یہ وہ سوال ہے جو دس سال سے میرے ذہن میں بار بار ابھرتا ہے۔ سوچا کبھی اعتزاز احسن سے ملاقات ہوئی تو ضرور پوچھوں گا۔ اعتزاز احسن پاکستان کے چند پڑھے لکھے سیاستدانوں اور اچھے مقررین میں سے ہیں‘ جنہیں آپ گھنٹوں سنتے رہیں تو بھی بور نہ ہوں۔ ان کے پاس گفتگو کیلئے بہت مواد ہے۔ کامیاب لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اچھی اور خوبصورت گفتگو دلیل کے ساتھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ میں اپنی زندگی کے سبق سے یہی سمجھا ہوں کہ آپ دوسروں کو خود سے وابستہ رکھنا چاہتے ہیں تو ان پر احسان کریں‘ ان کی مدد کریں‘ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیں یا پھر آپ اتنی اچھی گفتگو کر سکتے ہوں کہ لوگ آپ سے بار بار ملنا چاہیں۔
میری اس فہرست میں کئی لوگ ہیں۔ ایک ہمارے گائوں کا شبیر قصائی تھا‘ چھپڑ تلے جس کی دکان تھی‘ جہاں برف کے میٹھے گولے‘ خالص دودھ کی ہاتھ سے بنی آئس کریم‘ سویاں اور پھل‘ سبزیاں وغیرہ ملتی تھیں لیکن شبیر قصائی کا بڑا فن دکان چلانا نہیں بلکہ قصے کہانیاں سنانا تھا۔ ان جیسا قصہ گو پھر نہ ملا۔ ہم گائوں کے چھوٹے بڑے گرمیوں کی دوپہر میں چھپڑ تلے اس دکان میں اکٹھے ہوتے اور اصرار کر کے قصے کہانیاں سنتے۔ وہ سناتے جاتے اور ہم محو ہو جاتے۔ یوں ان کی دکان چلتی اور ہماری دوپہریں گزر جاتیں۔ وہی بات کہ گفتگو کا فن آپ کو لوگوں میں مقبول بنا دیتا ہے۔ یہی فن ملتان میں ڈاکٹر انوار احمد کے پاس ہے کہ عاشقان کھنچے چلے آتے ہیں۔ اسلام آباد پہنچا تو ڈاکٹر ظفر الطاف جیسا پڑھا لکھا اور خوبصورت گفتگو والا انسان ملا۔ پھر میجر عامر سے ملاقات ہوئی‘ جو محفل کو گرمانا خوب جانتے ہیں۔ لاہور کی بات کریں تو مجیب الرحمن شامی صاحب جیسی گفتگو شاید ہی کوئی کر سکتا ہو۔ 2014ء میں نیویارک میں مشتاق بھائی کی بیٹی کی شادی میں ہم اکٹھے ہوئے تو شامی صاحب نے کیا خوبصورت محفل جمائی۔ برادرِ عزیز حفیظ اللہ نیازی بھی اپنے مخصوص میانوالی والے انداز میں محفل کو جو رنگ بخشتے ہیں اس کا ذائقہ صرف انہیں ہی معلوم ہے جو ایسی محفلوں کا حصہ رہے ہوں۔ 2002ء میں پارلیمنٹ کی کارروائی رپورٹ کرنے پہنچے تو وہاں اعتزاز احسن‘ چودھری نثار علی خان‘ لیاقت بلوچ‘ حافظ حسین احمد‘ محمود خان اچکزئی اور ایاز امیر جیسے افراد کو دیکھا جو تقریروں میں کمال رکھتے ہیں۔ پھر بابر اعوان پارلیمنٹ میں داخل ہوئے اور انہوں نے وہاں چند کمال کی تقاریر کیں‘ جو مشکل حالات میں کی گئی تھیں۔ ایک تقریر وہ تھی جب مالاکنڈ اور سوات میں صوفی محمد شریعت کا نفاذ چاہتے تھے۔ دوسری تقریر اُس وقت کی جب طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا جا رہا تھا۔ میرے بس میں ہوتا تو کم از کم ان دو تقاریر کو پاکستان کی بہترین تقاریر میں شمار کرتا۔ ایک تقریر اور بھی تھی جو ایم این اے ایاز امیر نے اُس وقت کی تھی جب طالبان کو سوات میں الگ 'ریاست‘ دی جا رہی تھی کہ وہ اپنی مرضی سے شریعت کے مطابق جو دل کرے‘ وہاں کریں۔ اس دن ارکانِ اسمبلی کو چھوڑیں‘ وفاقی وزرا تک ڈرے ہوئے تھے کہ طالبان کے ترجمان مسلم خان نے دھمکی دی تھی کہ اس بل کے خلاف کسی نے ووٹ دیا تو اس کی خیر نہیں۔ اسلام آباد میں دہشت کا سماں تھا‘ مگر ایک بندہ جو پورے ہائوس میں کھڑا ہوا‘ وہ ایاز امیر تھا ‘جس نے طالبان کے خلاف دھواں دھار تقریر کی اور خبردار کیا کہ ریاست اس طرح سرنڈر کر کے اپنا نقصان کر رہی ہے۔ برسوں گزر گئے لیکن ایاز امیر کی وہ تقریر میرے دل ودماغ سے نہیں اُتری۔ اسی طرح بابر اعوان کی دو اور تقاریر بھی یادگار ہیں۔ اگرچہ وہ دونوں عدالت میں کی گئی تھیں۔ یہ دلائل انہوں نے چیف جسٹس افتخار چودھری کے سامنے دیے تھے‘ جنہوں نے ان کا لائسنس کینسل کیا ہوا تھا۔ اس موقع پر وکیل معافی تلافی کی کوشش کرتے ہیں لیکن معافی چھوڑیںبابر اعوان نے الٹا چیف جسٹس کو کھری کھری سنا دیں کہ آپ سے پہلے بھی اس کرسی پر فرعون بیٹھتے رہے ہیں‘ کہاں گئے وہ سب؟ ایک شعر بھی پڑھا:
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا
خیر‘ بات تقریروں سے شروع ہوئی تھی تو ایک اور تقریر بھی یادگار تھی جس کا آج دس سال بعد میں تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ تقریر 2015ء میں اعتزاز احسن نے کی تھی جب وہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر تھے۔ اعتزاز احسن نے اس تقریر میں انکشاف کیا کہ وہ افتخار چودھری سے شدید مایوس ہوئے۔ ججز بحالی تحریک میں کئی وکیلوں نے اربوں روپے کمائے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں بھاری فیسوں کی پیشکش ہوئی کہ وہ ان کے مقدمات چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالت میں پیش ہو کر لڑیں لیکن انہوں نے اصول کی بنیاد پر وہاں پیش ہونے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ چیف جسٹس کے وکیل رہ چکے تھے۔ لیکن ججز تحریک کے کچھ وکلا نے اس اصول کی پاسداری نہیں کی اور وہ ارب پتی بن گئے۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی سے کئی پارٹیوں نے رابطہ کیا کہ وہ ان کے وکیل بنیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔
اب دو تین سوالات ہیں۔ پہلا سوال یہ کہ اعتزاز احسن افتخار چودھری سے کیوں مایوس ہوئے؟ اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں۔ ایک تو ان کے بیٹے ارسلان افتخار کا سکینڈل‘ جس سے سب کو جھٹکا لگا کہ جس جج کو بحال کرانے کیلئے پوری قوم نے سر دھڑ کی بازی لگا دی‘ درجن بھر وکیل اسلام آباد کچہری میں بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے‘ اس کا اپنا بیٹا نہ صرف تگڑا مال بنا رہا تھا بلکہ اس کا باپ اس سکینڈل کا کیس خود اپنی عدالت میں سن رہا تھا۔ یقینا اعتزاز احسن جیسے ہمدردوں کو دکھ ہوا ہوگا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا۔ یہ دھوکا شاید وہ بھول جاتے اگر افتخار چودھری سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو برطرف کرنے کا فیصلہ نہ سناتے‘ حالانکہ اعتزاز احسن وزیراعظم گیلانی کا دفاع کرنے ان کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ اعتزاز احسن کو اس بات کا دکھ عمر بھر رہے گا کہ صدر زرداری نے ان کی چیف جسٹس سے قربت کی وجہ سے وزیر قانون بابر اعوان کی قربانی دی‘ جو بعد میں پارٹی چھوڑ گئے‘ جس کا پیپلز پارٹی کو نقصان بھی ہوا کہ پھر بابر اعوان کی قابلیت عمران خان کی پارٹی کے کام آئی۔ مگر اعتزاز احسن نے پیپلز پارٹی کے حلقوں میں اپنی جو اہمیت بنائی ہوئی تھی‘ وہ دھڑام سے نیچے آن گری۔ اعتزاز احسن کو یہی غصہ تھا کہ جس بندے کو انہوں نے دو دفعہ چیف جسٹس کی سیٹ پر بحال کرایا‘ وہ ان کیلئے اتنا بھی نہ کر سکا کہ وزیراعظم گیلانی کو ان کے دلائل کے بعد برطرف نہ کرتا۔ اگر افتخار چودھری کے ذریعے عدلیہ تحریک کے وکلا ارب پتی بن رہے تھے تو اتنی سہولت تو اعتزاز احسن کو بھی دی جا سکتی تھی۔ اس زخم کو اعتزاز احسن کبھی نہیں بھول سکے ۔ مطلب یہ کہ اعتزاز احسن سے اس جج کو پہچاننے میں غلطی ہوئی یا وہ غلط توقعات باندھ بیٹھے تھے۔ کیا اعتزاز احسن اپنی حمایت کا صلہ چاہتے تھے جو باقی وکلا کو تو مل رہا تھا لیکن اعتزاز احسن کو نہ ملا؟ یا پھر انہوں نے ارب پتی بننے کے بجائے وہ قیمت مانگ لی جو افتخار چودھری کے بس میں بھی نہیں تھی؟یہ سب باتیں اپنی جگہ لیکن کیا اعتزاز احسن اپنا پرانا قرض اتاریں گے کہ انہوں نے قوم کو نئے نعرے اور آزاد عدلیہ کا خواب دکھا کر پیچھے لگایا اور پھر کہا کہ غلطی ہوگئی ؟ کم از کم ان وکیلوں کے نام تو بتائیں جو ان کے بقول افتخار چودھری کی وجہ سے ارب پتی بن گئے۔ اب جب حامد خان نئی تحریک کا اعلان کر رہے ہیں تو قوم کا حق بنتا ہے کہ اعتزاز احسن ان وکلا کے نام بتائیں تاکہ قوم اس سوراخ سے دوبارہ نہ ڈسی جائے۔ اعتزاز احسن یہ قرض اتاریں گے یا تاریخ کی کتابوں میں گم ہونا پسند کریں گے؟ وہ اعتزاز احسن جو دنیا بھر کے ادب اور شاعروں کے حوالے دے کر آپ کا دل تو گرما سکتا ہے کیا اپنی آخری اننگز میں بہادر بن کر ان وکیلوں کے نام نہیں بتا سکتا جو ارب پتی بن گئے تھے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved