کو بند کرانے پر اتر آتے ہیں‘ پولیس تک کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں‘ مگر ریاست میں اتنی سکت نہیں کہ ان کے خلاف مقدمات درج کرے۔ مقدمہ درج ہو بھی جائے تو نہ ان کی گرفتاری عمل میں آتی ہے‘ نہ مقدمات کسی حتمی نتیجے پر پہنچتے ہیں۔
ہم اُن کے خلاف کھلم کھلا آواز تک نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ یہی خوف دامن گیر رہتا ہے کہ نہ جانے کون سا فتویٰ اپنی زنبیل سے نکال کر ہمارے سر پر تھوپ دیں۔ ان کی طرف میڈیا بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ سب ڈر سے اپنی نگاہیں نیچی رکھتے ہیں۔ انتہا پسندی کے ظالمانہ مظاہر‘ جو ہم نے کوئٹہ اور عمرکوٹ‘ سندھ میں دیکھے‘ وہ ہمارے اور ریاستی استعداد کے بارے میں دنیا میں کیا تصور پیدا کرتے ہیں۔ اگر کسی پر وہ الزام دھر دیا جائے‘ جس کا تصور کرنا بھی مناسب نہیں‘ تو پولیس تھانوں کی دیواریں بھی پناہ نہیں دے سکتیں۔ ہماری مذہبی روایت اور قانون کی کتابوں میں عالمگیر اصول یہ ہے کہ الزام‘ الزام ہی ہے‘ جرم ثابت کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا۔ جو بھی فیصلہ ہو گا‘ سب تسلیم کریں گے۔ ایسے واقعات میں عدالتوں کے فیصلے اگر حق میں نہیں تو مانے ہی نہیں جاتے‘ اور یہ روش جب ہمارے حکمرانوں کی ہے تو اس کے اثرات نچلی سطح پر کیوں نہیں جائیں گے۔ عرض صرف یہ ہے کہ ہم کمزور ہیں‘ اور مصلحت کا دامن تھامتے ہوئے کھل کر بات کرنے سے گریزاں ہیں‘ نیز خواہش بھی ہے کہ مایوسی نہ پھیلائیں لیکن آپس کی بات ہے کہ دنیا نہ صرف ہمیں دیکھ رہی ہے بلکہ بہت قریب سے مشاہدہ کر رہی ہے۔ اس باریکی کی وجوہات آپ کو معلوم ہیں کہ ہم دنیا کا آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہیں۔ آبادی کی اکثریت مسلمانوں کی ہے‘ اور ہمارے پاس مہلک ترین ہتھیار بنانے اور رکھنے کی نہ صرف استعداد ہے بلکہ ہم ان میں خودکفیل بھی ہیں۔ لیکن دنیا ہمارے اسلحہ خانے سے نہیں بلکہ داخلی انتشار اور انتہا پسند تحریکوں سے گھبراتی ہے کہ کہیں ان کے ہاتھ میں یہ ہتھیار نہ آ جائیں۔ ہم تو دیکھتے رہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں دنیا میں کیا کہا اور لکھا جاتا رہا ہے‘ البتہ حکومتیں ذرا سفارتی آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے خموش رہتی ہیں۔ ان کے سفارت خانے ہر واقعے‘ ہر جلسے‘ جلوس اور یہاں تک انتہا پسندگروہوں کی تقاریر تک کے بارے میں اپنی حکومتوں کو روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس دیتے ہیں۔ کوئی شک ہو تو امریکہ‘ برطانیہ کی اب تک غیر درجہ بند دستاویزات یعنی وہ جن تک اب عوام کو رسائی دے دی جاتی ہے‘ دیکھ لیں تو تسلی ہو جائے گی۔ جی نہیں چاہتا کہ پروفیسر 'گیری جے باس‘ (Gary J Bass) کی ''بلڈ ٹیلی گرام‘‘ (The Blood Telegram: India's Secret War in East Pakistan) کی بات کروں جو پرنسٹن یونیورسٹی کے اس مدرس اور محقق نے مشرقی پاکستان کے واقعات کے بارے میں امریکی وزارتِ خارجہ کی ظاہر کردہ دستاویزات کی بنیاد پر لکھی ہے۔ اس میں تقریباً ہر واقعہ درج ہے۔ بظاہر کوئی ملک ہمارا کتنا ہی دوست کیوں نہ ہو‘ اور امریکہ اس وقت کسی حد تک ہمارے ساتھ تھا‘ مگر ہمارے ملک میں ان کے تعینات سفارت کار ریکارڈ رکھنے اور رپورٹس روانہ کرنے کا فریضہ بخوبی انجام دیتے ہیں۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے مبصرین کسی سیاسی تنازع کو طوالت اختیار کرتا دیکھتے ہیں اور جب انہیں کوئی حل دکھائی نہیں دیتا تو کہتے ہیں کہ ہم بند گلی میں کھڑے ہیں۔ سیاست کی بند گلی تو لگتا ہے کہ دنیا بھر سے طرح طرح کے کنٹینر منگوا کر ایسی بند کی گئی ہے کہ ہم نکل نہیں پا رہے۔ سب سے کٹھن بند گلی معیشت‘ داخلی سلامتی اور انتہا پسندی اور دیگر اہم امور کی ہے‘ کہ جہاں ہم کھڑے ہیں‘ وہاں کوئی راستہ نکلتا نظر نہیں آتا۔ ساری کوشش اتحادی حکومت کی یہ ہے کہ کسی طرح پچیس اکتوبر سے پہلے آئینی ترامیم منظور کرا لی جائیں۔ ادھر شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہو رہا تھا‘ اُدھر مسودوں پر غور وفکر اور حضرت مولانا صاحب کے دروازے پر دستک دی جا رہی تھی۔ ہمارے ہیرو حضرت مولانا صاحب ابھی پھسلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں‘ اور شاید وہ بھی وہیں پر ہوں جہاں پردوسرے کھڑے ہیں۔
گزارش ہے کہ بند گلیوں میں سے وہی نکل سکتے ہیں جو ان میں آسودہ نہ ہوں۔ پریشان ہوں اور اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کے لیے کچھ کریں۔ آج ہمارے بھارتی دوست‘ ڈاکٹر سریندر بھوٹانی صاحب‘ جو اَب پولینڈ کے ہو کر رہ گئے ہیں‘ نے رتن جی ٹاٹا کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک خط کا عکس بھیجا ہے جو انہوں نے 1996ء میں معاشی اصلاحات کے وقت آنجہانی وزیراعظم نرسمہا رائو صاحب کو لکھا تھا۔ یہ تقریباً تیس سال پہلے کی بات ہے کہ جب اصلاحات کرکے بھارت کو عالمی سطح پر ایک مقام دلوایا گیا۔ یہاں کیوں خموشی ہے‘ بلکہ جب بھی کوئی ماہر معاشیات‘ عالمی مالیاتی ادارہ اور کوئی ملک کا خیر خواہ دور بیٹھ کر اصلاحات کی بات کرتا ہے تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ آوازیں ان کے خلاف اتحادی حکومت میں شامل جماعت کی صفوں سے اٹھتی ہیں۔ بہت اچھا ہوا کہ ہمارے دوست ممالک نے شنگھائی کانفرنس کے انعقاد کے لیے اپنا تعاون پیش نہیں کیا‘ اور ہمیں عزت افزائی کا موقع دیا۔ مگر ایسے اجلاسوں کا انعقاد ستائیس سال بعد ممکن ہو‘ یا ان میں تسلسل نہ رہے تو یہ پالیسی کی کامیابی نہیں بلکہ ایک دو اچھے واقعات سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ عالمی سطح پر پیش رفت کے لیے سیاسی استحکام‘ جو حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت سے گفتگو اور تصفیے کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا‘ آگے بڑھنے کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ اور پھر معاشی‘ صنعتی اور خصوصاً بجلی کی پیدوار‘ ترسیل اور خرید وفروخت کے معاملات میں اصلاحات‘ جو اتنے ماہ گزرنے کے بعد بھی کہیں نظر نہیں آ رہیں‘ کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمیں اپنا مقام بنانے کے لیے ملک کو امن اور خوش حالی کی راہ پر ڈالنا ہو گا۔ نہ جانے یہ خواب کب پورے ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved