حاکمِ یمامہ کے نام خط‘ حکومت میں شراکت کا مطالبہ: جس طرح نبی کریمﷺ نے جزیرہ نمائے عرب کے باہر بڑی بڑی سلطنتوں کے تاجداروں کے نام خطوط لکھے اسی طرح عرب کے اندر قوموں اور قبیلوں کے سرداروں کو بھی‘ جنہیں انکے قبائل کے درمیان تاجدار تو نہیں مگر حکمران کا درجہ حاصل تھا‘ بذریعہ خطوط اسلام کی دعوت دی۔ یمامہ کے علاقے میں یوں تو بہت سے مقتدر سردار موجود تھے مگر قبیلہ بنوحنیفہ کا ایک سردار ان میں سے سب سے زیادہ صاحبِ اثر و رسوخ تھا۔ اس کا نام ہَوذہ بن علی الحنفی تھا۔ آپﷺ نے اسے اسلام کی دعوت پر مشتمل خط لکھا۔ آپﷺ کا مکتوب گرامی حضرت سُلَیط بن عمرو العامریؓ نے اس تک پہنچایا۔ اس نے خط پڑھنے کے بعد آپﷺ کے قاصد سے مختلف سوالات کیے۔
جب اسے یہ معلوم ہوا کہ آنحضورﷺ نے نبی ہونے کے ساتھ ایک ریاست بھی قائم کی ہے اور آپﷺ اس کے سربراہ ہیں تو وہ حیران رہ گیا۔ پھر اس نے مطالبہ کیا کہ اسلامی ریاست میں اسے بھی حصہ دار بنایا جائے تو وہ یہ دین قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ حضرت سُلَیطؓ نے جواب دیا کہ اسلام تو اللہ کا دین ہے‘ اسے غیرمشروط قبول کیا جاتا ہے‘ شرائط لگانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ آپؓ نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اس کی یہ خواہش مدینہ کی ریاست تک پہنچا سکتے ہیں مگر اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔
اس عرب سردار نے آپﷺ کے قاصد کو اپنی قبائلی روایت کے مطابق کچھ تحائف پیش کیے مگر اسلام قبول کرنے سے مجتنب رہا۔ جب قاصد نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں آکر روداد بیان کی تو آپﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم اگر وہ اسلام قبول کرنے کے عوض میں بالشت بھر جگہ کا مطالبہ بھی کرے گا تو اسے نہ دی جائے گی۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ وہ شخص کچھ عرصے بعد ہلاک ہو گیا۔
اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے لیے کوئی شخص اگر شرطیں لگائے تو اس کی شرطیں اور مطالبات مسترد کر دیے جاتے ہیں۔ البتہ تاریخِ اسلام اور سنت نبویﷺ سے یہ ثابت ہے کہ غیر مشروط طور پر اسلام میں داخل ہونے کے بعد بہت سارے لوگوں کو بڑے بڑے انعامات سے نوازا گیا۔ جہاں تک غیرمسلموں کی تالیفِ قلب کا سوال ہے وہ اس سے مختلف معاملہ ہے کیونکہ اس میں ان کے دلوں کو نرم کرنے اور بَطِیْبِ خاطر اسلام میں داخل ہونے کی ترغیب ہے۔
باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکتِ میانہ حق و باطل نہ کر قبول!
پاپائے روم کے نام خط: ایک خط کا تذکرہ مؤرخین نے کیا ہے مگر اس کے قاصد کا نام کہیں سے معلوم نہیں ہو سکا۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے الوثائق السیاسیۃ میں ضغاطر الاسقف کے نام نبی کریمﷺ کے دعوتی خط کا ذکر کیا ہے مگر اسکی تفصیلات سامنے نہیں آ سکیں۔ پاپائے روم کی اہمیت مسیحی دنیا میں ہمیشہ مذہبی پیشوا کے طور پر مسلّم رہی ہے۔ خط کا مضمون اس طرح ہے: ''سلام ہو ہر اس شخص پر جو ایمان لائے۔ اماّبعد۔ آپکو معلوم ہو ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ ابن مریمؑ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں‘ جو اس نے مریم طیبہ کو القا کیا تھا۔ میں ایمان لاتا ہوں‘ اللہ پر‘ ان تعلیمات پر جو ابراہیم‘ اسحاق‘ یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر نازل ہوئی تھیں اور ان تعلیمات پر جو موسیٰ‘ عیسیٰ اور دوسرے نبیوں پر ان کے رب کی طرف سے نازل ہوئیں۔ ہم ان میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے‘ اور ہم اللہ کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرتا ہے‘‘۔
حضور اکرمﷺ کی ہر بات میں حکمت و تبلیغ کی بہترین شرینی ہوتی تھی۔ آپﷺ کے زبانی خطابات‘ مجلسی گفتگو‘ تحریری مکاتیب‘ غرض ہر ایک موعظۂ حسنہ کی اکمل ترین مثال ہے۔ اس کے باوجود حق سے روشناس اور ہم کنار وہی خوش نصیب ہوئے جن کے دلوں میں انابت اور طلبِ حق کی خواہش تھی۔ پوپ کی طرف سے کوئی جوابی خط تاریخی ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔ البتہ پوپ کے زیر اثر ریاست کے ساتھ مسلم ریاست کی کسی بھی دور میں کوئی جنگ وغیرہ نہیں ہوئی۔ پوپ بین المذاہب ہم آہنگی اور بقائے باہمی کا علم بردار رہا ہے جو خوش آئند بات ہے۔
رومی سلطنت میں پوپ کو تقدس کا درجہ حاصل تھا اور اسے امورِ سلطنت میں براہِ راست مداخلت کا حق اگرچہ نہ دیا جاتا تھا‘ تاہم اسے بہت بڑی جاگیر سے نوازا گیا تھا اور اسکا بے پناہ رعب ہوا کرتا تھا۔ انگریزی زبان کی کہاوت ہے:To live in Rome and fight with the pope۔ یعنی دریا میں رہنا اور مگر مچھ سے بیر؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ بعد کے ادوار میں اسی ریاست کو (موجودہ اٹلی) میں چھوٹا سا علاقہ ویٹی کن کے نام سے مختص کر دیا گیا جو آج تک پوپ کے زیرِ انتظام ہے۔
عیسائیت نے اٹھارہویں صدی میں عالمِ اسلام کے زوال کے بعد اپنے استعماری پنجے گاڑے اور مسلم دنیا کو زیر تسلط لانے کے لیے اپنی تجارتی اور عسکری مہمات شروع کیں تو پاپائیت اور کلیسا پوری طرح استعماری قوتوں کا موید و معاون تھا۔ عالمِ اسلام میں اسی دور میں گرجا گھروں اورمسیحی Seminaries اور دیگر اداروں کا جال پھیلایا گیا۔ مغرب کو جو بالادستی حاصل ہوئی اس کے سیاسی میدان سے نکل جانے اور عالمِ اسلام کو آزادی مل جانے کے باوجود عملاً ابھی تک وہ ہم پر مسلط ہے۔ پاپائے روم کو دنیا کے تمام ممالک (بشمول مسلم ممالک) میں ایک سربراہِ مملکت کا پروٹوکول دیا جاتا ہے۔
ویٹی کن سٹی خالص مذہبی ریاست ہے جس کا درجہ ایک شہری ریاست (City State) کی طرح ہے۔ یہ روم شہر کے اندر واقع ایک چھوٹی سی کالونی سمجھ لیجیے۔ ویٹی کن پہاڑی روم شہر سے گزرنے والے دریائے ٹائبر کے دائیں کنارے پر واقع ہے اور اسی کے اوپر یہ بستی آباد کی گئی ہے۔ 1959ء میں یہ کئی ایک ریاستوں کا مجموعہ تھا جو سب پوپ کے زیر انتظام تھیں‘ اس زمانے میں اس کا رقبہ 44ہزار مربع کلومیٹر کے قریب تھا جبکہ موجودہ رقبہ صرف 0.49مربع کلومیٹر ہے یعنی یہ محض ایک بستی کے اندر ایک محلہ ہے۔ اس کے باوجود اسے ایک ریاست کا درجہ حاصل ہے جو دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھی مثال ہے۔ آنحضورﷺ کے دور میں بھی پوپ مذہبی تقدس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی مقام و مرتبے کا حامل تھا۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی سیاح جب ویٹی کن کے دروازے پر پہنچتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ ویٹی کن کے اندر اسے تمام آداب ملحوظ رکھ کر گھومنا پھرنا ہوگا۔ خواتین کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ ننگے سر ''مقدس ریاست‘‘ میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ افسوس ہے کہ یورپ کے نام نہاد مہذب معاشروں میں مسلمان عورت کو جو اپنے دینی شعائر کے تحت پردہ کرنا چاہتی ہے‘ پردے اور حجاب کی اجازت نہیں جبکہ ویٹی کن میں خواتین سے حکماً یہ پابندی کرائی جاتی ہے۔
حضور اکرمﷺ کے خطوط اس بات کی علامت ہیں کہ آپﷺ نے اللہ کے پیغام کا ابلاغ پوری دنیا میں مکمل کر دیا۔ آپﷺ نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں ایک لاکھ چوبیس ہزار کے لگ بھگ صحابہ و صحابیات سے پوچھا تھا: ''کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے؟‘‘ تو پورا مجمع یک زبان پکار اٹھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپ نے خیرخواہی کا حق ادا کر دیا‘ اللہ کا پیغام پوری طرح ہم کو پہنچا دیا۔ اس پر آپﷺ نے دو باتیں کہیں۔ ایک تو اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے اللہ! لوگوں نے گواہی دی ہے‘ آپ بھی اس پر گواہ رہیں۔ دوسری بات سامعین سے کہی اور وہ یہ تھی کہ میرا پیغام جس تک پہنچے اسے چاہیے کہ یہ آگے ان لوگوں تک پہنچائے جن کو ابھی تک یہ پیغام نہیں پہنچ سکا۔ (صحیح بخاری، حدیث 4403)
سچی بات یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ایک ایسے دور میں‘ جب ذرائع ابلاغ بہت سست اور معدوم تھے‘ ایسا کام کر دکھایا جو ایک معجزہ ہے۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved