شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس بخوبی اختتام کو پہنچا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ ملک میں سیاسی ہلچل تھی اور کچھ عرصہ پہلے چینی باشندوں پر حملہ بھی ہوا تھا۔ ان حالات میں خدشات موجود تھے کہ دشمن پاکستان کو سفارتی اور سیاسی سطح پر نقصان پہنچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے لیکن بہترین سکیورٹی انتظام کی بدولت یہ اجلاس سفارتی اعتبار سے کامیاب رہا۔ یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ کشمیر‘ فلسطین اور لبنان جیسے ایشوز پر کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی رائے ان معاملات پر مختلف ہو سکتی ہے‘ اور جب تک سب کا اتفاق نہ ہو تو مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ معاشی اعتبار سے اسے کامیاب کہا جا سکتا ہے یا نہیں‘ اس بارے میں کوئی حتمی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا بنیادی مقصد تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے کام کرنا ہے‘ عالمی سیاسی مسائل اس کا موضوع نہیں۔ یہ بہت بڑا خطہ ہے جو دنیا کا تقریباً 40 فیصد بنتا ہے۔ یہاں تجارت‘ ٹیکنالوجی اور توانائی کے بیش بہا مواقع موجود ہیں۔ جو ممالک اس وقت اس تنظیم کا حصہ ہیں وہ آبادی کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں اور اس پلیٹ فارم کی بدولت ان کے لیے سپلائی کا ایک بہت بڑا موقع موجود ہے۔ اگلے پندرہ‘ بیس سال اس خطے میں گروتھ کے سال ہو سکتے ہیں۔
اس تنظیم میں چین ایک ایسا ملک ہے جو اپنے انجن آف گروتھ کو ٹرانسفارم کرتا رہا ہے۔ روس اور ایران اپنی ترقی کے لیے مائنز‘ منرلز اور انرجی پر انحصار کرتے ہیں جبکہ بھارت بھی بڑا ٹریڈ پارٹنر ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان ایک ایسی جگہ پر واقع ہے جو ان ممالک میں رابطہ کاری کا اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ اگر روس کو بارہ مہینے راستہ چاہیے تو وہ پاکستان سے مل سکتا ہے‘ لیکن پاکستان کو اس کے لیے پہلے خود اپنے حالات بہتر کرنا ہوں گے۔ حالیہ دنوں میں چین کے ساتھ 13 ایم او یوز پر دستخط کیے گئے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پیپلز بینک آف چائنہ کے مابین کرنسی تبادلے کے معاہدے کا بھی اعلان کیا گیا۔ یہ کوئی نیا معاہدہ نہیں بلکہ 2010ء میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں چین کے ساتھ 10 ارب یوآن کی تجارت کا معاہدہ ہوا تھا۔ 2018ء میں اسے بڑھا کر 20 ارب یوآن کر دیا گیا۔ اب پھر اس میں توسیع کا معاہدہ ہوا ہے۔ اس معاہدے سے باہمی تجارت مقامی کرنسیوں میں کی جا سکتی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی معاہدے ہوئے ہیں لیکن جس طرح کی توقعات پاکستانی حکومت نے لگا رکھی تھیں‘ شاید اتنی کامیابی نہیں مل سکی۔ چینی وزیراعظم کی پاکستان آمد سے قبل دعوے کیے جا رہے تھے کہ 30 سے زیادہ معاہدوں پر دستخط ہو سکتے ہیں بلکہ یہ بھی منصوبہ تھا کہ چین کے 16 ارب ڈالرز قرض کو چینی کرنسی میں ادا کرنے کے حوالے سے بھی پیش رفت ہو سکتی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ چینی باشندوں پر دہشت گردانہ حملے اس کی بڑی وجہ ہیں۔ اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ چین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پاکستانی اداروں کے ساتھ مل کر اپنے شہریوں کے تحفظ کو خود یقینی بنائے گا۔ اس حوالے سے بلٹ پروف ٹرکوں سمیت کئی طرح کا سکیورٹی سامان پاکستان کو مہیا کیا جائے گا۔ چین کا مطالبہ تھا کہ جوائنٹ سکیورٹی کمپنی بنائی جائے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
پاکستان اور چین کے تعلقات مشترکہ مفادات سے جڑے ہیں۔ اگر کس ایک فریق کو فائدہ نہیں ہوگا تو یہ تعلق نہیں چل سکتا۔ سمندروں سے گہری اور پہاڑوں سے بلند دوستی کے نعرے سننے میں اچھے لگتے ہیں لیکن عملی میدان میں پرفارم کیے بغیر اچھے تعلقات قائم نہیں رہ سکتے۔ چین پاکستان میں سی پیک کی وجہ سے دلچسپی لیتا ہے لیکن اگر سکیورٹی کے حالات ایسے ہی رہے تو سی پیک سے مطلوبہ فوائد نہ تو چین اٹھا سکے گا اور نہ ہی پاکستان کو فائدہ ہو سکے گا۔ اگر گیارہ سال بعد کسی چینی وزیراعظم کی آمد سے قبل چینی باشندوں پر حملہ ہو جاتا ہے تو سکیورٹی معاملات پر سوالات اٹھنا فطری ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر آٹھ ممالک کے ساتھ بھی کوئی بہت اچھی ڈیل نہیں ہو سکی۔ بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے ہونے یا کاروبار میں بہتری کی امید تو پہلے بھی نہیں تھی۔ بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان روانگی سے قبل ہی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان جانے کا مقصد صرف شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت ہے۔ بھارت پاکستان کے ساتھ تجارتی یا کسی بھی سطح پر تعلقات بحال کرنے کا حامی نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ کرکٹ ڈپلومیسی پر بات ہوئی ہے لیکن باوثوق ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ ایرانی وزیر تجارت نے بھی پاکستان کے ساتھ آزاد تجارت کے حوالے سے معاہدوں کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تقریباً دو ماہ میں معلومات اور وفود کا تبادلہ کر کے صورتحال کو واضح کیا جا سکتا ہے۔ اگر آزاد تجارت کے معاہدے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق بروقت ہو جاتے ہیں تو دونوں ممالک میں اشیا کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔ اس طرح کے معاہدے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایران اور پاکستان کے مابین اب تک دو ارب 70 کروڑ ڈالرز مالیت کی تجارتی اشیا کا تبادلہ ہوا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم میں روسی وزیراعظم کی شرکت سے بھی فائدہ اٹھانے کی مثبت کوششیں کی گئی ہیں۔ پاک روس دو طرفہ تعلقات میں اہم پیشرفت سامنے آئی ہے۔ روسی وزیر خارجہ کا بھی آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ متوقع ہے۔ اطلاعات ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم کی سائیڈ لائنز پر روس کے ساتھ دو طرفہ بات چیت میں آنے والے دورے کے معاملات طے پائے ہیں۔ وزیراعظم‘ نائب وزیراعظم کے بعد روسی وزیر خارجہ کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے‘ کیونکہ روسی وزیر خارجہ کے ہمراہ اعلیٰ سطحی وفد بھی پاکستان آنے کا امکان ہے۔ سٹیل مل‘ آئل ریفائنری‘ پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن سمیت توانائی کے متعدد منصوبوں پر بات چیت کا امکان ہے۔ پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے میں گیس سٹوریج فسیلیٹی کی قیام پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور میں پاکستان کی شمولیت پر بھی پیش رفت کے امکانات ہیں اور پاکستان کی پانچ رکنی یورو ایشین اکنامک یونین میں شمولیت پر بھی اہم بات چیت ہو گی۔ روس کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات بحال ہونا خوش آئند ہے۔ پچھلے ماہ وفاقی وزیر سرمایہ کاری کی قیادت میں 60 پاکستانی سرمایہ کاروں نے روس کا دورہ کیا تھا اور بارٹر ڈیلز کی تھیں۔ دیگر ممالک کے ساتھ بھی تجارت بڑھانے پر بات چیت ہوئی ہے لیکن ابھی تک ان کی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔
پاکستان نے اس اجلاس کے ذریعے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اہم تجارتی اور ٹرانزٹ مرکز بن سکتا ہے‘ لیکن اس کے لیے ملک کے اندرونی حالات کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ اگر پاکستان اپنے اندرونی مسائل کو حل کر لیتا ہے تو وہ خطے میں اہم اقتصادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کا نو شنگھائی تعاون تنظیم ممالک کے ساتھ تجارتی خسارہ تقریباً 41 فیصد ہے۔ مالی سال 2024ء میں تجارتی خسارہ 11 ارب 70 کروڑ ڈالر رہا جو مالی سال 2023ء میں 8 ارب 29 ارب ڈالر تھا۔اس کی وجہ چین‘ روس اور بھارت سے درآمدات میں اضافہ ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں تجارتی خسارے کو کم کرنے کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ جب حکومت کی ساری توانائی اپوزیشن کے احتجاج کو روکنے میں صرف ہو جائے تو تجارت پر فوکس کرنا مشکل ہی ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved