اللہ تبارک وتعالیٰ نے کائنات اور اس میں موجود تخلیقات کچھ ایسے انداز سے تخلیق فرمائی ہیں کہ ایک ایک قسم کی بہت ساری اقسام ہیں‘ لہروں پر لہریں ہیں‘ جھونکوں پر جھونکے ہیں‘ سمندر کے ساحل پر بندہ کھڑا ہو جائے تو لہریں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ یہ سمندری لہریں ہیں جو ہمیں نظر آتی ہیں۔ فضائوں اور خلائوں میں فضائی اور خلائی لہروں (Waves) کا تو کوئی شمار ہی نہیں۔ ان کی اقسام بھی بے شمار ہیں اور ہر قسم کا دائرۂ کار بھی ہمارے لیے لامحدود ہے۔ ہمارے اپنے وجود کا یہ حال ہے کہ اس کی کوئی سمجھ سائنس دانوں کو نہیں آ رہی۔ حیرانیوں پر حیرانیاں ہیں کہ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ حالانکہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت اس کے اپنے وجود کی بقا ہے‘ اس کے لیے ہی میڈیکل کا علم وجود میں آیا‘ ہسپتال بنے۔ میڈیکل کالج بنائے گئے۔ ایک ایک عضو کے خصوصی معالج بن گئے۔ سرجن بن گئے‘ جدید سے جدید مشینیں بن گئیں۔ لیبارٹریاں بن گئیں مگر آج بھی انسان مر رہے ہیں۔ انسان بیماریوں سے مر رہے ہیں یا جنگوں میں انسانوں کے بنائے ہوئے مہلک ہتھیاروں سے مر رہے ہیں۔ ایکسیڈنٹ سے مر رہے ہیں یا قدرتی آفات سے مر رہے ہیں۔ مفادات کے لالچ میں مر رہے ہیں یا مارے جا رہے ہیں۔ بہرحال انسان مر رہے ہیں۔ مرنے کے بعد انسان کہنے کو تو مردہ کہلاتا ہے مگر اب سائنس کو ایک مسئلہ درپیش ہے۔ جدید میڈیکل سائنس کی پرابلم یہ ہے کہ ہم مُردے کو کب کہیں کہ یہ واقعی مردہ ہے؟
صدیوں بلکہ ہزاروں برس کا مشاہدہ یہی چلا آ رہا ہے کہ انسان کی سانس بند ہو گئی‘ نبض چیک کی گئی وہ بھی بند تھی تو اعلان کر دیا گیا کہ بندہ مر گیا ہے۔ مرنے کے بعد اب یہ مردہ ہو گیا۔ یہ بادشاہ تھا تو اب اس کا اصل سٹیٹس ''مردہ‘‘ ہو گیا۔ یہ نیک تھا یا بُرا‘ یہ مردہ ہے۔ امیر تھا‘ غریب تھا‘ یا جو بھی تھا‘ مگر اب یہ مردہ ہے۔ مردے کی جگہ اب زمین کے نیچے ہے۔ جدید ریسرچ کو میں اگر 20 نومبر 2019ء سے شروع کروں تو معروف سائنسی جریدے New Scientist وغیرہ کی ریسرچ یہ ہے کہ جب وینٹی لیٹر اور زندگی بچانے والی دیگر مشینیں سامنے آئیں اور دل کو آکسیجن ملنا شروع ہو گئی تو دل کی دھڑکن تو جاری ہو گئی مگر دماغ بدستور فنکشنل ہونے سے معذور ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ مریض کو وینٹی لیٹر وغیرہ سے جدا کیا گیا تو تب اسے مردہ سمجھ لیا گیا۔ قارئین کرام! اس ضمن میں میرے مضامین آپ کو یاد ہوں گے۔ امریکہ کے معروف دماغی ڈاکٹر اور میڈیکل ریسرچر سام پارنیا (Sam Parnia) کی ریسرچ بھی آپ کے سامنے ہو گی کہ بندہ جب مردہ ہو گیا تو اس کے دماغی نیورونز میں تحرک کئی گنا بڑھ گیا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ ہم بندے کو کب مردہ کہیں؟ پھر بات آدھے گھنٹے تک گئی تب بھی یادداشت کا شعبہ انتہائی تیز تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان زندگی میں جو کچھ کرتا ہے‘ موت کے معروف تصور کے بعد بھی اس کے دماغ کا ''شعبۂ یادداشت‘‘ اسے بتا رہا ہوتا ہے کہ دیکھ لو اپنی زندگی کی فلم کہ تم دنیا میں کیا کچھ کرتے رہے ہو؟ تب انسان کی دماغی صلاحیت کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ چند منٹ میں اپنی پوری زندگی میں کیے ہوئے اپنے نیک و بد اعمال دیکھ لیتا ہے۔ مگر اب بات اس سے بھی آگے بڑھ گئی ہے۔ ''نیو سائنٹسٹ‘‘ میں معروف سائنسی صحافی Helen Thomson کا ایک آرٹیکل شائع ہوا۔ اس میں تین نکات یوں سمجھئے کہ جدید ریسرچ کا خلاصہ بیان کرتے ہیں۔
1: Why the line between life and death is now more blurred than ever.
زندگی اور موت کے درمیان جو لکیر ہے‘ یہ آج سے پہلے اس قدر مخمصے کا شکار نہ تھی جس قدر اب ہے۔
2: For starters there is no globally agreed definition of death.
ابتدا ہی سے اس دنیا میں موت کب واقع ہوتی ہے‘ اس امر پر کوئی اتفاق نہیں ہے۔
3: Brains can be resuscitated hours after.
موت کے بعد دماغ کئی گھنٹے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔
قارئین کرام! اب سائنسدان سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے کہا کہ:
How we should decide when dead really is dead.
مردہ کب صحیح معنوں میں مر جاتا ہے‘ اس کا فیصلہ ہمیں کیسے کرنا چاہئے؟
قارئین کرام! اب سائنسدانوں نے فیصلہ کیا کہ ویٹی کن کے مسیحی علما اور پوپ‘ پادریوں سے رابطہ کیا جائے۔ زندگی وموت کے فلسفے کو سمجھنے والے فلاسفرز سے رابطہ کیا جائے۔ انہوں نے رابطہ کیا بھی مگر اطمینان بخش جواب میڈیکل سائنسدانوں کو نہ مل سکا۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ ریسرچ کرتے کرتے امریکہ اور یورپ کا یہ جدید سائنسی معاشرہ جن پوپ‘ پادریوں اور مذہبی فلاسفروں سے بھاگا کرتا تھا‘ ان کی غیر سائنسی اپروچ کی وجہ سے ان سے بدظن ہوا تھا‘ وہ جو زمین کو کائنات کا مرکز مانتے تھے‘ سورج کو زمین کے گرد گھومتا ہوا مانتے تھے‘ ان کے نظریات کا سائنسدانوں نے انکار کیا تو ان حکمران مذہبی مسیحی پادریوں نے سائنسدانوں کو جان سے مار دیا‘ آگ میں جلا دیا‘ یہ مذہبی رہنما غلط تھے تاریخ اور سائنس نے وقت کے ساتھ یہ ثابت کر دیا۔ سائنس آج عروج پر ہے‘ سائنس دان اب حیات بعد الموت کے معاملے میں پھر انہی مذہبی رہنمائوں سے رہنمائی لینے پہنچ گئے ہیں۔ خالق کا انکار کرنے والے خالق کو ماننے والوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ مسیحی علما اپنے غلط نظریات کے ساتھ سائنس یعنی کائناتی علم کی صداقتوں کے سامنے غلط کھڑے ہوئے اور شکست کھا گئے مگر شکست خوردہ اور ہزیمت کے شکار لوگوں کی ہر بات غلط تو نہیں ہوتی۔ انہی علما کی یہ بات تو بہرحال صحیح تھی اور سو فیصد درست ہے کہ موت کے بعد بھی ایک زندگی ہے۔ مگر آج کی تورات‘ زبور اور انجیل اس طرح سے واضح جواب دینے سے قاصر ہیں جس طرح کا جواب سائنسدان چاہتے ہیں۔ ہندوئوں کی مذہبی کتابیں‘ چاروں وید اور دیگر کتب اور ان کے پروہت پنڈت بھی اس میدان میں تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہیں۔
قارئین کرام! 18 اکتوبر 2023ء کو پرنسٹن یونیورسٹی‘ سنٹر فار ہیومن ویلیوز میں اور ریسرچ کے دیگر اداروں میں بات یہاں تک آ گئی کہ ''جب ہمارے خلیات اور نیورونز وغیرہ مرتے ہیں تو ہم بھی مر جاتے ہیں‘‘۔ اس کے جواب میں سائنسدانوں نے کہا: ''It would seem‘‘۔ بظاہر تو ایسا ہی ہے... مگر
It's not necessarily as for how this. Life after death is possible we are not entirely sure.
یہ ضروری نہیں ہے کہ ایسا ہی ہو۔ موت کے بعد زندگی کا وجود ممکن ہے مگر ہم مکمل طور پر یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔
قارئین کرام! آپ نے دیکھا کہ میڈیکل کے سائنسدان بطورِ خاص دماغ کے ماہرین‘ نیورونز کے ماہرین اور سرجن کم از کم پچاس سے ساٹھ فیصد تک اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ موت کے بعد زندگی ممکن ہے۔ جیسا کہ ہم نے آغاز میں کہا کہ یہاں تو لہروں کے اوپر لہریں ہیں۔ ویوز کے اوپر ویوز ہیں۔ روشنی کی بے شمار اقسام ہیں۔ نور کی نہ جانے کتنی لاتعداد اقسام ہیں۔ خود مادے کی اقسام لاتعداد ہیں۔ یہ پرتیں ہٹاتے ہٹاتے‘ دریافت کرتے کرتے آخر کار قرآن مجید اور حضرت محمد کریمﷺ کی لائی ہوئی صداقت کو ماننا ہی پڑے گا۔ اہلِ سائنس کو اس طرح اطمینان نہیں ملے۔ اطمینان کیسے ملے گا؟ دلائل و براہین اور سائنسی انکشافات کے ساتھ۔ اس موضوع پر مزید آئندہ‘ ان شاء اللہ!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved