جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ فساد فی الارض ہے۔ فساد کو اسلام نے ادنیٰ درجے میں بھی گوارا نہیں کیا۔ مفسدین کے لیے شدید ترین سزا تجویز کی گئی ہے۔ دنیا کے قانون میں بھی اسے سنگین جرم سمجھا گیا ہے۔ اس کو وعظ ونصیحت سے نہیں‘ صرف طاقت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ فسادیوں کو سزا دے۔
جو ہو رہا ہے‘ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ املاک جلائی جا رہی ہیں۔ عام آدمی کی زندگی مشکل بنا دی گئی ہے۔ راستے بند ہیں۔ پتھراؤ ہے۔ نوجوان نسل کے نمائندے شترِ بے مہار کی طرح سڑکوں پر دندنا رہے ہیں۔ یہ کسی مفہوم میں احتجاج نہیں ہے۔ یہ آزادیٔ رائے کا اظہار ہے نہ جمہوریت کا۔ اس کا ایک مقصد تو واضح ہے: ملک میں انتشار اور بدامنی پھیلانا۔ دیگر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں جن کا کھوج لگانا حکومت کا کام ہے۔
نئی نسل کو ہیجان میں مبتلا کر کے‘ ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ آج کا سب سے اہم سوال ہے۔ نوجوانوں کے سماجی کردار کے بارے میں ہمارے ہاں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ کبھی انہیں انقلاب کا ہراول دستہ بنایا گیا۔ کبھی انہیں تبدیلی کا انجن قرار دیا گیا۔ کبھی نظریاتی محاذ کا سپاہی بنایا گیا۔ کبھی جہادی تحریکوں نے ان کے لہو سے اپنے نظریات کی آبیاری کی۔ یہ سب کھیل پاکستان میں کھیلے گئے۔ تاریخ یہ ہے کہ یہ تمام بیانیے نوجوانوں کے لیے بربادی کا پیغام ثابت ہوئے۔ اَن گنت سماجی اور فکری غلط فہمیاں ہیں جن کی گرد میں نوجوانوں کے کردار کو دھندلا دیا گیا۔ آج لازم ہے کہ ان غلط فہمیوں سے نجات حاصل کی جائے۔
نوجوان کا مترادف لفظ اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ طالب علم ہے۔ نوجوانی کادور وہی ہے جو رسمی تعلیم کی عمر ہے۔ دنیا کی کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اگر اس کے نوجوان اس عمر میں اپنی تمام تر توجہ تعلیم پر مرتکز نہ کریں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اس کا کوئی تصور نہیں کہ نوجوانوں کے لیے تعلیم کے علاوہ بھی دلچسپی کا کوئی میدان ہو سکتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انسان بعض قدرتی رجحانات کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور ان کی آبیاری کی عمر بھی یہی ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ فنون اور آرٹ کو رسمی تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا۔ اسی کے ساتھ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے فروغ کے لیے‘ تعلیمی اداروں ہی میں ماحول فراہم کیا گیا۔ جیسے طلبہ یونینز۔ ان کے تحت سرگرمیوں کا ہجوم ہے جن میں سیاسی مہارت سے لے کر فکری معرکوں تک‘ سب کچھ شامل ہے۔
دنیا میں یہ سب کچھ تعلیم کا حصہ ہے اور یہ سرگرمیاں زیادہ تر تعلیمی اداروں کی چار دیواری ہی میں ہو رہی ہوتی ہیں۔ جب نوجوانوں کو تعلیم کے راستے سے ہٹا کر‘ مذہبی یا سیاسی گروہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے اور انہیں تعلیمی اداروں سے نکال کر‘ سڑکوں پر لے آتے ہیں تو وہ ان کے بدترین استحصال کے مرتکب ہو تے ہیں۔ یہ کسی قوم کے مستقبل سے کھیلنا ہے جوایک سنگین جرم ہے۔ اس سے نہ صرف نوجوان عمرِ رائگاں کا ماتم کرتے رہ جاتے ہیں بلکہ سماج بھی زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس جرم کاسب سے پہلا ارتکاب بیسویں صدی کی نظریاتی جماعتوں نے کیا جو انقلاب کا عَلم لے کر اٹھیں۔ انقلاب سیاسی لغت میں فساد ہی کا مہذب نام ہے۔ اس میں خون بہانے کو لازم قرار دیا جاتا ہے اورموت کو گلیمرائز کیا جاتا ہے۔ ان نظریاتی تحریکوں نے نوجوانوں کو رنگ برنگے انقلابوں کا ہراول دستہ بنایا اور یوں ان کی زندگیاں برباد کیں۔
گزشتہ دس بارہ برسوں میں یہ کام تبدیلی کے نام پر کیا گیا۔ پہلے نظریاتی ہیجان تھا اب محض ہیجان ہے۔ ایک حکمت عملی کے ساتھ‘ نوجوانوں کو مسلسل مضطرب رکھا جاتا ہے اور انہیں سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اس کے لیے سوشل میڈیا کا ہتھیار استعمال ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کی اس طرح نظر بندی کر دی گئی ہے کہ انہیں پیش پا افتادہ چیزیں دکھائی نہیں دیتیں۔ ان کی آنکھیں وہ کچھ دیکھتی ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ نظریاتی ہیجان سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ ایک بے مغز سرگرمی ہے اور اس کا کوئی علاج موجود نہیں۔
گزشتہ چند دن میں ہم نے جو کچھ دیکھا‘ یہ اس محنت کا ثمر ہے جو دس بارہ سال کی گئی۔ دلیل اس وقت بے معنی ہو چکی۔ جہاں آنکھوں دیکھی حقیقت قابلِ قبول نہ ہو‘ وہاں عقل کی کارفرمائی نہیں رہتی۔ جس نسل کو مذہب ہو یا سیاست‘ ہر معاملے میں صرف جذبات پرستی سکھائی گئی ہو‘ اس سے اس کے علاوہ کوئی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ ایک تعلیمی ادارے کو تباہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نئی نسل اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا مستقبل برباد کر نے پر تُلی ہے۔
جن لوگوں نے ان نوجوانوں کو اپنے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا‘ انہوں نے ظلم کیا‘ اور ان سے بڑے ظلم کے مرتکب وہ لوگ ہیں جو اس کی تائید کر رہے ہیں اور اسے بڑا جہاد قرار دے رہے ہیں۔ اس ملک کی سیاست کس ڈگر پر چل رہی ہے اور اس میں کس فریق کا کیا کردار ہے‘ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ نئی نسل کو کیا کرنا چاہیے‘ یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔ اس مقدمے کو اگر برسبیلِ تذکرہ مان لیا جائے کہ ملک میں ریاست سیاسی مخالفین پر ظلم ڈھا رہی ہے تو بھی اس کا جواز نہیں بنتا کہ نوجوانوں کو اشتعال دلا کر انہیں سیاسی مقاصد کی بھینٹ چڑھا دیا جائے اور انہیں تخریب کی راہ دکھائی جائے۔
پہلے یہ فساد جمہوریت کے نام پر ہوتا تھا اور اسے 'احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے‘ جیسے خوش نما نعروں میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا تھا۔ اس بار تو یہ فساد پوری برہنگی کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ ایک افسانے کو جانتے بوجھتے طوالت دی جا رہی ہے اور حقائق آشکار ہو جانے کے باوصف اسے واقعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ فساد کو جواز بخشا جائے۔ ایسے فسادی عناصرکے خلاف ریاست طاقت استعمال کرتی ہے کیونکہ لوگوں کی جانوں اور املاک کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہے۔
دنیا کے کسی معاشرے میں فساد کو گوارا نہیں کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے تو اس کے بعد ریاست نے طاقت کا استعمال کیا۔ کچھ ہی دن پہلے برطانیہ میں اسی طرح ایک افسانے کو بنیاد بنا کر اور سوشل میڈیا کے سوئے استعمال سے فساد برپا کیا گیا تو ریاست نے آہنی ہاتھوں کا استعمال کیا۔ کسی نے یہ نعرہ نہیں لگایا کہ احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے۔ برطانیہ نے زبانِ حال سے بتایا کہ فساد کو صرف طاقت سے روکا جا سکتا۔
ہمارا انتظامی ڈھانچہ برباد ہو چکا۔ اس میں یہ صلاحیت ہی باقی نہیں رہی کہ یہ فسادیوں پر قابو پا سکے۔ آج پولیس کے محکمے کی تشکیلِ نو ازبس ضروری ہے۔ اسی طرح ماضی میں دس ہزار کے مجمع کو فساد سے روکنے کے لیے ایک اے سی کفایت کرتا تھا۔ اب انتظامیہ پچاس افراد کو روکنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ مجھے شدید حیرت ہوئی کہ مرکز اور صوبے کی حکومتیں مل کر بھی بارہ پندرہ ہزار کے مجمع کو روک نہ سکیں‘ باوجود اس کے کہ موٹروے تک کھود ڈالی گئی۔ میں اس وقت کسی احتجاج کے جواز یا عدم جواز کی بات نہیں کر رہا۔ صرف انتظامی صلاحیت پر تبصرہ کر رہا ہوں۔
اگر ہم نے یہاں ایک پُرامن معاشرہ قائم کرنا ہے تو جمہوریت اور فساد کو الگ کرنا ہو گا۔ فساد کسی صورت گوارا نہیں۔ لوگوں کے جان و مال اور بنیادی حقوق کی حفاظت‘ ریاست کا مقصدِ وجود ہے۔ جب ریاست یہ نہ کر سکے تو وہ اپنا جواز کھو بیٹھتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved