’’پارٹی ڈسپلن‘‘ کی خلاف ورزی پر اے این پی سے حال ہی میں نکالے گئے سابق وفاقی وزیر‘ اعظم خان ہوتی نے پارٹی قیادت پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ 28اکتوبر کو پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’اسفند یار ولی، افراسیاب خٹک اور ان کے ٹولے نے ساڑھے تین کروڑ ڈالر کے عوض پشتون قوم کا سودا کیا ہے، یہ لوگ اے این پی کے 800شہداء کے خون سے اپنے محلوں کے چراغ روشن کر رہے ہیں، پچھلے پانچ سالوں میں اے این پی کو فروخت کیاگیا، افراسیاب خٹک نے امریکہ سے خفیہ معاہدہ کروایا…‘‘ دوسری طرف اے این پی کی قیادت نے سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور اعظم ہوتی کے ہی بیٹے امیر حیدر ہوتی سے جوابی پریس کانفرنس کروائی جس میں امیرحیدر ہوتی نے اپنے والد کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ماموں اسفند یار پر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کردیا۔ اس خاندانی لڑائی کے منظر عام پر آنے سے اے این پی اور خیبر پختونخوا میں ایک سیاسی اور ثقافتی طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ اس تنازعے کی فوری وجہ اگرچہ خاندانی جھگڑا یا شخصی چپقلش ہوسکتی ہے تاہم یہ واقعہ اے این پی کی نظریاتی اور تنظیمی تنزلی کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستان جیسے ثقافتی طور پر پسماندہ معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ یہاں شخصی سیاست اور خاندانی تعصبات، نظریات کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔سماج پر مسلّط حکمرانوں کی ثقافت، صحافت اور دانش سیاسی خاندانوں کے معاملات کی عمومی نفسیات پر اس حد تک غالب آجاتی ہے کہ عوام کا شعور ان میں غرق ہوکر رہ جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہندوستان کے نہرو، گاندھی خاندان سے لے کر سری لنکا، بنگلہ دیش، پاکستان اور دوسرے ممالک میں یہ وراثتی اور خاندانی سیاست تقریباً ایک صدی سے سماجی افق پر براجمان ہے۔پاکستان میں شریف خاندان کئی دہائیوں سے مسلم لیگ کے بڑے دھڑے کی قیادت سنبھالے ہوئے ہے۔ جس پارٹی کا معروف نام ہی ’’نواز لیگ‘‘ ہو اس کی سیاست بھلا کیسے نظریاتی ہوسکتی ہے؟ ’’ق لیگ‘‘ اس مظہر کی ایک اور مثال ہے۔ عوام کی انقلابی بغاوت کے زور پر اُبھرنے والی سوشلسٹ روایات کی حامل پیپلز پارٹی کے طبقاتی کردار اور نظریاتی اساس کو بھی موروثی سیاست اور خاندانی پرستش کے ذریعے دفن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے۔انتہا یہ ہے کہ سوشلزم کا نعرہ لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی نے نجکاری کو پارٹی کی پالیسی بنا دیا۔ آج پیپلز پارٹی کی قیادت پر براجمان سیاستدان اور بہت سے پارٹی کارکنان پارٹی کے بنیادی منشور، مقصد اور تاریخی پس منظر سے یکسر ناواقف ہو چکے ہیں۔ بہت کم لوگ ان نظریات، مقاصد اور جدوجہد کے بارے میں جانتے ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے پیپلز پارٹی کو راتوں رات پاکستان کے سب سے بڑی سیاسی قوت بنادیا تھا۔ بعض شخصیات ہیں جو ماضی کی نسلوں کی قربانیوں کو کیش کرواتی چلی جارہی ہیں اور جن کا ہر حکم، ہر اشارہ پارٹی کی پالیسی بن جاتا ہے اور نظریات کی بات کرنے والوں پر ’’پارٹی ڈسپلن‘‘ کی حد نافذ کردی جاتی ہے۔ بوسیدہ معاشی اور اقتصادی نظام کی اس بے ہودہ سیاست کو ’’جمہوریت‘‘ قرار دیاجاتا ہے اور پھر اس جمہوریت کے لئے عوام کو نسل در نسل قربانیاں دینے کا درس بھی دیا جاتا ہے۔اس جمہوریت کی سیاسی پارٹیوں میں لیڈر کی آنکھ کا ایک اشارہ انسانوں کو عرش سے فرش پر گرا دیتا ہے۔ یہاں کاسہ لیسی ہی سیاست کہلاتی ہے، ضمیر بکتے ہیں، وفاداریوں کے سودے ہوتے ہیں اور اصول سر بازار نیلام ہوتے ہیں۔ منڈی کی یہ معیشت زر، زن اور زمین کی طرح ہر انسانی قدر کو جنس بنا دیتی ہے۔ یہاں سیاسی پارٹیاں حکمران خاندانوں کی نجی ملکیت بن جاتی ہیں اور سیاسی میراث جائیداد کا روپ دھار لیتی ہے۔ جاگیروں اور کاروبار کی طرح ان سیاسی خاندانوں میں ’’سیاسی جائیداد‘‘ کے گرد بھی تنازعات جنم لیتے ہیں اور صورتحال بعض اوقات چھینا جھپٹی اور قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے۔ سیاست، طاقت اور دولت کی اس کشمکش میں ہر خونی رشتہ ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہوجاتا ہے۔اے این پی آج اسی صورتحال سے دوچار ہے۔اعظم ہوتی، نسیم ولی خان کے بھائی ہیں۔ اسفند یار، بیگم نسیم کے سوتیلے بیٹے ہیں جبکہ اسفند یار کی سگی بہن اعظم ہوتی کی شریک حیات ہیں۔اعظم ہوتی کے فرزند امیر حیدر ہوتی اے این پی کے دور حکومت میں خیبر پختونخواکے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔یہ خاندانی رشتے جتنے پیچیدہ ہیںان کے تنازعات اتنے ہی گمبھیر ہیں۔تاہم غریب پختونوں کی زندگیاں ان تنازعات سے کہیں دور ذلتوں اور رسوائیوں کی تلخیوں میں سلگ رہی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی شخصیات کے امریکی سامراج سے تعلقات کوئی تہلکہ خیز ’’انکشاف‘‘ نہیں،یہ کھلا راز ہے۔لبرل اور سیکولر سیاستدان ہوں یا دن رات ’’امریکہ مردہ باد‘‘کی تسبیح پڑھنے والے مذہبی جماعتوں کے رہنما، سامراجی اداروں سے خفیہ رابطے ان کی سیاست کا لازمی جزو ہے۔آج اسفند یارولی پر امریکہ سے رقم لینے کا الزام لگانے والے اعظم ہوتی نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں وزیر مواصلات تھے اور انہی کی وزارت کے تحت موٹر وے کے ٹھیکے بانٹے گئے تھے۔حکمران، عوام کی سہولت کی بجائے اپنے ٹھیکوں اور کمیشنوں کے لئے میگا پراجیکٹ بنواتے ہیں۔ اے این پی نے اسفند یار ولی اور امیر حیدر ہوتی کی حکمرانی میں صوبے کا نام تو پختونخوا رکھ دیا لیکن غریب محنت کش پشتونوں کا مقدر نہیں بدلا۔سوات میں مولوی فضل اللہ سے شریعت کے نفاذ کا معاہدہ سیکولر اے این پی کے دور حکومت میں ہی ہوا تھا جس کے بعد شدت پسند بنیاد پرستوں نے وہاں کے عوام خصوصاً خواتین اور بچیوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی تھیں۔اے این پی ایک سرمایہ دارانہ حکومت کا حصہ بنی اور پختونخوا کے عوام کی معاشی اور سماجی حالت بد سے بد تر ہوئی۔ پشاور سے کراچی تک کروڑوں پشتون آج انتہائی غربت، پسماندگی، ناخواندگی اور بے روزگاری کی اذیتوں میں مبتلا ہیں۔مسئلہ خاندان کے ایک یا دوسرے حصے کے حصول اقتدار کا نہیں بلکہ پشتون عوام کی زندگیوں کو ان عذابوں سے نجات دلانے کا ہے۔ انگریز سامراج نے 1838ء، 1878ء اور 1919ء میں تین جنگیں پشتونوں پر مسلّط کیں لیکن ہر بار اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔1893ء میں2640کلومیٹر لمبی ڈیورنڈ لائن قائم کی گئی لیکن انگریزوں کے خلاف مزاحمت جاری رہی۔ آزادی کے بعد بھی پشتونوں کو آسودگی حاصل نہیں ہوسکی۔ آج وہ ایک بار پھر سامراجی جارحیت اور بنیاد پرستوں کی درندگی سے لہولہان ہیں۔اپریل 1978ء میں افغانستان کا ثور انقلاب سرمایہ داری، جاگیر داری اور فرسودہ رسوم و رواج سے نجات دلانے والاتاریخی قدم تھا جس نے پورے جنوبی ایشیا میں اربوں انسانوں کے لئے ایک نئی صبح کا پیغام دیا تھا۔اس انقلاب کو کچلنے کے لئے سامراج نے آمر جرنیل ضیاء الحق کی مدد سے مذہبی شدت پسندی کے ذریعے افغان جہاد کا آغاز کیا۔ ثور انقلاب کی پسپائی کی وجوہات میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی نظریاتی اور سیاسی غلطیاں اور غداریا ں بھی شامل ہیں جن سے نئی نسل کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ انقلاب نسل در نسل غربت، استحصال اور بربریت کی چکی میں پسنے والے پشتونوں کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے۔ مالاکنڈ سے لے کر وانا تک، پختونخوا کی سرزمین بائیں بازو اور محنت کشوں کی تحریکوں کی درخشاں روایات کی امین ہے۔طبقاتی جدوجہد کی انہی روایات کوبڑے پیمانے پر دہرا کر پشتون عوام ذلت اور محرومی کی دلدل سے نکل سکتے ہیں اور آگ و خون کے اس بھیانک کھلواڑ کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved