تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     21-10-2024

زندگی کی حقیقت

انسان کی زندگی میں وقفے وقفے سے ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن سے زندگی کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ کوٹ رادھا کشن سے تعلق رکھنے والے مہر فہد میرے دیرینہ دوست ہیں۔ میں نے ان کو ہمیشہ پُرجوش اور متحرک نوجوان کے طور پر اپنا کردار ادا کرتے دیکھا ۔ دینی‘ سماجی اور سیاسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو کاروباری صلاحیتوں سے بھی نواز رکھا ہے۔ وہ رئیل اسٹیٹ کے شعبہ سے وابستہ ہیں اور کامیاب بزنس مین کے طور پراپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ مہر فہد کے والد مہر مشتاق صاحب ایک قابل استاد تھے اور انہوں نے اپنی پوری زندگی انتہائی یکسوئی سے تدریسی ذمہ داریوں کو سر انجام دیا۔ ان کے طرزِ تدریس‘ اخلاق اور تعلیمی میدان میں دلچسپیوں سے لوگ بہت متاثر تھے۔ اس لیے طلبہ تحصیلِ علم کے ساتھ اپنے نجی وسماجی معاملات کے حل کے لیے بھی ان سے مشاورت کیا کرتے تھے۔ مہر مشتاق صاحب اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں طلبہ کی بہترین انداز سے رہنمائی کیا کرتے تھے۔ مہر مشتاق صاحب مجھ سے بھی ہمیشہ محبت اور پیار والا معاملہ فرماتے اور جب بھی کبھی مجھے کوٹ رادھا کشن میں ان سے ملاقات کا موقع ملتا تو خوب آئو بھگت کرتے اور یوں محسوس ہوتا جیسے کسی خونی رشتہ دار سے ملاقات ہو رہی ہے۔ وہ کچھ عرصہ سے بیمار تھے اور ان کی بیماری کے حوالے سے مہر فہد ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہا کرتے تھے۔ اپنے والد کے علاج معالجے پر بھرپور توجہ دینے کے ساتھ ساتھ وہ ان کے لیے دعائے صحت کی بھی اکثر وبیشتر اپیل کیا کرتے تھے۔ تقریباً تین ہفتے قبل مہر فہد نے مجھ سے رابطہ کیا اور یہ اندوہناک خبر سنائی کہ مہر مشتاق صاحب اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ یہ خبر یقینا جہاں مہر فہد اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے دکھ اور تکلیف کا باعث تھی‘ میں نے بھی اس خبر پر بہت زیادہ کرب اور دکھ محسوس کیا اور دل کی گہرائیوں سے مہر فہد کے والد کے لیے دعائے مغفرت کی۔
مہر مشتاق صاحب کا جنازہ پڑھانے کے لیے میں کوٹ رادھا کشن گیا اور خلوصِ دل سے ان کے لیے دعائے مغفرت کی۔ اس موقع پر میں نے محسوس کیا کہ ہر آنکھ اشک بار تھی اور لوگ مرحوم کے خلا کو بڑی شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ مہر فہد نے اپنے والد کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ان کو عمرہ کرایا تھا اور بساط کی حد تک ان کی خدمت میں مشغول رہے‘ یقینا انہوں نے ایک فرمانبردار بیٹا ہونے کا حق ادا کیا اور اپنے والد کی خدمت کے لیے مسلسل کوشاں رہے۔ والد کے انتقال کے صدمے کو ہر شخص محسوس کرتا ہے لیکن مہر فہد کی اپنے والد سے چونکہ والہانہ وابستگی تھی‘ اس لیے میں نے ان کو مسلسل دکھ اور صدمے کی کیفیت سے دوچار دیکھا۔ ان ایام میں جب کبھی موقع ملا‘ میں نے انہیں دلاسا دینے کی کوشش کی۔ ابھی اس صدمے کے اثرات کم نہیں ہوئے تھے کہ جمعرات کے روز یہ اطلاع موصول ہوئی کہ مہر فہد کے بڑے بھائی مہر حماد بھی عین جوانی کے عالم میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ اس خبر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلوں کے سامنے یقینا انسان بے بس ہے اور انسان اس حقیقت سے کلی طور پر بے خبر ہے کہ آئندہ آنے والے ایام میں اس کی زندگی کس انداز سے گزرے گی۔ انسان تو اپنی دانست میں ایک خوشگوار زندگی کے پروگرام مرتب کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ کتنے مزید صدمات اس کی زندگی میں آنے والے ہیں۔ مہر فہد کے بھائی کے انتقال پر میں کوٹ رادھا کشن پہنچا اور فہد بھائی اور ان کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔ جب میں وہاں سے نکلا تو میرے دل پر ایک بوجھ کی کیفیت تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ انسان فنا کی حقیقت سے کس قدر بے خبر ہے۔ اگر انسان اس حقیقت کو پا لے تو شاید اس کی ساری خوشیاں کافور ہو کر رہ جائیں۔
مہر فہد کے بھائی اور والد کے انتقال نے جہاں دل ودماغ پر ایک بوجھ کی کیفیت پیدا کر دی وہیں برادرِ اصغر معتصم الٰہی ظہیر کی پانچ ماہ کی پوتی‘ جو برادرِ عزیز ابوبکر قدوسی کی نواسی بھی ہے‘ کی علالت نے بھی طبیعت کو عجیب انداز سے متاثر کیا۔ برادرِ اصغر معتصم الٰہی ظہیر کی پوتی‘ جو تین ماہ تک بالکل صحت مند اور توانا تھی‘ اچانک سینے کے انفیکشن کا شکار ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے اس انفیکشن کی اصل تک کھوج لگانے کے لیے کئی ٹیسٹ کیے‘ جس کے بعد یہ بات یہ بات واضح ہوئی کہ بچی کا مدافعتی نظام کمزور ہے اور اس کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ کرانا پڑے گا۔ یہ خبر یقینا چونکا دینے والی تھی کہ بچی کی ولادت کے موقع پر کسی کے گمان میں بھی نہ تھاکہ چند مہینے بعد ایک بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس اطلاع کے دوران دل میں یہ احساس اور دماغ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یقینا بیماریوں‘ تکالیف اور پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی مرضی نہ ہو ۔ ان غمناک خبروں کے ساتھ ساتھ خوشی کی ایک یہ خبر بھی موصول ہوئی کہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ہمارے دیرینہ دوست ڈاکٹر طاہر محمود رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ہیں۔ ان کی شادی کی تقریب میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے دوست احباب نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور ان کے لیے دعائے خیر کی۔ خوشی کی اس خبر کے سننے کے بعد یہ احساس ہوا کہ ابھی معاشرے میں غموں کے ساتھ ساتھ خوشی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ خوشی اور مسرت کے یہ لمحات یقینا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہیں اور انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں اور عطائوں پر اپنے خالق و مالک کا بھرپور انداز سے شکر ادا کرنا چاہیے۔
اس بات کا مشاہدہ قدم قدم پر کیا ہے کہ دنیا کی خوشیاں دائمی نہیں بلکہ انسان کی زندگی میں وقفے وقفے سے غم اور مشکلات آتی رہتی ہیں۔ خوشی کی خبروں کے ساتھ ساتھ غم کی خبریں درحقیقت انسان کو زندگانی کی حقیقت سے آگاہ کرتی اور اس کے ذہن میں ان تصورات کو اجاگر کرتی ہیں کہ دنیا کی یہ زندگانی فانی ہے اور ہر انسان کو جلد یا بدیر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے‘ جہاں پر اس کے سرمایہ‘ مال‘ دولت اور شہرت کا مول نہیں ہو گا بلکہ اس دن انسان کے اعمال کی اہمیت ہو گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ القارعہ کی آیات 6 سے 11 میں اس حقیقت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''تو وہ شخص کہ ہوں گے وزن دار اعمال اس کے‘ سو وہ ہو گا دل پسند عیش میں‘ اور وہ شخص کہ ہوں گے ہلکے اعمال اس کے‘ تو ہو گا اس کا ٹھکانا گہرا گڑھا۔ اور کیا جانو تم کیا ہے وہ؟ آگ ہے دہکتی ہوئی‘‘۔
اخروی زندگی کے لیے انسان کو ابھی سے تیاری کرنی چاہیے اور اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا دارالعمل ہے اور یہاں پر کیے گئے اعمال کا انسان کو آخرت میں بدلہ دیا جائے گا۔ حقیقی کامیابی اسی شخص کو حاصل ہو گی جو جہنم کی آگ سے بچ کر جنت کے باغات میں داخل ہو جائے گا ۔اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 185 میں یوں واضح فرماتے ہیں: ہر جان کو چکھنا ہے مزہ موت کا‘ اور بے شک دیے جائیں گے تم کو پورے اجر تمہارے (اعمال کے) روزِ قیامت‘ پس جو بچا لیا گیا آگ سے اور داخل کر دیا گیا جنت میں تو بے شک کامیاب ہو گیا وہ‘ اور نہیں ہے دنیاوی زندگی مگر محض سامان دھوکے کا۔
دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو زندگی کے اتار چڑھائو سے سبق حاصل کر کے صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے تاکہ ہم صحیح طور پر اپنی اخروی زندگی کی تیاری کرکے آخرت میں سربلندی اور کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved