آج سوچ رکھا تھا کہ سیاست پر بات کرنی ہے اور نہ ہی قارئین کے ساتھ کوئی غمناک واقعہ شیئر کر کے انہیں اداس و پریشان کرنا ہے بلکہ ہلکے پھلکے انداز میں ''بے حسی‘‘ کے فوائد کے بارے میں گفتگو کرنے کا ارادہ تھا۔ جینے کے لیے بے حسی کا کسی قدر ہونا بھی ضروری ہے۔ غالباً اسی لیے تو ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا تھا کہ
کچھ بے حسی بھی چاہئے بہرِ سکون دل
ہر لرزشِ صبا کے کہے پر نہ جائیے
اور دیکھئے جون ایلیا نے اس حوالے سے کیا کہا ہے:
بے حسی شرط ہے جینے کے لیے
اور ہم کو احساس کی بیماری ہے
ادھر ہمیں بھی احساس کی شدت نے جلا رکھا ہے۔ ظلم اور وہ بھی خوفناک ظلم دیکھ کر بہرِ سکون دل‘ خاموشی اختیار کرنا اپنے بس میں نہیں۔ 17 اکتوبر کے پاکستانی اور برطانوی اخبارات دیکھ کر لب سی رکھنے کا ہمیں یارا نہیں۔
لندن میں اپنے باپ‘ سوتیلی ماں اور سگے چچا کے ہاتھوں ناقابلِ یقین اذیتیں برداشت کر کے زندگی کی بازی ہار دینے والی دس سالہ معصوم بچی کے بارے میں یو کے اور پاکستانی مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر خبریں تو سال ڈیڑھ سال سے آ رہی تھیں مگر 16 اکتوبر بدھ کے روز لندن کی عدالت میں سارہ کے پوسٹ مارٹم کی تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جس سے یہ معلوم ہوا کہ دس سال کی بچی پر وہ ظلم ہوتا رہا کہ جس کا ارتکاب کوئی درندہ بھی نہیں کرسکتا ‘مگر ان درندوں میں معصوم بچی کا اپنا باپ ‘اس کا حقیقی چچا اور اس کی سوتیلی ماں شامل تھی۔
استغاثہ نے عدالت میں انکشاف کیا کہ کئی مہینوں کی مسلسل خوفناک مار پیٹ کے نتیجے میں بچی دم توڑ گئی تھی۔ اس کے جسم پر بیرونی و اندرونی 70 شدید ضربات کے نشانات تھے۔ اس کی لاش بچی کے گھر ووکنگ سرّے‘ لندن کے علاقے سے 10 اگست 2023ء کے روز ملی تھی۔
لندن کے معروف پیتھالوجسٹ ڈاکٹر نیتھینن کیری نے پوسٹ مارٹم کے بعد تصدیق کی کہ بچی کے جسم پر گہرے زخم‘ سر پر شدید چوٹیں‘ گرم استری سے بھی جسم جلانے کے نشانات۔ ظالموں نے یہاں ہی بس نہیں کی بلکہ بچی کے جسم پر کھولتا ہوا گرم پانی بھی ڈالا گیاتھا۔ سارہ کے پرانے گھر سے یہ شواہد بھی ملے کہ اس مار پیٹ سے بچی کی ریڑھ کی ہڈی پر بھی کئی زخم تھے۔ گھر سے خون کے دھبوں والا ایک کرکٹ بیٹ اور اس کے علاوہ کچھ میخیں بھی ملی ہیں جن پر لگا خون سارہ کے ڈی این اے سے میچ کرتا ہے۔ بچی کو اذیت دینے والے دوسرے آلاتِ ضرب میں لوہے کا راڈ ‘ایک بھاری بیلٹ اور رسّہ شامل تھے۔ پیتھالوجسٹ ڈاکٹر نے سر اور جسم پر بہت سی چوٹوں کو انتہائی شدید نوعیت کے زخم قرار دیا ہے۔
یہ سارے غیر انسانی مظالم کی رپورٹ دیکھ کر میرے ذہن میں لاوے کی طرح یہ سوال کھولنے لگا کہ ان مظالم کا ارتکاب کرنے والوں نے ایسا کیوں کیا؟ لوئی ول کینٹکی‘ امریکہ کے ممتاز ماہر نفسیات ڈاکٹر اسد اسماعیل میرے نہایت عزیز دوست ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ پوسٹم مارٹم رپورٹ شیئر کر کے ان سے پوچھا کہ ایک حقیقی باپ اتنی حیوانیت اور درندگی کیسے اختیار کر سکتا ہے؟ڈاکٹر صاحب نے سادہ الفاظ میں مجھے سمجھایا کہ بعض لوگوں کی شخصیت اینٹی سوسائٹی ہوتی ہے۔ یعنی وہ لوگوں سے دور بھاگتے ہیں‘ اپنی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں‘ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ سائیکوپیتھ (Psychopathy) کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اتنے خوفناک جرائم کا ارتکاب کر کے بھی کوئی افسوس یا ندامت نہیں ہوتی ۔
ڈاکٹر صاحب کے تجزیے کے مطابق عین ممکن ہے کہ سارہ کے ظالم باپ پر اس کے باپ اور چچا وغیرہ نے ایسے ہی مظالم توڑے ہوں گے نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے اپنے گھر میں ایسی ہی مار دھاڑ والا ماحول دیکھا ہو اور وہ بھی اسی طرح کی مار پیٹ کا شکار ہوا ہو۔ اب وہ اپنی معصوم بچی کے ساتھ وہی کچھ کر رہا تھا جو اس نے اپنے گھر میں شاید اپنے بڑوں کو بچیوں کے ساتھ کرتے دیکھا ہو۔ ڈاکٹر اسد اسماعیل نے بتایا کہ یہاں لوئی بل میں اُن کے پاس ایک مریض آتا ہے جس نے بتایا کہ جب اس کی بیوی چیختی چلاتی ہے تو وہ بھی جواباً اس سے بڑھ کر بلند آواز میں دھاڑتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اپنے امریکی مریض سے کہا کہ تم تو بات سمجھتے ہو مگر اپنے ردعمل کو دھیما کیوں نہیں رکھتے اس پر مریض نے کہا کہ میں نے اپنے گھر میں اپنے ماں باپ کو بھی ایسے ہی لڑتے جھگڑتے دیکھا تھا۔ اب شاید یہی کچھ میرے جینزکے اندر بھی ہے۔میں نے آخری سوال یہ پوچھا کہ ایک ہی گھر کے افراد اس بچی کے ساتھ اذیت ناک سلوک کرتے رہے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایک ہی ذہنی و سماجی پس منظر رکھنے والے یہ تینوں افراد ابنارمل ہیں۔
برطانیہ میں بھی بعض ماہرین نفسیات نے سارہ شریف کے قاتلوں کا نفسیاتی تجزیہ کیا ہے۔انہوں نے اس سلسلے میں سارہ کی والد اور سوتیلی ماں کا انٹرویو بھی کیا۔ اس انٹرویو کے دوران سارہ کے والد نے مکمل خاموشی اختیار کی جبکہ اس کی سوتیلی ماں نے سوالات کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جوابات دینے کی بجائے سر جھکا کر بغیر نظریں ملائے اپنے وکلا کا لکھا ہوا بیان پڑھنے کو ترجیح دی۔لندن کے نفسیاتی ماہرین نے سارہ کی موت کے فوراً بعد اس کے باپ‘ سوتیلی ماں اور ساری فیملی کی بدحواسی میں پاکستان کی طرف فرار ہونے کے بارے میں کہا کہ اس طرح اس شک کو مکمل تقویت ملتی ہے کہ وہی قاتل ہیں۔
جناب نسیم احمد باجوہ لندن کے نہایت ممتاز وکیل ہیں۔ میں نے جمعرات کے روز اُن سے بات کر کے اس کیس کی نوعیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ان دنوں برطانیہ کے میڈیا میں یہ خبر نہایت نمایاں طور پر نشر بھی ہوئی ہے اور شائع بھی۔ میں نے باجوہ صاحب سے پوچھا کہ آپ کی رائے میں اس کیس کی نوعیت کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میرے نزدیک بادی النظر میں تینوں مجرم ہیں اور انہیں برطانیہ کے قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ سزا ملے گی جو کم از کم پچیس‘ تیس سال ہو سکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں جانے والے ہمارے اکثر ہم وطن زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے تاہم بعض وہاں جا کر پروگریسو سوچ کا ثبوت دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو اعلیٰ زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں‘ مگر ایک بہت بڑی تعداد ایسے پاکستانی تارکین وطن کی بھی تھی جو انگلستان جا کر بھی اپنے ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کنجاہ اور واں بھچراں کے کلچر پر فخر کرتے رہتے ہیں ۔نہ خود بدلتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ ان کے بچے بھی اسی پرانے ظالمانہ کلچر کا حصہ بنے رہیں۔
افسوس تو یہ ہے کہ اُن کی اپنی کوئی دینی و دنیاوی تعلیم اور اخلاقی تربیت نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ فارن کرنسی کے علاوہ نئے دیس سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔گزشتہ سالوں میں گجرات وغیرہ جوان بیٹیوں کو لا کر اُن کے والد اور چچا نے محض اس لیے قتل کر دیا کہ وہ بچیاں وہاں سپین اور برطانیہ وغیرہ کے مسلمانوں سے ہی شادیاں کرنا چاہتی تھیں۔مگر انتہائی غمناک حقیقت تو یہ ہے کہ 10سالہ معصوم سارہ کا تو ایسا کوئی ایشو نہ تھا۔
ہمیں بھی سوچنا چاہئے کہ ہم نے یہاں پاکستان میں گزشتہ نسل کو گنوار اور اجڈ ہی پروان چڑھایا اور انہیں کسی طرح کی کوئی تعلیم و تربیت نہیں دی تھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved