تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     18-10-2024

شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس‘ ایک نئے پاکستان کا آغاز

اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 23ویں سربراہی اجلاس کے کامیاب انعقاد پر حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔ پاکستان میں بہت عرصے کے بعد اس معیار کا کوئی بین الاقوامی ایونٹ منعقد ہوا ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والے ایس سی او کے سربراہی اجلاس سے دنیا کو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستان میں عالمی سرمایہ کاروں کے لیے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں اور یہ کہ پاکستان اقتصادی تعاون کے لیے بنائی گئی عالمی تنظیموں میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ ایس سی او کے سربراہی اجلاس میں چینی وزیراعظم لی چیانگ اور روسی وزیراعظم میخائل میشوستین کی شرکت نے اسے اور بھی اہم بنا دیا۔ ان دو ممالک کے علاوہ بیلاروس‘ قازقستان‘ تاجکستان‘ ازبکستان اور منگولیا کے وزرائے اعظم بھی اجلاس میں شریک ہوئے جبکہ ایران کی طرف سے وزیر تجارت سید محمد اتابیک‘ بھارت کی طرف وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور کرغزستان کی طرف سے چیئرمین کیبنٹ منسٹر (وزیراعظم) زاپاروف اکیل بیک اجلاس میں شریک ہوئے۔ ایس سی او کے اجلاس میں تنظیم کے ممبر اور مبصر ممالک کے درمیان باہمی تعاون اور یوروایشیا (یورپ اور ایشیا) میں روابط بڑھانے پر توجہ مرکوز کی گئی۔ علاوہ ازیں معاشیات‘ ماحولیات اور ثقافتی معاملات بھی زیر بحث آئے۔ اس اجلاس کی سب سے اہم پیش رفت ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک کے قیام کے لیے کوششیں تیز کرنے اور باہمی ادائیگیوں کے لیے اپنی اپنی کرنسی کے استعمال کو بڑھانے پر اتفاقِ رائے ہے۔ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی ایک ملک کی جانب سے دوسرے پر یکطرفہ پابندیوں کا اطلاق بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ یہ نکتہ اٹھانے کا مقصد مغربی ممالک کو یہ باور کرانا ہے کہ وہ اپنے جغرافیائی سیاسی حریفوں روس اور ایران کے خلاف پابندیوں اور ڈالرز کو بطور ہتھیار استعمال نہ کریں۔ اس کے علاوہ مشترکہ اعلامیے میں روایتی اقدار اور ثقافتی اور تہذیبی تنوع کے تحفظ پر بھی زور دیا گیا۔
جہاں تک اس اجلاس میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے خطاب کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی تقریر میں موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو اجاگر کیا جبکہ افغانستان میں استحکام کی ضرورت پر بھی بات چیت کی۔ اگرچہ وہ بطور مبصر ایس سی او کا رکن ہے لیکن 2021ء میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے افغانستان نے ایس سی او کے کسی بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اس تنظیم سے منسلک ہونے کے ناتے افغانستان کو اپنی سرزمین شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبر ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینی چاہیے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں بھارتی وزیر خارجہ کی شرکت خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ انہوں نے بھارت واپسی سے قبل تنظیم کے سربراہی اجلاس کے کامیاب انعقاد پر حکومتِ پاکستان کو سراہا۔ شروع میں بھارت کی اس اجلاس میں شرکت مشکوک تھی‘ لیکن بھارت نے اپنے وزیرخارجہ کو اجلاس میں بھیج کر اچھا تاثر قائم کیا۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے بارے میں جھوٹی خبریں اور پروپیگنڈا ہمیشہ سے بھارت کی حکمت عملی کا حصہ رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل یورپی یونین کے ایک ادارے کی تحقیقاتی رپورٹ میں ایسی سینکڑوں ویب سائٹس کا انکشاف ہوا تھا جو پاکستان کے حوالے سے غلط اور جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے استعمال کی جا رہی تھیں اور جن کا مقصد پاکستان بارے عدم تحفظ کی کیفیت پھیلانا اور پاکستان کے معاشی بحران کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا تھا تاکہ اس کی عالمی ساکھ متاثر ہو۔ ان بھارتی افواہوں کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔
جہاں تک پاک افغان تعلقات کا تعلق ہے تو دونوں ممالک کے تعلقات مختلف ادوار میں سردمہری کا شکار رہے ہیں۔ افغانستان کی طرف سے یہ الزامات عائد کرکے کہ پنجابی حکمرانوں کی طرف سے پشتونوں کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا گیا‘ پشتونوں کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کی مذموم کوشش کی جاتی رہی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پشتون ہمیشہ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ مثلاً قائداعظم محمد علی جناح کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان پشتون تھے‘ صدرِ مملکت جنرل محمد ایوب خان پشتون تھے‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پشتون تھے‘ عمران خان سے لے کر انوارالحق کاکڑ تک سب پشتون ہیں۔ اسی طرح قاضی حسین احمد‘ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق‘ یہ سب پشتون ہیں۔ پاکستان میں جتنی تعداد پشتونوں کی ہے‘ افغانستان میں لگ بھگ اتنی ہی تعداد ہزارہ قوم کی ہے لیکن پاکستان میں پشتون کمیونٹی کو بے شمار حقوق دیے گئے اور دوسری طرف افغانستان میں ہزارہ قوم مظالم کا شکار رہی‘ حتیٰ کہ ہزارہ کمیونٹی کی حصولِ تعلیم کی راہ میں بھی مشکلات پیدا کی گئیں تاکہ ہزارہ قوم زیادہ پڑھ لکھ نہ سکے۔
پاکستان میں پشتونوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے ایک جماعت کام کر رہی تھی لیکن اس کی پس پردہ سرگرمیوں کو مشکوک قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت نے چند روز قبل اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔اس ضمن میں وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ پی ٹی ایم ملک میں امن و سکیورٹی کیلئے خطرہ ہے‘ 1997ء کے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11 بی کے تحت پی ٹی ایم پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔تمام سرکاری محکموں کے ملازمین کو بھی مطلع کر دیا گیا ہے کہ اس جماعت کے کسی پروگرام یا سرگرمی میں جسمانی‘ مالی یا کسی بھی صورت میں ظاہر یا خفیہ شرکت غیرقانونی ہے اور ایسا کرنے والے کے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ گزشتہ دنوں تین روزہ قومی جرگہ میں اس جماعت کی جانب سے قبائلی علاقوں سے سکیورٹی فورسز کے انخلا کا جو مطالبہ رکھا گیا وہ ناقابلِ فہم ہے۔ اس جرگے کے انعقاد سے قبل پشاور میں آل پارٹیز جرگہ نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کو قومی جرگہ سے بات چیت کا اختیار دیا تھا‘ انہیں ان مطالبات کے حوالے سے بات کرنی چاہیے تھی۔خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرکے پشتونوں کے گلے شکوے دور کر سکتی ہے۔صوبائی حکومت کو چاہیے کہ صوبے میں فلاحی منصوبے شروع کرے‘ مقامی حکومت کے فلاحی منصوبوں کو عملی شکل دے اور فاٹا کے جن اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم کیا گیا ہے‘ وہاں تعمیرو ترقی کے منصوبے شروع کرے تاکہ علاقے کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکے۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو وطنِ عزیز کو اس وقت سیاسی خلفشار کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت گزشتہ ایک ماہ سے آئینی ترامیم کی منظوری کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔ 15 ستمبر کو آئین میں 26ویں ترمیم کے حوالے سے اتفاقِ رائے نہ ہونے اور حکومت کو درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔اب وفاقی حکومت ہر صورت 25 اکتوبر سے پہلے آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے پُرعزم ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے بعد حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے کو حتمی شکل دینے کے لیے کوششیں مزید تیز کردی ہیں۔ گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں جن میں حکومتی مسودے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کی گئی مگر اب تک کی اطلاعات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی مسودے کے بجائے جمعیت علمائے اسلام کے ترمیمی مسودے پر اتفاقِ رائے کا زیادہ امکان ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved