آئین میں کسی بھی ترمیم کے دور رس اثرات ہوتے ہیں لیکن بہرطور آئین میں ترامیم کی ضرورت رہتی ہے۔ اس سے قبل آئینِ پاکستان میں 25 بار ترمیم ہو چکی ہے اور آئندہ بھی ضرورت پڑنے پر ترمیم ہوتی رہے گی۔ گزشتہ ماہ سے آئین میں 26ویں ترمیم کا معاملہ زیر بحث ہے۔ اس ترمیم پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشمکش جاری ہے۔ 16 ستمبر کو 26ویں ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے نہ ہونے اور ترمیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنا پڑا۔ بسیار کوششوں کے باوجود آئینی پیکج پر اپوزیشن بالخصوص مولانا فضل الرحمن کو منانے میں ناکامی کے بعد ترمیم کی منظوری مؤخر کر دی گئی۔ اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے اور ترمیمی نکات پر مشاورت کے لیے ایک خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے۔ اس دوران حکومتی اتحاد مولانا فضل الرحمن سمیت اپوزیشن کو منانے کے لیے تگ و دو کرتا رہا۔ بالآخر گزشتہ دنوں حکومت اپنی کوششوں میں کامیاب رہی۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام میں 26ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے اتفاق رائے ہو گیا۔ اس کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آئینی ترمیم کے مسودے پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کے درمیان اتفاق ہو گیا ہے‘ پیپلز پارٹی نے بھی ہماری تجویز سے ملتا جلتا مسودہ تیار کیا ہے۔ جمعہ کے روز پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں اہم پیشرفت ہوئی اور آئینی ترمیم کا مسودہ منظور کر لیا گیا۔ اس کمیٹی میں پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی‘ اس لیے کمیٹی کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کیونکہ انہی جماعتوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ترمیمی بل کی حمایت یا مخالفت کرنی ہے۔ سو آئینی ترمیم کے مسودے پر سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے ضروری ہے۔ قبل ازیں اپوزیشن کا سب سے بڑا اعتراض ہی یہ تھا کہ انہیں مسودہ پیش نہیں کیا گیا۔ خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے ترمیمی پیکیج میں ترامیم کو 56 سے کم کر کے 26 تک محدود کر دیا۔ پی ٹی آئی کی قیادت اگرچہ کمیٹی کے تمام اجلاسوں میں شامل رہی تاہم انہوں نے خان صاحب سے مشاورت کے لیے مزید وقت مانگا۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی تھیں‘ پی ٹی آئی کا وفد اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کر رہا تھا۔
اب کمیٹی کی جانب سے منظور مسودے کو کابینہ میں پیش کیا جائے گا اور کابینہ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی و سینیٹ کے اجلاس میں ترمیمی پیکیج پیش کیا جائے گا۔ ہفتے کے روز وفاقی کابینہ‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کا وقت بار بار تبدیل ہوتا رہا۔شاید اس کی وجہ سیاسی ملاقاتوں میں ہونے والی پیش رفت اور یقین دہانیوں کا انتظار تھا۔ بہر کیف‘ پارلیمانی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں منظور کیے گئے مسودے کے مطابق نئے آرٹیکل 191 اے میں سپریم کورٹ میں 'آئینی ڈویژن‘ کے الفاظ کو ''آئینی بینچ‘‘ سے تبدیل کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق ججز کی تعداد کا تعین جوڈیشل کمیشن کرے گا‘ چاروں صوبوں کی ممکنہ حد تک مساوی نمائندگی ہو گی۔ مسودے میں دہری شہریت والوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کی ترمیم خارج کر دی گئی ہے‘ منحرف رکن کے ووٹ سے متعلق تجویز واپس لے لی گئی ہے‘ سپریم کورٹ کے ججز کی عمر کی حد 65 سال برقرار کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت 3 سال ہو گی‘ چیف جسٹس کی عمر 65 سال ہونے پر تین سال سے پہلے ہی سبکدوشی ہو جائے گی‘ آئینی بینچ کے سوا سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل جورسڈکشن‘ سوموٹو مقدمات‘ آئینی اپیلیں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہو گا۔ سوموٹو‘ اوریجنل جورسڈکشن درخواستوں اور صدارتی ریفرنسزکی سماعت اور فیصلہ آئینی بینچ کا پانچ رکنی بینچ کرے گا‘ آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ بھی پانچ رکنی آئینی بینچ کرے گا‘ سماعت کے لیے تمام آئینی بینچ تین سینئر ترین جج تشکیل دیں گے‘ آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آنے والے سپریم کورٹ میں زیرالتوا کیسز اور نظرثانی درخواستیں آئینی بینچ کو منتقل ہو جائیں گی۔
مجوزہ آئینی ترمیم میں آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل 13 ممبران پر مشتمل ہو گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان‘ جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے جبکہ چار سینئر ترین ججز اور ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس یا جج کے علاوہ وفاقی وزیر قانون‘ اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے سینئر وکیل کمیشن کا حصہ ہوں گے۔ ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن میں چار اراکینِ پارلیمنٹ بھی ہوں گے جن میں سے دو قومی اسمبلی اور دو سینیٹ سے لیے جائیں گے۔ یہ چاروں ارکان حکومت اور اپوزیشن سے ہوں گے۔ حکومت کی جانب سے ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیراعظم تجویز کریں گے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر تجویز کرے گا۔ مجوزہ ترمیم کے تحت حکومت نے آئین کے آرٹیکل 48 کی شق چار میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت صدر مملکت‘ کابینہ اور وزیراعظم کی طرف سے منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹربیونل میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز کے تحت پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ شمار کیا جائے گا۔ تاہم پارٹی سربراہ اس کے بعد کارروائی کا مجاز ہو گا۔
آئینی ترمیم کا معاملہ سیاسی مفادات کے گرد گھوم رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں ۔انہیں نظر انداز کیے جانے کا شکوہ ہے اور وہ اس بار اندھا اعتماد کر کے کسی قسم کی غلطی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جو چاہتے ہیں اس کا تعلق حکومت سے ہے‘ پیپلزپارٹی چونکہ وفاق کا حصہ نہیں ہے اس لیے بلاول بھٹو زرداری بیک وقت وزیر اعظم اور مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن کے جائز مطالبات اور شکایات وزیر اعظم کے سامنے رکھی ہیں‘ میں امید کرتا ہوں کہ وزیر اعظم نے جو یقین دہانی کرائی تھی اس پر عمل کریں گے‘ اگر ایسا ہوا تو ہم آئینی ترمیم کو منظور کرانے کے قابل ہوں گے۔ بلاول بھٹو کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ سینیٹ و قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کی منظوری میں بہرصورت انہیں اپوزیشن کی حمایت درکار ہو گی۔ بلاول بھٹو آئینی ترمیم کے مرحلے کو متفقہ طور پر منظور کرانا چاہتے ہیں وہ اس بات کا متعدد بار برملا اظہار کر چکے ہیں۔
ایوانِ بالا میں حکومت کو آئنی ترمیم کے لیے 64 ووٹ درکار ہیں۔ سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 24‘ مسلم لیگ( ن) کے19‘ بلوچستان عوامی پارٹی کے چاراور ایم کیوایم کے تین ارکان موجود ہیں۔ حکومتی بینچز پر ہی دو آزاد سینیٹرز بھی براجمان ہیں جس سے تعداد 54 تک پہنچ جاتی ہے‘ تاہم دو آزاد سینیٹر کی حمایت کے بعد بھی حکومت کومزید نو ووٹ درکار ہوں گے۔حکومت کو اپوزیشن بینچ پر موجود سینیٹر کی حمایت درکار ہے۔ اس وقت اپوزیشن بینچوں پر جے یوآئی کے پانچ اور اے این پی کے تین سینیٹرز شامل ہیں جبکہ مسلم لیگ (ق)‘نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کا ایک ایک سینیٹر ہے۔ تحریک انصاف کے17 اور سنی اتحاد کونس اور مجلس وحدت المسلمین کا ایک ایک سینیٹر ہے‘ اپوزیشن بینچز پر ایک آزاد سینیٹر بھی موجود ہے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیم کے مسودے میں تقریباً 70 فیصد تک تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ اب بظاہر آئینی ترمیم کی منظوری میں اپوزیشن کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے تاہم یہ عقدہ بہت جلد کھل جائے گا کہ حکومت نے آئینی ترمیم کی منظوری کی کیا قیمت ادا کی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved