گزشتہ ماہ مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارتی ریاست ہریانہ میں اسمبلی انتخابات ہوئے۔ یہ انتخابات بھارت کے عام (پارلیمانی) انتخابات کے بعد پہلے انتخابات تھے اس لیے ان کے نتائج کے حوالے سے بھارت کے اندر ہی نہیں بلکہ باہر کے سیاسی‘ صحافتی اور سفارتی حلقوں میں بھی مختلف قیاس آرائیاں جاری تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ریاستوں کے انتخابی نتائج توقعات اور ایگزٹ پول سرویز کے خلاف برآمد ہوئے ہیں۔ مثلاً ہریانہ‘ جسے 1966ء میں بھارتی پنجاب سے الگ کر کے ایک علیحدہ ریاست بنا دیا گیا تھا‘ میں بی جے پی کی شکست اور کانگریس کی جیت کی توقع کی جا رہی تھی مگر اسمبلی کی 90 میں سے 48 نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے بی جے پی نے تمام پیشگوئیوں کو غلط ثابت کر دیا۔ اسی طرح مقبوضہ جموں وکشمیر‘ جسے نریندر مودی کی حکومت نے اگست 2019ء میں بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے داخلی طور پر ایک خودمختار ریاست کو یونین ٹریٹری (وفاقی زیر انتظام علاقے) میں تبدیل کر دیا تھا‘ میں توقع کی جا رہی تھی کہ کوئی پارٹی بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اور زیادہ آزاد امیدواروں اور پارٹیوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک ایسی اسمبلی وجود میں آئے گی جسے مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کیلئے ہینڈل کرنا آسان ہوگا۔ دیگر الفاظ میں مقبوضہ کشمیر جموں وکشمیر میں بی جے پی کی اتحادی حکومت کے قیام کی توقع کی جا رہی تھی لیکن ہریانہ کی طرح مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی الیکشن نتائج توقعات کے برعکس آئے۔ مقبوضہ کشمیر‘ جہاں کہا جا رہا تھا کہ بی جے پی کا کوئی متبادل نہیں اور صرف بی جے پی ہی کی حکومت بنے گی‘ میں کانگریس اور جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس اتحاد نے اسمبلی کی کل 90 نشستوں میں سے 49 جیت لیں جبکہ بی جے پی صرف 29 نشستیں جیت سکی۔ جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے سربراہ عمر عبداللہ نے وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔
ہریانہ میں بھارت کی تقریباً دو درجن کے قریب سیاسی پارٹیوں کے اتحاد ''انڈیا‘‘ کی قیادت کرنے والی کانگریس کی جیت کو یقینی سمجھا جا رہا تھا مگر بی جے پی نے سادہ اکثریت سے بھی زائد نشستیں حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا۔ ان دونوں ریاستوں میں ہونے والے انتخابات اور اُن کے نتائج نہ صرف بھارت بلکہ خطے کی سیاست کیلئے اہم مضمرات کے حامل ہیں۔ اس پیرائے میں ان دونوں ریاستوں کے انتخابی نتائج کاجائزہ لینا نہ صرف دلچسپ بلکہ ضروری ہے‘ مگر فی الحال ہم مقبوضہ جموں وکشمیر کا جائزہ لیں گے۔
نریندر مودی کی جانب سے 5 اگست 2019ء کے اقدام کے بعد مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں یہ پہلے اسمبلی انتخابات تھے۔ بھارتی حکومت کے اس اقدام کو تقریباً پوری دنیا میں یکطرفہ‘ غیر آئینی اور بین الاقوامی قوانین کے تقاضوں کے برعکس قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان کی طرف سے اس پر جو ردعمل آیا وہ سب کے سامنے ہے۔ چین نے بھی اس فیصلے کو خطے کے امن کیلئے خطرناک قرار دیا۔ ریاست کے عوام خصوصاً وادیٔ کشمیر میں رہنے والوں کیلئے یہ اقدام ذہنی اور جسمانی دونوں لحاظ سے ناقابلِ برداشت بوجھ ثابت ہو رہا ہے۔ ایک طرف جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے اسے یونین ٹریٹری کی نچلی سطح پر پہنچا دیا گیا اور دوسری طرف فوج اور نیم فوجی دستوں کی تعداد میں اضافہ کر کے پوری وادی کو کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا‘ جہاں لوگوں کو نہ تو آزادانہ طور پر گھروں سے نکلنے کی آزادی حاصل ہے نہ وہ آزادانہ طور پر انٹرنیٹ استعمال کر سکتے ہیں اور نہ ہی میڈیا کی آزادی نام کی کوئی چیز ہے۔ بی جے پی کی حکومت اسے بڑی کامیابی قرار دیتی ہے کیونکہ پوری وادی میں کرفیو کی صورتحال تھی مگر دنیا اور خود بھارت کی سول سوسائٹی اور بعض سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے طبقات کشمیر اور کشمیری عوام سے نریندر مودی کے اس سلوک کو ناجائز اور قانون وانصاف کے تقاضوں کے برعکس قرار دے کر اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ وہ جانتے ہیں کہ 5 اگست 2019ء کے بعد مودی حکومت کے کشمیر سے متعلق دعوے جھوٹے اور کھوکھلے ثابت ہوئے۔ بھارتی میڈیا نے انتخابات سے پہلے ریاست کے حالات پر جو رپورٹس پیش کیں اُن سب میں یہی کہا گیا کہ ریاست جموں وکشمیر میں مودی کے امن کے دعووں کے نیچے غم وغصہ کا لاوا پک رہا ہے اور عوام کو انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ان رپورٹس کی بنا پر بھارتی میڈیا اور حکومتی طبقوں میں یہ رائے پائی جاتی تھی کہ الیکشن ٹرن آؤٹ بہت کم ہوگا اور کوئی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی بلکہ ایک معلق اسمبلی معرضِ وجود میں آئے گی۔ مگر پولنگ کے دن نہ صرف لوگوں کی بڑی تعداد (60 فیصد سے زیادہ) نے ووٹ ڈالے بلکہ انتہاپسند ہندوؤں اور مودی سرکار کی توقعات کے برعکس اپوزیشن اتحاد نے مل کر کُل 90 میں سے 49 سیٹیں حاصل کر لیں۔ 42 نیشنل کانفرنس‘ 6 کانگریس کی نشستوں کی علاوہ ایک نشست والی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی حکومتی اتحاد کا حصہ ہے۔ بڑے عرصہ کے بعد نیشنل کانفرنس کو یہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ان انتخابات کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ نیشنل کانفرنس کی تین یا چار سیٹوں کو چھوڑ کر‘ باقی تمام سیٹیں وادیٔ کشمیر سے ہیں‘ جبکہ ایک کے سوا بی جے پی کی باقی سبھی سیٹیں (سابقہ) جموں کے تین اضلاع جموں‘ کٹھوعہ اور اُدھم پور سے ہیں۔ یہ تینوں اضلاع ہندو اکثریتی علاقے ہیں جبکہ کشمیر کی آبادی مسلم اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس طرح مذہب کی بنیاد پر جموں وکشمیر کی دو الگ الگ حصوں میں تقسیم واضح طور پر نظر آتی ہے۔ بھارتی میڈیا کے جموں وکشمیر میں ہونے والے الیکشن تبصروں کے مطابق یہ انتخابات ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جن میں عوام کی اکثریت نے مودی سرکار کے 5 اگست کے اقدام کو مسترد کیا ہے۔ اس لیے بھارت کی مرکزی حکومت کیلئے ریاست کے موجودہ سیاسی اور آئینی ڈھانچے کو برقرار رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ جموں وکشمیر کے نومنتخب وزیراعلیٰ عمر عبداللہ بھی اعلان کر چکے ہیں کہ فی الفور وہ جموں وکشمیر کی ریاستی حیثیت بحال کرانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک بی جے پی کی حکومت ہے‘ آرٹیکل 370 کی بحالی کا کوئی امکان نہیں۔ مگر ریاستی حیثیت بحال ہونے کے بعد جموں وکشمیر کے لیے شمال مشرقی بھارت میں واقع کچھ قبائلی ریاستوں کی مانند داخلی خود مختاری کے خصوصی اختیارات کے حصول پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح 5 اگست سے پہلے آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں وکشمیر والی حیثیت کی مکمل بحالی کے بجائے اس سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر بھارتی حکومت اس پر راضی ہو جاتی ہے تو کیا اس سے پاکستان مطمئن ہو جائے گا؟ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پاکستان نے آرٹیکل 370 کو کبھی قبول نہیں کیا اور نہ اب قبول کرنے کو تیار ہے۔ پاکستان کا واضح مؤقف ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بنیاد پر کشمیری عوام کی رائے کے مطابق حل کیا جائے۔ ڈیڈ لاک ختم کرنے اور کشمیر سمیت دیگر باہمی تنازعات کو حل کرنے کیلئے پاکستان 5 اگست کے اقدام کو واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے‘ یہ مطالبہ پورا ہونے کے بعد ہی پاک بھارت دوطرفہ مذاکرات شروع ہو سکتے ہیں۔ ان مذاکرات کے آغاز سے کشمیر کے مسئلے کے فوری حل کی امید تو نہیں کی جا سکتی مگر کشیدگی اور لاتعلقی کی بجائے امن اور غیر سیاسی شعبوں مثلاً تجارت‘ آمد و رفت‘ کلائمیٹ چینج اور دیگر آفات کا مل کر مقابلہ کرنے کے اقدامات پر اتفاق ہو سکتا ہے۔ غیر سیاسی شعبوں میں تعاون سے سیاسی شعبوں مثلاً کشمیر اور سیاچن کے مسائل کے حل کی بھی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ اس طرح جموں وکشمیر کے حالیہ انتخابی نتائج پاک بھارت تعلقات کیلئے ایک اچھا شگون ثابت ہو سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved