آج کل جہاں قیام پذیر ہوں وہاں سے لائبریری بیس منٹ کی واک پر ہے۔ دن کو کسی بھی وقت لائبریری چلا جاتا ہوں۔ کچھ وقت وہاں گزارتا ہوں۔ لائبریری سے نکلتا ہوں تو دس منٹ کے فاصلے پر ایک بیکری ہے۔ کچھ دیر اس میں بیٹھتا ہوں۔ یہ بیکری بھی ہے‘ کافی شاپ بھی اور چائے خانہ بھی۔ دن کے وقت یہاں بیٹھنے والوں کی زیادہ تعداد میری طرح کے عمر رسیدہ حضرات اور بیبیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کچھ تنہا ہوتے ہیں‘ کچھ میاں بیوی اور کچھ دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ۔ یہاں چائے کی پیالی پیتا ہوں۔ کتاب پڑھتا ہوں یا آئی پیڈ پر کام کرتا ہوں۔
ایک دن میری نگاہ ایک شخص پر پڑی جو بیکری کے کونے میں بیٹھا تھا۔ اس کی شکل کچھ کچھ جانی پہچانی لگی مگر میں نے یہ خیال جھٹک دیا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی چہرہ آشنا سا لگتا ہے مگر ہم اسے کبھی نہیں ملے ہوتے۔ اس شخص نے سر پر بوسیدہ سی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ عمر ہو گی چالیس کے پیٹے میں‘ جینز کا رنگ اُڑا اُڑا سا تھا۔ پاؤں میں اطالوی طرز کے سویڈ کے جوتے تھے۔ سگریٹ پی رہا تھا۔ سامنے دھرے کپ میں چائے تھی یا کافی‘ دور سے جاننا مشکل تھا۔ چہرے پر ایک نامعلوم سی کراہیت تھی جو اسے غیر پسندیدہ قسم کا انسان بنا رہی تھی۔اس نے کئی بار میری طرف دیکھا۔ میں نے بھی اسے دیکھا۔ میں اُس دن گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھا رہا۔ اٹھ کر آیا تو وہ ابھی وہیں تھا۔ اس کے بعد میں واک تو ہر روز کرتا رہا مگر لائبریری اور بیکری والی سمت کئی دن نہ جا سکا۔ کبھی بازار کی طرف نکل جاتا اور سودا سلف خرید لاتا۔ کبھی پارک میں چلا جاتا۔ دو دن بارش رہی اور گھر سے نکل ہی نہ پایا۔ آٹھ دس دن بعد ایک کتاب کی واپسی کی تاریخ تھی اس لیے لائبریری جانا ہی پڑا۔ یہاں کی لائبریریاں بھی ہمارے لیے حیرت کدے سے کم نہیں۔ ایک وقت میں تیس کتابیں ایشو کرا سکتے ہیں۔ کتابیں کمپیوٹر کے سامنے رکھیے۔ کمپیوٹر کو اپنا لائبریری کارڈ دکھائیے‘ فوراً ایک رسید باہر نکلے گی جس پر تمام کتابوں کے نام لکھے ہوں گے اور واپسی کی تاریخ بھی۔ کتاب واپس کرنی ہو تو تب بھی کاؤنٹر پر جا نے کی ضرورت نہیں۔ ایک لیٹر بکس قسم کا سوراخ ہے اس میں کتاب ڈال دیجیے۔ اسے ''شُوٹ‘‘ (Chute) کہتے ہیں۔ ان ملکوں نے کوشش کی ہے کہ انسانی رابطہ کم سے کم ہو۔ زیادہ سے زیادہ کام خود کار مشینیں کریں۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسانی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے یا کم ہونے کی وجہ سے کرپشن پر کاری ضرب پڑتی ہے۔
کتاب واپس کرنے کے بعد قدم خود بخود بیکری کی طرف اُٹھنے لگے۔ چائے کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ کاؤنٹر پر چائے کی قیمت ادا کر کے بیٹھ گیا۔ ایک طالب علم نما ویٹر چائے کی چینک اور پیالی لایا اور مسکراتے ہوئے میز پر رکھ دی۔ میں چائے پیالی میں ڈال رہا تھا کہ وہی شخص نظر آیا۔ اُسی نشست پر‘ اسی انداز میں بیٹھا ہوا‘ نظریں میری طرف کیے‘ سگریٹ کا کش لگاتا! مجھے بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ خیر میں اُس دن زیادہ نہیں بیٹھا۔ چائے ختم ہوئی تو واپس گھر کی طرف چلنے لگا۔ مگر ایک بے نام سا اضطراب دل میں جیسے پَل رہا تھا۔ کوئی شے مجھے پریشان کر رہی تھی۔
دوسرے دن میں ناشتہ کرتے ہی بیکری کی طرف چل پڑا۔ اندر داخل ہوتے ہی نظر اس پر پڑی۔ وہی نشست‘ وہی انداز۔ نظریں میری طرف۔ میں آج یہ پُراسرار مسئلہ حل کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ سیدھا اس کی میز کی طرف گیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ انگریزی میں پوچھا کہ وہ کون ہے۔ میری طرف مسلسل کیوں دیکھتا ہے۔ یہ طرزِ عمل یہاں آداب کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ میرا سر گھوم گیا کیونکہ جواب اس نے پنجابی میں دیا اور وہ بھی اُس خالص لہجے میں‘ جو میرے گاؤں میں بولی جاتی ہے۔ پوچھا: وہ کہاں کا ہے؟ کہنے لگا: وہ کہیں کا بھی نہیں اور دنیا کی ہر زبان‘ ہر لہجہ بولنے پر قادر ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ شیطان کے بہت سے نائبین میں سے ایک نائب ہے اور ملکِ پاکستان کا انچارج ہے۔ پوچھا: یہاں کس سلسلے میں آئے ہو۔ کہنے لگا: آپ سے معافی مانگنے کیونکہ آپ نے محلے میں اور اپنے حلقۂ احباب میں اور تحریر وتقریر کے ذریعے جو بھی مثبت کوششیں کیں‘ انہیں وہ ناکام بناتا رہا اور اس پر شرمندہ ہے۔ میں نے کہا: غرض کے بغیر تو تم معافی مانگنے سے رہے‘ اصل کام بتاؤ۔ اس پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔ اس سے پہلے کہ بیکری میں بیٹھے ہوئے لوگ متوجہ ہوتے میں اسے باہر لے آیا۔
ہم ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ کہنے لگا ''آپ جانتے ہیں میرا کام فساد پھیلانا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا میں نے حلوائی کی دکان سے شیرہ لے کر دیوار پر لگایا تھا۔ اس پر مکھیاں بیٹھیں۔ مکھیوں پر چھپکلی حملہ آور ہوئی۔ چھپکلی پر بلی جھپٹی۔ عین اس وقت نواب کا نوکر کتا لیے وہاں سے گزر رہا تھا۔ کتے نے بلی پر حملہ کیا۔ بلی بھاگ گئی مگر کتے نے مٹھائی کے سارے تھال الٹ پلٹ کر دیے۔ حلوائی نے گرم کفگیر کتے کی گردن پر مارا۔ کتا مر گیا۔ اس پر نواب کے نوکر نے حلوائی کو تھپڑ مارا۔ حلوائی کے ملازموں نے نوکر کی پٹائی کر دی۔ نوکر گیا اور نواب کے بہت سے لوگ لے کر آیا۔ ادھر سے تمام دکاندار اکٹھے ہو گئے۔ بھرپور لڑائی ہوئی۔ بہت سے لوگ دونوں طرف سے مارے گئے۔ مگر یہ گئے دنوں کی بات ہے۔ اب میرا فساد پھیلانے کا سارا کام انسٹا گرام‘ یوٹیوب اور وَٹس ایپ والوں نے سنبھال لیا ہے۔ ایسا ایسا فساد فی الارض پھیلا رہے ہیں کہ میں اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ تو دیوار پر شیرہ بھی نہیں لگاتے۔ بغیر کسی وجہ کے پورے ملک میں طلبہ کے ہنگامے کرا دیے۔ کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی مگر ان لوگوں نے وہ فساد پھیلایا کہ مجھ شیطان سے بھی کوسوں آگے نکل گئے۔ اب میرے باس‘ یعنی بڑے شیطان نے مجھے متنبہ کیا ہے کہ چونکہ میرا کام خود پاکستانیوں نے سنبھال لیا ہے اس لیے میری ٹرانسفر جنات کی دنیا میں کر رہا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے پھر بھاں بھاں کر کے رونا شروع کر دیا۔ جنات کے ہاں فساد پھیلانا بہت مشکل تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے بہت سے لوگ اس سے محبت بھی کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ بظاہر باعمل مسلمان بھی اندر سے اس کے ساتھی ہیں۔
میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مجھ سے کیا مدد چاہتا ہے؟ کہنے لگا: اگر سوشل میڈیا کے ذریعے فساد پھیلانے والوں کو حکومت پکڑ کر کڑی سزائیں دے تو یہ لوگ شیطانیوں سے باز آ جائیں گے۔ یوں اس کی مصروفیت دوبارہ شروع ہو جائے گی اور تبادلہ روک دیا جائے گا۔ میں نے اسے جواب دیا کہ مجھے اس سے نفرت ہے مگر وہ اتنی دور سے آیا ہے اور معافی بھی مانگی ہے اس لیے ممکن ہوتا تو مدد کرتا مگر یہ توقع رکھنا کہ پاکستانی حکومت مجرموں کو پکڑ کر عبرتناک سزا دے گی‘ ناممکن ہے۔ پاکستان میں مجرموں کو پکڑنے اور سزا دینے کا رواج ہی نہیں‘ جتنا فساد اس لڑکی کے نام پر پھیلایا گیا ہے‘ اس کے بعد تو حکومت پر لازم تھا کہ مجرموں کو نشان عبرت بناتی مگر پاکستان میں مجرموں کو پکڑنے اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کی روایت ہی نہیں۔ آج ہی عدالتوں نے اُن سینکڑوں افراد کو رہا کر دیا ہے جنہیں پولیس نے فساد پھیلانے پر گرفتار کیا تھا۔
نائب شیطان روتے روتے اچانک میری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved