تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     19-10-2024

اَلنَّبِیُّ الْاُمِّیُّ …(حصہ دوم)

چونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے زمانے سے ''اُمُّ الْقُریٰ‘‘ بنی اسماعیل کا آبائی وطن تھا‘ اس لیے سارے بنی اسماعیل مکۂ مکرمہ کے ساتھ اپنی نسبت کوظاہر کرنے کیلئے فخرکے ساتھ اپنے آپ کو ''اُمّی‘‘ کہتے تھے اور قرآنِ کریم نے بھی ان کا ذکر اسی لقب کے ساتھ کیا ہے‘ فرمایا: ''وہی ہے جس نے اُمِّیُوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا‘‘ (الجمعہ: 2)۔ اس آیت میں مکہ معظمہ کے لوگوں کو ''اُمِّیِیْن‘‘ کے لقب سے ذکر کیا گیا‘ کیونکہ نبی کریمﷺ کو براہِ راست اُن کی طرف مبعوث فرمایا گیا تھا۔
نبی کریمﷺکو اُمّی کے لقب سے موصوف کیے جانے کی دوسری معروف وجہ یہ ہے کہ آپﷺ ''نہ لکھتے تھے‘ نہ لکھے ہوئے کو پڑھتے تھے‘‘ بہت سے اُردو مترجمین نے ''النبی الامی‘‘ کا ترجمہ اَن پڑھ کیا ہے‘ لیکن امام احمد رضا قادری نے اس کا ترجمہ ''بے پڑھے‘‘ کیا ہے‘ یعنی آپﷺ نے اپنی ولادتِ مبارکہ سے لے کر پہلی وحیِ ربانی کے نزول تک کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا نہ کسی مکتب میں رسمی تعلیم حاصل کی۔ اُردو کا کوئی لفظ ''اُمی‘‘ کی پوری معنویت کا احاطہ نہیں کر سکتا‘ اس لیے بعض مترجمین نے اس کے ترجمہ کے بجائے لفظ اُمّی ہی لکھا ہے‘ آپﷺ اُسی طرح تھے جیسے اپنی والدۂ ماجدہ کے بطنِ مبارک سے پیدا ہوئے تھے۔ عام انگریزی مترجمین نے اُمی کے معنی ''illetrate‘‘ لکھا اور مقامِ رسالت کا پاس رکھنے والے مترجم عاقب فرید القادری نے Untutored لکھا ہے‘ یعنی انہوں نے کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا۔ نیز عبداللہ یوسف علی اور وحید الدین خان نے بھی اُمّی کا ترجمہ ''Unlettered‘‘ کیا ہے‘ یعنی جس نے رسمی طور پر لکھنا نہ سیکھا ہو۔ اُمّی ہونا امام الانبیاء سید المرسلینﷺ کیلئے وصفِ کمال ہے‘ اس کی حکمت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی: ''اور آپ اس (قرآن کے نزول) سے پہلے نہ کسی کتاب کو پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے‘ ورنہ باطل پرست (قرآن کی حقانیت کے بارے میں) شک میں مبتلا ہو جاتے‘‘ (العنکبوت: 48) یعنی اگر آپﷺ نے رسمی طور پر لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا تو قریشِ مکہ طعن کرتے کہ کوئی خفیہ علمی خزینہ اور دفینہ آپ کے ہاتھ آ گیا ہے اور اس میں سے آپ روز پڑھ پڑھ کرسناتے ہیں‘ بلکہ قرآنِ کریم نے اس بات کو صراحت کے ساتھ بھی بیان کیا ہے: ''اور کافروں نے کہا: یہ قرآن تو خودساختہ ہے‘ جسے انہوں نے خود گھڑ لیا ہے اور اس کام میں دوسرے لوگوں نے ان کی مدد کی ہے‘ بیشک کافروں نے ظلم کیا اور جھوٹ بولا اور انہوں نے یہ (بھی) کہا: یہ پہلے لوگوں کے افسانے ہیں جو انہوں نے (کسی سے) لکھوا لیے ہیں‘ چنانچہ یہ انہیں صبح وشام پڑھ کر سنائے جاتے ہیں (تاکہ یاد ہو جائیں)‘ (اے رسولِ مکرم!) آپ کہہ دیجیے: اس قرآن کو اُس ذاتِ پاک نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمینوں کی ہرپوشیدہ چیز کو جانتا ہے‘‘ (الفرقان: 4 تا 6)۔
مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: اُمّی ''مدرَسی وکتابی تعلیم وتعلّم‘‘ سے نا آشنا کو کہتے ہیں (تدبر قرآن‘ ج: 2‘ ص: 53)۔ اسے آج کل رسمی تعلیم کہتے ہیں۔ علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں: ''اُمّی اُس شخص کو کہتے ہیں جو لکھتا نہ ہو‘ اُمّی کا معنی ہے: جو اس چیز کی طرف منسوب ہو جس پر اس کی ماں نے اُسے جنا اور وہ اپنے نہ لکھنے میں اُمّی ہے‘ کیونکہ لکھنا کسبی علم ہے اور اُمّی اپنی اصلی حالت پر دلالت کرتا ہے‘‘ (لسان العرب‘ج: 12‘ ص: 34)۔ لیکن رسول اللہﷺ کی نسبت سے اُمّی کے معنی ''اَن پڑھ‘‘ کرنا نہ صرف جہالت بلکہ بے ادبی بھی ہے۔ ایک وصف کسی کیلئے عیب اور کسی کیلئے شانِ کمال ہوتا ہے‘ جیسے ''متکبر‘‘ بندے کیلئے عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کیلئے صفتِ کمال ہے (ملاحظہ ہو: سورۃ الحشر آیت: 23)‘ جبکہ بندے کیلئے فرمایا: ''اور ازراہِ تکبر لوگوں سے اپنا چہرہ نہ پھیرو اور زمین میں اتراتے ہوئے نہ چلو‘ بیشک اللہ کسی اترانے والے متکبر کو پسند نہیں فرماتا‘‘ (لقمان: 18)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کبریائی اور عظمت میری شانِ الوہیت ہے‘ سو جو کوئی اِن میں مجھ سے جھگڑا کرے گا (یعنی تکبر کرے گا) تو میں اُسے جہنم میں ڈال دوں گا‘‘ (ابن ماجہ: 4174) تو جب آپﷺ نے زندگی کے پورے چالیس سال اپنی قوم کے درمیان گزارے‘ کسی بھی بشر سے کسی بھی طور پر لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا اور اچانک علم وحکمت کی باتیں کرنے لگے‘ تو اس کے سوا اس کی توجیہ اور کیا ہو سکتی تھی کہ اس علم کا منبع وحیِ ربانی ہے‘ یہ کیا بات ہوئی کہ بندوں سے سیکھنے والا تو عالم کہلائے اور جسے اللہ تعالیٰ براہِ راست علم سے فیضیاب فرمائے‘وہ ان پڑھ قرار پائے۔ آپﷺ کی شان یہ ہے: اُمّی ودقیقہ دان عالم؍ بے سایہ وسائبانِ عالم۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''پڑھیے! آپ کا ربّ ہی سب سے زیادہ کریم ہے‘ جس نے قلم سے لکھنا سکھایا‘ انسانِ (کامل) کو وہ (سب کچھ) سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘ (العلق: 3 تا 5)۔ حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: نبی کریمﷺ اُمی تھے‘ آپ نہ لکھتے تھے‘ نہ پڑھتے تھے اور نہ حساب کرتے تھے‘‘ (تفسیرِ طبری‘ ج: 5‘ ص: 1863)۔ نبی کریمﷺ نے خود بھی لفظ اُمّی کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ''ہم اہلِ عرب اُمی قوم ہیں‘ ہم نہ لکھتے ہیں‘ نہ حساب کرتے ہیں‘‘ (بخاری: 1913)۔ ایک اور حدیث میں ہے: ''مجھے اُمی قوم کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیاہے‘‘ (صحیح ابن حبان: 739)۔
ایسا بھی نہیں کہ حجاز میں کوئی بھی لکھنا نہ جانتا ہو‘ صحابۂ کرام میں کاتبینِ وحی موجود تھے‘حتیٰ کہ غزوۂ بدر میں قریشِ مکہ کے جنگی قیدیوں میں سے جو لکھنا جانتے تھے‘ آپﷺ نے نقد فدیہ لے کر چھوڑنے کے بجائے‘ انہیں اس امر پر مامور فرمایا کہ مسلمانوں کو لکھنا سکھائیں۔ ہجرت سے پہلے قریشِ مکہ نے رسول اللہﷺ اور بنو ہاشم کے بائیکاٹ کا جو معاہدہ کیا تھا‘ وہ بھی تحریری صورت میں بیت اللہ میں آویزاں تھا‘ نیز ایسی روایات موجود ہیں کہ آپﷺ نے لکھا۔ حدیث پاک میں ہے: ''جب نبیﷺ نے ذوالقعدہ میں عمرہ کیا تو اہلِ مکہ نے آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے منع کر دیا حتیٰ کہ آپﷺ نے ان سے اس پر صلح کر لی کہ (آپ آئندہ سال عمرہ ادا کریں گے اور) مکہ میں تین دن قیام کریں گے‘ جب مسلمانوں نے صلح نامہ لکھا تو انہوں نے اس میں یہ لکھا : یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد رسول اللہ(ﷺ) نے صلح کی ہے‘ نمائندۂ کفار نے کہا: ہم اس کا اقرار نہیں کرتے‘ اگر ہم کو اس کا یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو کسی چیز سے منع نہ کرتے‘ لیکن آپ محمد بن عبداللہ ہیں‘ آپﷺ نے فرمایا: میں رسول اللہ ہوں اور میں محمد بن عبداللہ (بھی) ہوں‘ پھر آپﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا: رسول اللہ (کے الفاظ) مٹا دو‘ حضرت علیؓ نے کہا: نہیں! اللہ کی قسم! میں آپﷺ (کے نام) کو ہرگز نہیں مٹائوں گا‘ تب رسول اللہﷺ نے اس مکتوب کو پکڑا اور آپ اچھی طرح نہیں لکھتے تھے‘ پس آپﷺ نے لکھا: یہ وہ تحریر ہے جس پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی ہے‘‘ الحدیث‘ (بخاری: 4251)۔ نوٹ: حضرت علیؓ کا عمل العیاذ باللہ نافرمانی نہیں تھا‘ بلکہ یہ آپﷺ سے فرطِ عقیدت اور حمیّتِ ایمانی کے سبب تھا۔
مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں: ''حافظ (ابن حجر) کا میلان اس طرف ہے کہ اس باب کی حدیث (یعنی حضورﷺ کا اپنا نام لکھنا) اپنے ظاہر پر محمول ہے اور اس خاص وقت میں رسول اللہﷺ کا اُمّی ہونے کے باوجود اپنا نام لکھنا آپ کا معجزہ ہے‘‘ (تکملہ فتح الملہم‘ ج: 3‘ ص: 180)۔ اصولِ فقہ کا مسلّمہ اصول ہے کہ جب تک لفظ کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا ممکن ہو‘ اسے مَجاز پر محمول نہیں کیا جائے گا۔ مقامِ الوہیت اور مقامِ نبوت کی بابت جس نے دانستہ یا نادانستہ غلطی کی ہو‘ اسے اگر‘ مگر‘ چونکہ‘ چنانچہ کے کلمات کے ساتھ جواز پیش کرنے کے بجائے غیر مشروط طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرمﷺ کے حضور توبہ کرنی چاہیے‘ یہی روحِ توبہ ہے اور سعادت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved