26ویں آئینی ترمیم سینیٹ و قومی اسمبلی سے مطلوبہ دو تہائی اکثریت سے منظور ہو گئی ہے۔ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کے لیے 64اراکین کی ضرورت تھی‘ وہاں سے ترمیم کے حق میں 65ووٹ پڑے۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ووٹ درکار تھے جبکہ حکومتی اتحاد 225اراکین کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ صدرِ مملکت کے دستخط کے بعد 17سال قبل میثاقِ جمہوریت میں کیا گیا وعدہ پورا ہو گیا ہے۔ آئینی ترمیم بل 2024ء ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا ہے۔ گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد 26ویں آئینی ترمیم فوری طور پر نافذ العمل ہو گئی ہے۔ میثاقِ جمہوریت دراصل مارشل لاء کا راستہ روکنے کا میثاق ہے‘ سیاستدانوں نے اپنے تئیں آمر کا راستہ روکنے کا تو بندوبست کر لیا مگر کچھ برسوں سے اہلِ سیاست کو شکوہ تھا کہ عدلیہ سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جب انتظامی امور میں کھل کر مداخلت شروع کی تو عدالتی اصلاحات کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ماضی میں سبھی سیاسی جماعتیں عدالتی اصلاحات کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ سوال مگر یہ تھا کہ بھاری پتھر اٹھائے کون؟
پی ٹی آئی نے دونوں ایوانوں میں ترمیم پر رائے شماری کا بائیکاٹ کیا اور اس کے اراکین اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے‘ تاہم پی ٹی آئی ٹھوس مؤقف کے ساتھ آئینی ترمیم کی مخالفت کرنے سے قاصر رہی ‘ جس طرح مولانا فضل الرحمن نے مسودے پر اعتراض کیا اور متبادل مسودے پر حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کی‘ وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ٹھہرے‘ اس لحاظ سے پی ٹی آئی کا مؤقف کمزور دکھائی دیتا ہے۔ گو پی ٹی آئی کو ووٹنگ کے عمل میں شریک نہ ہونے کا حق حاصل ہے مگر جمہوری عمل میں تمام جماعتوں کی شرکت جمہوریت کا حسن ہے۔ اگر پی ٹی آئی بھی مولانا فضل الرحمن کی طرح دور اندیشی کا مظاہرہ کرتی تو بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا تھا‘ مگر یوں لگتا ہے پی ٹی آئی نے اہم موقع گنوا دیا۔ گیا وقت لوٹ کر نہیں آتا‘ آئینی ترمیم کے بعد بظاہر حکومت مستحکم ہو چکی ہے۔ حکومت کو پی ٹی آئی کی طرف سے اب کسی بڑے چیلنج کا سامنا نہیں ۔ حکومت یکسوئی کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر کام کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی نسبت جمعیت علمائے اسلام(ف) کے ووٹ دونوں ایوانوں میں کم تھے مگر مولانا نے اپنی سیاسی بصیرت سے وہ حاصل کر لیا‘ پی ٹی آئی جس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ مولانا نے حکومتی اتحاد کو باور کرایا کہ ان کے ووٹوں کی اہمیت ہے‘ مگر دوسری طرف انہوں نے اپنے گھر آنے والوں کو یہ تاثر بھی دیا کہ وہ اپنے پاس آنے والے ہر فریق کی قدر کرتے ہیں۔ حکومتی اتحاد آخری لمحے تک مولانا کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پُرامید تھا تو اس کی بنیادی وجہ مولانا کا رویہ تھا۔ مولانا کے رویے سے بیک وقت حکومت اور پی ٹی آئی دونوں خوش ہیں۔ یہ مہارت اُنہی کا خاصا ہے‘ کوئی بھی دوسرا لیڈر ایسے موقع پر تمام فریقوں کے درمیان توازن کو برقرار نہ رکھ پاتا۔
26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ انتہائی غور و خوض اور سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد جمہوری طریقے سے اس عمل کو انجام دیا گیا ہے۔ اس میں کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ۔ 16ستمبر کو حکومت نے جب آئینی ترمیمی پیکیج قومی اسمبلی میں پیش کیا تو پی ٹی آئی اور جے یو آئی کو اس کے مسودے پر اعتراض تھا۔ سو مسودے کو متفقہ بنانے کے لیے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی قائم کی گئی جس میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی۔ آئینی ترمیم کی ایک ایک شق پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ پی ٹی آئی بھی مولانا فضل الرحمن کے کردار کی معترف تھی کہ انہوں نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ترمیم کو منظور ہونے سے روک دیا۔ پھر مسودے پر مشاورت کا عمل شروع ہوا۔ پی ٹی آئی کمیٹی کے تمام اجلاسوں میں شریک رہی۔ یہ اطلاعات بھی آئیں کہ مولانا فضل الرحمن نے جو مسودہ فائنل کیا ہے‘ اس پر پی ٹی آئی کو کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم آئینی ترمیم ایوان کے اندر پیش ہونے اور ووٹنگ سے ایک دن پہلے نیا مؤقف سامنے آ گیا۔ پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ 26ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ پی ٹی آئی کو سب سے بڑا اعتراض چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کار پر ہے حالانکہ حکومت کے لیے تنہا چیف جسٹس کی تقرری اس ترمیم کے بعد بھی آسان نہیں ہو گا کیونکہ اپوزیشن بھی اس عمل کا حصہ ہو گی۔ اگر اپوزیشن کی شمولیت کے بغیر تقرری ہوتی تو کسی حد تک اعتراض بجا تھا مگر اپوزیشن کو باہر رکھ کر حکومت نے تمام فیصلے اپنے پاس رکھنے کے لیے کوئی ترمیم نہیں کی ہے۔ جس طرح آرمی چیف‘ چیف الیکشن کمشنر‘ چیئرمین نیب اور دیگر اداروں کے سربراہان کی تقرری جمہوری عمل سے ہوتی ہے‘ اب چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری بھی وسیع تر مشاورت اور جمہوری عمل سے ہوا کرے گی۔ سپریم کورٹ کے ججز اور چیف جسٹس کی تقرری کے لیے الگ الگ کمیٹیاں قائم ہوں گی۔ بارہ رکنی جوڈیشل کمیشن کو اختیارات دیے گئے ہیں جو سپر یم کورٹ کے ججز کی تقرری کرے گا۔ اس کمیشن کے سربراہ چیف جسٹس ہوں گے۔ ان کے علاوہ پریزائیڈنگ جج اور تین سینئر موسٹ جج اس کے ممبر ہوں گے۔ دو اراکینِ قومی اسمبلی اور دو اراکینِ سینیٹ اس کے رکن ہوں گے۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف‘ اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے نامزد وکیل بھی اس کے ممبر ہوں گے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے جو چار اراکین نامزد کیے جائیں گے ان میں سے دو کا تعلق حکومتی بنچوں اور دو کا اپوزیشن سے ہو گا‘ لہٰذا پی ٹی آئی کی طرف سے یہ تاثر دینا کہ اس ترمیم کا مقصد حکومت کا اثر بڑھانا ہے‘ درست نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی تشکیل کا اختیار بھی جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے۔ اس بینچ میں تمام صوبوں کی نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری 12رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی۔ اس کمیٹی میں قومی اسمبلی کے آٹھ‘ سینیٹ کے چار اراکین شامل ہوں گے۔ تمام جماعتوں کو پارلیمنٹ میں ان کی تعداد کے تناسب سے کمیٹی میں نمائندگی ملے گی۔ قومی اسمبلی تحلیل ہو تو سینیٹ کے چار اراکین تقرری کے مجاز ہوں گے۔ کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو کثرت رائے سے چیف جسٹس مقرر کرے گی۔
اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بعد پی ٹی آئی بخوبی جانتی ہے کہ سیاسی میدان سے آؤٹ ہونے کا نقصان کیا ہوتا ہے‘ پھر بھی ویسی ہی غلطی دہرائی گئی ہے۔ اب پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم میں حصہ نہ لے کر خود کو سسٹم سے الگ کر لیا ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی جب جب قومی دھارے سے الگ ہوئی‘ حکومت کے لیے آسانی پیدا ہو گئی۔ آئینی ترمیم کے بعد فوری نوعیت کا معاملہ نئے چیف جسٹس کی تعیناتی ہے کیونکہ 25اکتوبر موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہدے کی مدت کا آخری دن ہے۔ نئے طریقہ کار کے مطابق چیف جسٹس کی تقرری کا عمل عہدے پر موجود چیف جسٹس کی سبکدوشی سے تین دن پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 22اکتوبر رات 12بجے تک تین نام آئینی کمیٹی کو بھیجنے کے پابند ہیں۔ نئے چیف جسٹس کی تقرری میں اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی بھی شامل ہو گی‘ مگر خدشہ ہے کہ جس طرح پی ٹی آئی نے آئینی ترمیم کے عمل سے خود کو الگ کر لیا کہیں وہ چیف جسٹس کی تقرری کے عمل سے بھی علیحدہ نہ ہو جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved